"MAC" (space) message & send to 7575

اب کیا ہو گا؟

مرزا وحید سرینگر کے رہنے والے ہیں۔ آج کل برطانیہ میں رہتے ہیں۔ انگریزی میں ناول لکھتے ہیں۔ اسی طرح بشارت پیر بھی سرینگر کے رہنے والے ہیں اور بر طانیہ میں رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے مقبوضہ کشمیر میں وہاں کے عوام پر جو ظلم و ستم ہو رہے ہیں، یہ دونوں ناول نگار اس کے تناظر میں کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ پاکستان میں جو ادبی جشن ہوتے ہیں مرزا وحید ان میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ انہی ادبی میلوں میں ان سے ملاقات ہوئی اور مقبوضہ کشمیر کی اصل صورت حال پر بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔ مرزا وحید پچھلے ایک ہفتے سے ٹویٹر پر لکھ رہے تھے کہ سرینگر میں ان کا اپنے خاندان سے رابطہ بالکل ختم ہو گیا ہے۔ وہاں ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ بند کر دیئے گئے ہیں۔ ہندوستان وہاں دھڑا دھڑ فوجی دستے بھیج رہا ہے۔ ادھر کانگریسی رہنما، سفارت کار اور معروف دانش ور منی شنکر ائیر نے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ہندوستان کے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے پوری وضاحت کے ساتھ لکھا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے اور وہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرکے وہاں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنا چاہتی ہے‘ اور اسرائیل کی طرح مقبوضہ کشمیر کو فلسطین بنانا چاہتی ہے۔ اس مضمون کا حوالہ ہم نے اپنے کالم میں بھی دیا تھا۔ گویا، پیر اور منگل کے دن ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا، وہ اچانک نہیں تھا۔ اس کے لیے پہلے سے زمین تیار کر لی گئی تھی لیکن ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی پر ایسا ایمان لے آئے تھے کہ ہم نے اس وقت تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جب تک مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت باکل ہی ختم نہیں کر دی گئی۔ اب ہم مختلف عالمی فورمز پر جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہی یقین دہانی تو کرائی ہے کہ ہم او آئی سی میں جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھائیں گے۔ ہر ملک کو اس طرف متوجہ کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ہندوستان کا فیصلہ بدل جائے گا؟ اس نے جو قدم اٹھا لیا ہے، کیا وہ اسے پیچھے ہٹا لے گا؟ اس نے تو مقبوضہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک حصہ لداخ ہو گا اور دوسرا جموں اور کشمیر۔ لداخ میں لیہہ اور کارگل یا کرگل شامل ہیں۔ لیہہ میں بودھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ لیکن کارگل میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ نئے قانون کے تحت اس علاقے کی کوئی قانون ساز اسمبلی نہیں ہو گی؛ البتہ جموں اور کشمیر کی قانون ساز اسمبلی ہو گی‘ لیکن چونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی ہے اس لئے اب وہاں ہندوستان کے باشندے (ہندو) جائیداد خرید سکیں گے بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ جموں کے علاقے میں یہ کام پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد وہاں اگر الیکشن ہوں گے تو آزادی کے بعد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہندو وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہو جائے گا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سرکاری زبان بھی بدل دی جائے۔ اب تک اردو وہاں کی سرکاری زبان ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد پہلے ہی ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو حاشیے میں دھکیلنے اور شہریت کے اعتبار سے انہیں ثانوی حیثیت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پورے ہندوستان میں صرف کشمیر کا علاقہ ہی رہ گیا تھا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد وہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو جائے گی۔ 
ہم اس بات پر بہت خوش تھے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی ہے لیکن ہندوستان خاموشی سے جو کچھ کر رہا تھا، اس بارے میں ہماری تیاریوں کا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی طرف سے اعظم سواتی صاحب نے جو قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی‘ اس میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کا ذکر تک نہیں تھا۔ حزب اختلاف کی طرف سے جب شور مچایا گیا تو مشتر کہ اجلاس ملتوی کرنے کے بعد دوبارہ اجلاس شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کافی دیر بعد اجلاس میں تشریف لائے اور اپنی تقریر فرمانے اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر سننے کے بعد اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کی تقریر سننا گوارا نہیں کیا حالانکہ اس وقت جب کشمیر جیسے نہایت ہی اہم موضوع پر تقریریں ہو رہی ہوں تو انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں موجود رہنا چاہیے تھا۔
اب رہی مشترکہ اجلاس میں تقریروں کی بات، تو ہمارے وزیر اعظم نے جو تقریر فرمائی اس میں یقینا اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ہم ہر حالت میں کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ لیکن انہوں نے کشمیر کا مسئلہ ہر عالمی فورم میں اٹھانے کا اعلان اس وقت کیا جب شہباز شریف نے اپنی تقریر میں انہیں یاد دلایا۔ اصل میں وہ باتیں جو شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کیں، وہ ہمارے وزیر اعظم کو کرنا چاہیے تھیں۔ شہباز شریف باقاعدہ تیاری کرکے آئے تھے۔ انہوں نے تاریخی دستاویزوں کے حوالے سے کشمیر کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ عمران خان نے ملائیشیا کے وزیر اعظم سے جب اس مسئلے پر بات کی تو انہوں نے کیا جواب دیا۔ انہوں نے ترکی کے صدر طیب اردوان کا شکریہ بھی ادا کیا‘ جنہوں نے غیر مشروط طور پر پاکستانی موقف کی حمایت کی۔ یہاں شہباز شریف یہ یاد دلانا بھی نہیں بھولے کہ ہندوستان کی اس دیدہ دلیری پر ہمارے برادر مسلم ملکوں کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے۔ بہر کیف، شہباز شریف کی اس یاددہانی پر ہی عمران خان نے دنیا کے ہر فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کا یقین دلایا اور عالمی طاقتوں کو خبردار کیا کہ یہ تنازعہ جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔
خیر، نریندر مودی کی حکومت اکثریت کی بنیاد پر اپنی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے یہ قانون منظورکرا چکی ہے۔ اسے کانگریس یا دوسری جماعتوں کے احتجاج کی بھی پروا نہیں ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اس پر جو لعن طعن کر رہا ہے اسے بھی وہ خاطر میں نہیں لا رہی ہے۔ ہمارے لئے تھوڑی بہت اطمینان کی بات یہ ہے کہ چین لداخ کو اپنا حصہ مانتا ہے۔ اور وہ اس پر ہندوستانی قبضہ پسند نہیں کرے گا لیکن ہندوستان کے چند اور سرحدی علاقے بھی تو ہیں جن پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس دعوے سے زیادہ چین کی طرف سے اور کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ کہیں یہاں بھی تو ایسا ہی نہیں ہو گا؟ عمران خان نے ہندوستان کے تکبر اور غرور کی بات کی ہے لیکن اس کا یہ تکبر اور غرور بلا وجہ نہیں ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے۔ وہ دنیا بھر کے سازوسامان کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے۔ اسے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کو تو جانے دیجئے، خود ہمارے اپنے برادر مسلمان ملکوں کے لیے بھی ہندوستان ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا کو ہماری جمہوریت پر بھی پورا عتماد نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس حقیقت سے لگا سکتے ہیں کہ باہر سے جب بھی کوئی اہم شخصیت پاکستان آتی ہے تو وہ پہلے کس سے بات کرنا پسند کرتی ہے۔ ہم دنیا کے لیے اتنی بڑی منڈی بھی نہیں ہیں۔ اس کے بجائے ہم دوسروں کے محتاج ہیں۔ ہم اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہیں۔ ہماری حکمران جماعت اپنی مخالف جماعتوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وقت تھا جب تمام جماعتوں کو یک جان ہو جانا چاہیے تھا لیکن آپ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے اور دیکھ لیجئے کہ جب قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو تقریر کر رہے تھے تو حکمران جماعت کے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے ہنس رہے تھے حالانکہ یہی وقت ہے جب عمران خان کی حکومت کو پیش قدمی کرنا چاہیے اور تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں