ہم نے بڑی عید منائی، قربانیاں کیں، جشن آزادی منایا اور بھارت کا یومِ آزادی یوم سیاہ کے طور پر بھی منا لیا۔ ہمارے وزیر اعظم آزاد کشمیر پہنچے اور وہاں خطاب کیا۔ شہر شہر، گائوں گائوں کشمیر کے لیے جلوس بھی نکالے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی کے خلاف اور کشمیر کے لئے پر جوش نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں لیکن ادھر ہندوستان نے کشمیری عوام کو عید منانے کی اجازت بھی نہیں دی۔ قربانی تو دور کی بات ہے، وہاں جامع مسجد میں عید کی نماز پڑھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ پوری ریاست میں کرفیو لگا ہوا ہے۔ کشمیری اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی اشیا اور بیماروں کے لیے دوائیں تک نہیں مل رہی ہیں۔ دس گیارہ دن ہو گئے ہیں اس صورت حال کو۔ وہاں تمام اخبار بند کر دئیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر بھی بات نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنے کشمیری ناول نگار دوست مرزا وحید کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ ڈیڑھ ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے، اور وہ سرینگر میں اپنے ماں باپ سے بات کرنے کو ترس رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے گھر والے کس حالت میں ہیں۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح دوسرے لوگوں سے تو بات کر لی ہے، مگر اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر سکے ہیں۔ کشمیر کے بے باک، نڈر اور جی دار صحافی افتخار گیلانی اپنی جان بچانے کے لیے ہندوستان سے باہر چلے گئے ہیں۔ وہ ملک سے باہر بیٹھ کر اخباروں میں کالم لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم پاکستانی اخباروں میں بھی چھپ رہے ہیں۔ چند سال پہلے بھی انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کئی سال انہوں نے ہندوستان کی قید میں گزارے۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور انہیں جو اذیتیں دی گئیں اس پر انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے انگریزی میں لکھی تھی لیکن بعد میں اس کا اردو تر جمہ بھی ہو گیا تھا۔ آج وہاں ان کی جان کو زیادہ خطرہ ہے اس لئے وہ باہر چلے گئے ہیں۔ مودی سرکار نے پورے ہندوستان میں خوف و ہراس کی جو فضا پیدا کر رکھی ہے اس کا اثر اظہار رائے کی آزادی پر بھی پڑا ہے۔ دہلی کا پریس کلب سیاسی اور سماجی طور پر آزادیٔ اظہار کا سب سے بڑا فورم مانا جاتا تھا (اس کلب میں ہمیں بھی جانے کا اتفاق ہوا) لیکن اب وہاں بھی کسی کو آزادی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ دہلی کے چند بہادر سماجی کارکنوں نے اپنی جان پر کھیل کر چار پانچ دن سرینگر اور دوسرے علاقوں میں گزارے۔ اور وہاں جو صورت حال ہے اس کی ویڈیو بنائی۔ یہ صحافی دہلی پریس کلب میں اس ویڈیو کی نمائش کرنا چاہتے تھے مگر انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس پر سماجی کارکنوں نے احتجاج بھی کیا لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ ایسا نہیں کہ ہندوستان میں مودی سرکار کے خلاف اخباروں میں مضامین نہیں لکھے جا رہے ہیں لیکن جو بھی کہا اور لکھا جا رہا ہے وہ دبے دبے لفظوں میں ہی کہا اور لکھا جا رہا ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ ہندوستان جو چاہتا ہے‘ وہ کشمیر میںکر رہا ہے۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا جو غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کیا ہے، وہاں کی سپریم کورٹ اسے رد کر دے گی مگر اسی سپریم کورٹ میں جب اس بارے میں درخواست دائر کی گئی تو اس نے کہہ دیا کہ یہ فوری اور ضروری مسئلہ نہیں ہے، اس لئے اس کی باری جب آئے گی تو اس پر غور کر لیا جائے گا۔ گویا بھارتی سپریم کورٹ سے وابستہ امید بھی ختم ہو گئی ہے۔ ادھر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ عالم اسلام کے اپنے مفادات ہیں یعنی یہ ملک پہلے اپنے مفاد کا خیال کرتے ہیں، بعد میں کسی کی حمایت یا مدد کا سوچتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان پر بہت لے دے کی جا رہی ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن ذرا حقیقت پسندی کے ساتھ سوچیے، کیا شاہ محمود قریشی نے غلط کہا ہے؟ ابھی دو تین دن پہلے ہی سعودی عرب کی فرم ارامکو نے ہندوستان میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس رقم سے اس نے ہندوستان کی مشہور فرم ریلائنس کے بیس فیصد حصص خرید لئے ہیں۔ ظاہر ہے‘ سعودی عرب کا مفاد اسی میں ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سعودی شہزادہ سلمان بھی آج کل میں ہندوستان پہنچنے والے ہیں۔ دوسرے عرب ملکوں نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں جو کیا وہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ تمام ملک پاکستان اور ہندوستان کو باہم مذاکرات کا ہی مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک چین ہے جس نے ہماری حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ ہماری حکومت نے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا‘ جس کے نتیجے میں اجلاس بلا لیا گیا۔ جمعہ کے روز ہونے والے اس اجلاس میں کونسل کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آج کل پولینڈ کا نمائندہ سلامتی کونسل کا صدر ہے۔ ہندوستان کے اخباروں نے یہ خبر دی ہے کہ ہندوستان کے وزیر خارجہ نے ٹیلی فون پر سلامتی کونسل کے صدر سے بات کی اور ہندوستان کے موقف پر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ گفتگو سلامتی کونسل کے اجلاس سے پہلے ہوئی۔ بہرحال یہ اچھی خبر بھی سنی ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی پولینڈ کے وزیر خارجہ سے فون پر رابطہ کرکے انہیں مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اگلے مہینے ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان بھی نیو یارک جائیں گے اور کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فرمائیں گے۔ یہ بھی ایک اچھی خبر ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواہ کتنی ہی لمبی لمبی تقریریں کر لی جائیں ان کی حیثیت نشستند‘ گفتند‘ برخواستند سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل طاقت سلامتی کونسل کے پاس ہے اور وہ بھی اس کے مستقل ارکان کے پاس۔ سیاسی اور سفارتی حلقے سمجھا رہے تھے کہ سلامتی کونسل میں جانے سے پہلے اقوام متحدہ کے حلقوں میں لابنگ کی ضروت ہوتی ہے۔ کیا ہم نے اس طرف توجہ کی ہے؟
اب ہم اپنی ایک پریشانی کا ذکر بھی کر دیں۔ ہمارے لیے یہ پریشانی ہمارے دوستوں اور ہمارے گھر والوں نے پیدا کی ہے۔ چودہ اگست کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں جشن آزادی منایا گیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر کا جھنڈا لہرایا۔ اس تقریب میں سینیٹ کے چیئرمین، قومی اسمبلی کے سپیکر، وفاقی وزرا اور مسلح افواج کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اب ہمارے دوست اور ہمارے گھر والے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ اس تقریب میں ہمارے وزیر اعظم عمران خان نظر کیوں نہیں آئے؟ کیا یہ ان کے منصبی فرائض میں شامل نہیں تھا کہ وہ بھی اس تقریب کو رونق بخشتے؟ اس سے پہلے ہمارے جتنے بھی وزیر اعظم گزرے ہیں، وہ تو اس تقریب میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ ہمارے دوستوں اور ہمارے گھر والوں نے ہمیں اتنا پریشان کیا کہ ہم ان کے لیے کوئی نہ کوئی جواب سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ وزیر اعظم عمران خان کو آزاد کشمیر بھی تو جانا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس تقریب میں جانا ضروری نہیں سمجھا۔ اور پھر اس تقریب کے جو مہمان خصوصی تھے، یعنی صدر ڈاکٹر عارف علوی، وہ عمران خان صاحب کے لگائے ہوئے ہی تو ہیں۔ ان کی موجودگی میں وزیر اعظم کی کیا ضرورت تھی؟ مگر ہمارے اس جواب سے ہمارے دوستوں اور ہمارے گھر والوں کی تسلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اس تقریب کے دو تین گھنٹے بعد مظفر آباد روانہ ہوئے تھے۔ اور یہ تقریب صبح ہی صبح ہو رہی تھی۔ اب ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ خیر، وزیر اعظم کے معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی مرضی ہے، وہ جہاں چاہیں جائیں اور جہاں نہ چاہیں نہ جائیں۔ ہم کون ہوتے ہیں ان کی نقل و حرکت پر اعتراض کر نے والے؟