یہ ضمیر کس چڑیا کا نام ہے؟ اور وہ کس پیڑ پر رہتی ہے؟ ہم تو ایک ہی ضمیر کو جانتے ہیں اور وہ تھے سید ضمیر جعفری۔ مزاحیہ شاعری کرتے تھے۔ مزے کے آدمی تھے۔ خوب ہنسنے ہنسانے والے۔ سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے‘ مگر مشہور مزاحیہ شاعری کی وجہ سے ہی ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر ساٹھ ستر کی دہائی تک سرکاری ملازمت کرتے چلے آ رہے تھے۔ ایک محکمے سے ریٹائر ہوتے تو دوسرے محکمے میں چلے جاتے۔ وہاں سے ریٹائر ہوتے تو کسی تیسرے محکمے میں چلے جاتے۔ احمد فراز ایک ہی شرارت کا پتلا۔ ایک دن کہنے لگا ''جعفری صاحب، اب تو آپ کے نقلی دانت بھی جھڑنے لگے ہیں۔ اب تو ریٹائر ہو جائیے۔‘‘ جعفری صاحب نے یہ سنا اور ایک قہقہے میں سب کچھ اڑا دیا۔ بعد میں جعفری صاحب کے صاحب زادے جنرل احتشام ضمیر نے بھی بہت نام کمایا۔ انہوں نے تو سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اخبار میں کالم لکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ تو صاحب، ضمیر تو یہ ہوتا ہے۔ کبھی اس کروٹ تو کبھی اس کروٹ۔ (اب یہاں فلمی گانا یاد کر لیجئے) ضمیر جاگتا بھی ہے اور پھر سو بھی جاتا ہے۔ بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ پہلے یہ ضمیر سویا ہوا تھا۔ پھر اچانک جاگ گیا۔ اور یہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جاگنے والے ضمیر کا ہی کارنامہ ہے کہ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔ تاریخ کا ایک ورق اور پلٹ گیا۔ سب حیران پریشان۔ مگر جاننے والے خوش کہ وہ کامیاب ہو گئے۔ آخر انہیں کامیاب ہونا ہی تھا۔ اور ہاں، اس ضمیر کو سلانا اور جگانا بھی تو ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہم خواہ مخواہ پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ اب ہم سے کہا جا رہا ہے ''گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر‘‘ اب ہم لکیر پیٹ رہے ہیں۔ اور یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری تو تاریخ ہی یہ ہے۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ تاریخ ہمیشہ فاتح لکھتا ہے۔ مفتوح غلام کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارے تاریخ لکھنے والے ہماری تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اس تاریخ کی باگ ڈور بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ بھلا وہ کیسے پسند کریں گے کہ انہوں نے جو عمارت کھڑی کی ہے اس میں ذرا سی بھی ٹوٹ پھوٹ ہو جائے۔ اور ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ہم اتنے کوڑھ مغز کیوں ہیں؟ ہم نے پہلے یہ کیوں نہیں سمجھا تھا؟ انہوں نے تو سوچ سمجھ کر یہ راستہ اپنایا ہے۔ اور شروع سے ہی یہ راستہ صاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پہلے ہی ہماری نئی نسل میں سیاست اور سیاست دان گالی بنا دئیے گئے ہیں۔ اب سینیٹ میں جو ہوا اس نے ان سیاست دانوں کے منہ پر اور بھی کالک پوت دی ہے۔ چاہنے والے یہی تو چاہتے ہیں۔ ان کا تو منصوبہ ہی یہ ہے۔ ستر بہتر سال سے ہم یہی تو دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اب ذرا اپنی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے ۔ یہ سیاہ دھبے آپ کو جگہ جگہ دکھائی دیں گے۔ حا صل بزنجو بے چارے خواہ مخواہ کی بیان بازی میں مارے گئے۔ اب انہیں چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ اپنا علاج کرائیں۔ سرطان کا مرض آسانی سے نہیں جاتا۔ اچھا ہوا، وہ فوراً ہی ہسپتال پہنچ گئے۔ ان کے لئے خاموشی ہی بہتر ہے۔
اب سیاسی جماعتیں کمیٹیاں بنا رہی ہیں۔ تحقیق اور تفتیش کر رہی ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کے ضمیر اس وقت تک سوئے ہوئے تھے جب تک انہوں نے کھڑے ہو کر عدم اعتماد کی قرارداد کی حمایت کی۔ اور یہ ضمیر اس وقت جاگ گئے تھے جب خفیہ رائے شماری میں انہوں نے اسی قرارداد کی مخالفت کر دی۔ اور یہ سب پلک جھپکتے ہو گیا۔ ظاہر ہے یہ ارکان چھپے تو نہیں رہیں گے۔ بہرحال سامنے آ جائیں گے۔ مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی؟ اور یہ ضابطے کی کارروائی کیا ہو گی؟ کیا انہیں پارٹی سے نکال دیا جا ئے گا؟ اور پھر ان کی سینیٹ کی رکنیت کا کیا ہو گا؟ پیپلز پارٹی کے تمام ارکان نے تو اپنے استعفے پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے حوالے کر دئیے ہیں۔ اب بلاول بھٹو ان استعفوں کا کیا کریں گے؟ میاں رضا ربانی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس واقعے کے بعد ہمارے لیے سینیٹ میں بیٹھنا شرم کی بات ہو گی‘ ہمارا تو سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ تو سینیٹ کی رکنیت بالکل ہی چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد باقی ارکان بھی تذبذب کا شکار ہو جائیں گے۔ تو کیا اس طرح آئینی بحران پیدا نہیں ہو گا؟ یہ بھی سوال ہے۔ اب رہی نون لیگ، تو اس نے بھی سنجرانی کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کی شناخت کے لئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں بھی ان ارکان کی شناخت ہو جائے گی۔ اس کے بعد شہباز شریف کیا کریں گے؟ کیا ان ارکان کو جماعت سے نکال دیں گے؟ اگر انہیں نکال دیا تو پھر کیا ہو گا؟ جماعت میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہو گی؟ نون لیگ کے ارکان نے سینیٹ کی رکنیت کے بارے میں کو ئی بات نہیں کی ہے۔ لیکن انہیں بھی اس سلسلے میں وضاحت کرنا پڑے گی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس واقعے نے دونوں جماعتوں کو مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ زخم سہلانا تو محاورے کی بات ہے۔ یہاں تو یہ جماعتیں واقعی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ اور ہم چاہتے بھی تو یہی ہیں۔ ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ سے ہی فرصت نہ ملے کہ وہ دوسری طرف نظر کر سکیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان اپنی جان کی خیر مناتے پھریں اور سیاست سے باز آ جائیں۔ ہم نے اوپر نئی نسل میں سیاست اور سیاست دانوں سے بیزاری کا حوالہ دیا۔ یہ ہمارے دماغ کی اختراع نہیں۔ اگر آپ کی سوشل میڈیا تک رسائی ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ نئی حکومت یا اس سے متعلق افراد کے بارے میں ذرا سی بات پر بھی یہ نئی نسل کس رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔ کیسی کیسی زبان ہے جو یہ نئی نسل استعمال نہیں کرتی۔ صرف گالیاں دینے کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ سیاست دانوں کو ایسی ایسی سنائی جاتی ہیں کہ باقی ادارے فرشتے بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ اب آپ اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جج صاحب، اپنا سارا وقت ڈیم بنانے کی فکر میں لگا دیتے ہیں اور ڈیم نہیں بنتا۔ اب معلوم نہیں اس ڈیم کے لئے جو فنڈ اکٹھا کیا گیا تھا اس کا کیا ہوا؟ بلکہ اصل سوال تو یہ ہے کہ اس فنڈ کا کیا ہو گا؟ کیا وہ بینکوں میں پڑا سو کھتا رہے گا؟ یا حکومت اسے کسی اور کام پر لگا دے گی؟ جج صاحب تو ریٹائر ہو گئے۔ اب ان کی بلا سے ڈیم بنتا ہے یا نہیں۔ انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اس فنڈ کا کیا ہو گا؟ بہرحال، اب تو ایسا لگتا ہے کہ یہی ہمارا مقدر ہے۔ ہماری قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے۔ اگر ہمارے لئے کوئی جمہوریت ہے تو یہی نظام حکومت ہے۔ اب اسے جمہوریت کہو یا کچھ اور۔ ہم سے کہہ دیا گیا ہے کہ دیوار پر جو لکھا ہے اسے غور سے پڑھو۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے، کان دبا کر اسے برداشت کرو۔ اور فیض صاحب کو یاد کرو ''اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا‘۔ یہ فیض صاحب بھی کہاں کہاں یاد نہیں آتے۔ ہم تو اپنے دوست احمد فراز کے ہونہار فرزند شبلی فراز کو دیکھتے ہیں، اور سبق حاصل کرتے ہیں کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور حالات کیسی کیسی کروٹیں بدلتے ہیں۔ احمد فراز مرتے مر گئے مگر باچا خاں کی عوامی نیشنل پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ شبلی فراز جب سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جانے کے بارے میں زور شور سے باتیں کر رہے تھے تو ہمیں بہت اچھے لگ رہے تھے۔ ظاہر ہے، یہ ان کے فرائض میں ہی تو شامل ہے۔ اور وہ اپنا فرض ادا کرنا خوب جانتے ہیں۔ آخر وہ بھی تو نئی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ نئی نسل سے بھی اور نئے پاکستان کی نئی حکومت سے بھی۔ اور نئی نسل نئی حکومت کے ساتھ ہے۔ اور آج کا دور نئی حکومت کا ہے۔