"MAC" (space) message & send to 7575

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

لاہور میں جب میٹرو بس چلانے کے لیے اونچے اونچے راستے بنائے جا رہے تھے تو ہم بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو اس بس کو جنگلا بس کہتے تھے اور واویلا کرتے تھے کہ میٹرو بس شروع ہونے سے یہ شہر گرمی کے تنور میں تپنا شروع ہو جائے گا۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اب لاہور کی خیر منائو۔ اس پر ہمارے وہ بزرگ ماہرین تعمیرات بہت خوش ہوئے تھے جنہوں نے اس شہر کا قدیم تشخص برقرار رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی تھی۔ اسی طرح جب شہر کی سڑکیں تیر کی طرح سیدھی کی گئیں اور انہیں سگنل فری بنایا گیا تو اس پر بھی ہم نے بہت سر پیٹا تھا اور ماتم کیا تھا کہ ہمارا پرانا شہر کہاں گیا۔ ہم سوال کرتے تھے کہ اس شہر کو برباد کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے شکایت کی تھی کہ ہم تو ان سڑکوں کو جانتے ہی نہیں۔ ہمارے لئے تو یہ سب کچھ بالکل ہی نیا ہے۔ ہم تو ان سڑکوں پر چلتے ہوئے راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ہمارا یہ حال اب بھی ہے۔ لیکن اسی اکھاڑ پچھاڑ میں جب ہمارے راستے میں وہ انڈر پاس بنایا گیا جس نے ہمارے گھر سے دفتر کا راستہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بجائے صرف پندرہ بیس منٹ کا کر دیا، تو ہماری آنکھ کھلی اور نظر آیا کہ یہ جو کچھ بھی کیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے یہ ہمارے فائدے کے لیے ہی ہے۔ ادھر ہمارے سینئر صحافی دوست زمان خان نے یہ بتا کر ہمارا دماغ روشن کر دیا کہ وہ نیّر علی دادا کی نیرنگ گیلری سے صرف بیس روپے میں ماڈل ٹائون چلے جاتے ہیں، اور نہایت آرام کے ساتھ۔ وہ اسی جنگلا بس میں سفر کرتے تھے۔ ہیومن رائٹس کمیشن سے فارغ ہونے کے بعد آج کل وہ فیصل آباد میں ہیں۔ یہاں ہوتے تو وہ اسی بس میں سفر کر رہے ہوتے۔ اس پر ہمیں میر تقی میر یاد آ گئے،
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ 
اب میر صاحب نے تو یہ کسی اور معنی میں کہا تھا لیکن یہاں ہمیں بھی دیواروں کے بیچ منہ نظر آنے لگے۔ ان میں اس شخص کا منہ بھی نظر آیا جس نے لاہور شہر میں سگنل فری سڑکوں، انڈر پاسوں اور فلائی اوورز کا جال بچھا دیا ہے۔ ہم جیسی پرانی ہڈیوں کے لیے اس میں تھوڑی بہت پریشانی ضرور ہے لیکن اس شہر کے باقی رہنے والوں کے لیے ایسی سہولت ہو گئی ہے جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اب وہ اٹھتے بیٹھتے یاد کرتے ہیں اس شخصیت کو جس نے انہیں یہ نیا شہر بنا کر دیا ہے۔ اور شاید یہی اس کا قصور ہے کہ آج کل وہ احتساب کی زد میں ہے۔ اگرچہ وہ شخص آج کل بہت ہی بڑے بڑے الزاموں میں پھنسا ہوا ہے، لیکن اگر یہاں اس کا نام لے دیا جائے تو ہمیں امید ہے کہ ہمارا نام بھی ان ملعونوں اور مطعونوں کی فہرست میں شامل نہیں کر دیا جائے گا۔ تو صاحب، اس شخص کا نام ہے شہباز شریف۔ لاہور شہر میں آپ جس سمت بھی نظر اٹھا کر دیکھیں گے وہاں اس کا نام ہی کندہ نظر آئے گا۔ اور یہ جو سیف سٹی کا منصوبہ ہے، یہ بھی انہی کے دماغ کی اختراع ہے۔ اور یہ جو ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے ہر چوک پر آپ کو سفید سفید روشنیاں دکھائی دیتی ہیں یہ بھی انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس شہر کے صفحے سے ان کا نام مٹا سکتے ہیں؟ سوچ لیجئے، یہ ہماری اپنی اور ہماری تاریخ کی مجبوری ہے کہ ان کے نام کے بغیر نئے لاہور کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آخر ان کا نام کہاں تک مٹایا جا سکتا ہے۔ 
یہ تمام باتیں ہمیںاس لئے یاد آئی ہیں کہ پنجاب کی نئی حکومت نے پنجاب یونیورسٹی کے قریب انڈر پاس کا نام بدل دیا ہے۔ پہلی حکومت نے اس کا نام وارث میر انڈر پاس رکھا تھا۔ نئی حکومت نے یہ نام بدل کر کوئی اور نام رکھ دیا ہے۔ ایسا کرنے والے کیا یہ بھول گئے کہ پاکستان کی تاریخ اور اس تاریخ کو اپنے قلم سے محفوظ کر نے والوں میں وارث میر کا نام بھی آتا ہے۔ وارث میر پہلے جماعت اسلامی سے متاثر تھے لیکن ضیاالحق کی مطلق العنان آمریت نے ان کی ذہنی کایا کلپ کر دی۔ انہوں نے اس آمریت اور اس کے فیصلوں کے خلاف کھل کر لکھا۔ خاص طور سے ان کے وہ کالم یا وہ مضامین ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے جو انہوں نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے لکھے تھے۔ اس زمانے میں ایسے مضامین لکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ وارث میر نے اس جوکھم میں ہاتھ ڈالا اور کامیاب ہوئے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور کی الفلاح بلڈنگ میں نیشنل سنٹر کا دفتر تھا اور کشور ناہید اس کی ڈائریکٹر تھیں۔ ان دنوں وارث میر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی خوش مزاج انسان تھے۔ کشور ناہید ان کے پرانے نظریات کے حوالے سے ان پر طنز کے تیر برساتی رہتی تھیں، لیکن وہ اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے اور یاد دلاتے تھے کہ ضیاالحق کی عورت مخالف پالیسی کے خلاف اگر کوئی بے باکی اور بہادری سے لکھ رہا ہے تو وہ وارث میر ہی ہے۔ اب اگر شہباز شریف کی حکومت نے ایک انڈر پاس کا نام وارث میر انڈر پاس رکھا تو یہ ان پر احسان نہیں کیا تھا۔ اور اگر نئے پاکستان کی نئی حکومت نے ایک انڈر پاس سے ان کا نام نکال دیا ہے تو اس سے وارث میر کی تاریخی شخصیت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ 
اب جہاں تک انڈر پاس اور ان پر تاریخی شخصیتوں کے نام لکھنے کا تعلق ہے، تو ہم نے کبھی اس کی حمایت نہیں کی۔ ہمیں عجیب سا لگتا تھا کہ ان تاریخی شخصیتوں کو انڈر پاس میں قید کر دیا گیا ہے۔ ہم تو اس لئے بھی پریشان ہوتے تھے (اور اب بھی پریشان ہوتے ہیں) کہ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فیض احمد فیض والا انڈر پاس ہمیں کہاں لے جائے گا اور چاکر والا انڈر پاس ہمیں کہاں جا کر پٹخے گا۔ دنیا میں ایسے انڈر پاس یا فلائی اوور پر اس علاقے کا نام لکھا جاتا ہے۔ یہ لکھا جاتا ہے کہ ہم اس پر چلتے ہوئے کہاں پہنچیں گے؛ چنانچہ ہمارے ساتھ اکثر یہ ہوا ہے کہ ہم چودھری رحمت علی انڈر پاس میں داخل ہوئے اور بھٹک کر کہیں سے کہیں جا نکلے۔ ہم تو شروع سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان تاریخی شخصیتوں کو دوسری عمارتوں میں لے جائو۔ اور ہر انڈر پاس شروع ہونے سے پہلے یہ بتائو کہ اس میں داخل ہونے کے بعد ہم کس علاقے میں پہنچ جائیں گے؟ ہماری یہ بات کسی نے نہیں مانی۔ اب ہم نئے پاکستان کی نئی حکومت سے کیا کہہ سکتے ہیں۔ اسے تو اس سے ہی فرصت نہیں ہے کہ جو بھی ان سے اختلاف کرے اسے تاریخ کے صفحے سے نکال باہر کرو۔ یہاں تحمل، بردباری اور برداشت کا نام سننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ ہماری کون سنے گا۔
اب آ خر میں ہم اپنے گھر والوں کی شکایت بھی یہاں درج کرا دیں۔ اب تک بجلی اور گیس کے بھاری بھاری بلوں نے گھر کا سارا بجٹ تہس نہس کیا ہوا تھا اور ہم رو رہے تھے کہ اپنی سفید پوشی کا بھرم کیسے قائم رکھیں۔ اب پچھلے دو تین مہینے سے ایک اور تماشہ شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ بل عین اس دن ملتے ہیں جب انہیں ادا کرنے کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس مہینے بجلی کا بل ایک دن پہلے ملا۔ اور وہ بھی دوپہر کو۔ سب پریشان ہو گئے تھے کہ اگر وقت پر بل ادا نہ کیا گیا تو ہزاروں روپے کا جرمانہ بھرنا پڑ جائے گا۔ ٹیلی فون کا بل تو آخری تاریخ کو ہی ملا۔ اور وہ بھی دوپہر کے دو بجے۔ آخر یہ ہمیں کاہے کی سزا دی جا رہی ہے؟
یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فیض احمد فیض والا انڈر پاس ہمیں کہاں لے جائے گا اور چاکر والا انڈر پاس ہمیں کہاں جا کر پٹخے گا۔ دنیا میں ایسے انڈر پاس یا فلائی اوور 
پر اس علاقے کا نام لکھا جاتا ہے۔ یہ لکھا جاتا ہے کہ 
ہم اس پر چلتے ہوئے کہاں پہنچیں گے؛ چنانچہ ہمارے ساتھ اکثر یہ ہوا ہے کہ ہم چودھری رحمت علی انڈر پاس میں داخل ہوئے اور بھٹک کر کہیں سے کہیں جا نکلے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں