ہمارے دوست ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ لاہور کے ایک انڈر پاس سے وارث میر کا نام ہی کیوں نکالا گیا؟ یہ نزلہ کسی اور نام پر کیوں نہیں گرا؟ یہی سوال تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ یہی نام کیوں نکالا گیا؟ مگر کسی جانب سے بھی ابھی تک کوئی معقول جواب نہیں ملا۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ہم کسی کا نام نہیں لیں گے۔ ورنہ ہم سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی خاموش ہو جانا چاہیے۔ ہو گی کوئی مصلحت نام بدلنے والوں کی۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ صاحب اختیار حضرات سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ فلاں کام آپ نے کیوں کیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟اب آپ تکے لڑاتے رہیے۔اور شاید وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔انہی سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ لاہور کی اورینج ٹرین کا کیا بنا؟کیا اس کے لئے کام ہو رہا ہے؟ اور اگر ہو رہا ہے تو وہ کہاں تک پہنچا؟ اب تک تو اسے مکمل ہو جانا چاہیے تھا اور لاہوریوں کو اس ٹرین میں سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس قسم کے ترقیاتی منصوبوں میں جتنی دیر لگتی ہے‘ اتنی ہی ان کی لاگت بڑھتی جاتی ہے۔ اور نئے پاکستان کی نئی حکومت کے پاس پیسہ کہاں ہے۔ اعلان تو بڑے بڑے منصوبوں کا ہو رہا ہے مگر کام کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ بچت ہو رہی ہے اور اس بچت کا کلہاڑا ترقیاتی کاموں پر ہی پڑ رہا ہے۔ ہم تو امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس سال ہم لاہور کی اورینج ٹرین میں سفر کر رہے ہوں گے۔ پٹرول کی مہنگائی کے بعد ہماری آنکھیں بسوں اور اورینج ٹرین پر ہی لگی ہوئی تھیں۔ ہم گھر سے نکلتے‘ بس میں یا اورینج ٹرین میں بیٹھتے اور جہاں جانا ہوتا چلے جاتے۔ ایاز امیر کو شکایت ہے کہ ہمارے شہروں میں اتنی بہت سی موٹر کاریں کیوں نظر آتی ہیں اور موٹر کاریں بھی ایسی جن میں صرف ایک آدمی ہی بیٹھا نظر آتا ہے۔ مہذب دنیا میں موٹر کاریں ہوتی ہیں اور بہت ہوتی ہیں۔ مگر وہ گھر سے باہر قریب قریب جانے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر لوگ میٹرو یا انڈر گرائونڈ ٹرینوں میں ہی سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کام آپ کے پڑوس میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ اب یہاں یاد آیا کہ جن لوگوں کو ہم ذرا سا بھی سفید پوش کہتے ہیں، لاہوری محاورے کے مطابق، بس میں سفر کرنے سے ان کی '' بے عزتی خراب ہوتی ہے‘‘۔ اس ''بے عزتی خراب ہونے‘‘ سے ہم بہت ڈرتے ہیں۔
لیکن یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے‘ ہم سب بسوں میں ہی سفر کرتے تھے۔ کہاں تھیں اتنی موٹر کاریں؟ کس کے پاس تھی موٹر کار۔ لاہور میں چند موٹر کاریں ہی نظر آتی تھیں۔ اس شہر میں اومنی بس چلتی تھی اور ہم سب اس اومنی بس میں سفر کرتے تھے۔ ان بسوں کے نمبر تھے۔ ان کے نمبر ہی بتاتے تھے کہ وہ کہاں جا رہی ہیں۔ چار نمبر بس جیل روڈ پر چلتی تھی۔ اور وہ پاگل خانے جاتی تھی۔ لاہور والوں کا محاورہ بن گیا تھا کہ جس کا بھی مذاق اڑانا ہوتا اس کے بارے میں کہتے تھے کہ اسے چار نمبر بس پر بٹھا دو۔ ماڈل ٹائون کی اپنی بس تھی مگر اس میں خرابی یہ تھی کہ رات کو نو دس بجے وہ بند ہو جاتی تھی۔ اب اس بس کا ذکر آیا ہے تو آپ کو ایک واقعہ بھی سنا دیں۔ علی سفیان آ فاقی (جسے مرحوم کہتے دل کٹتا ہے) ماڈل ٹائوں میں رہتے تھے۔ اور ہم میکلوڈ روڈ پر اس جگہ رہتے تھے جہاں اب موٹر سائیکلوں کا بازار لگ گیا ہے۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں خلیل احمد رہتا تھا۔ وہ خلیل احمد جو بعد میں ہماری فلموں کا بہت ہی بڑا میوزک ڈائریکٹر بنا۔ اس وقت تک وہ ایک مشہور سگریٹ کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اور ریڈیو پر گانے گاتا تھا۔ علی سفیان آفاقی نے ایک رمضان میں افطار کی دعوت کی۔ ہم ماڈل ٹائون کی بس میں اس کے گھر پہنچے۔ پہلے کھانا ہوا۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جہاں خلیل احمد ہو وہاں گانا نہ ہو۔ اب خلیل احمد سے فرمائشیں شروع ہو گئیں۔ ایک گانا دوسرا گانا، تیسرا گانا۔ دس بج گئے رات کے۔ ماڈل ٹائون کی بس کا وقت ختم ہو گیا۔ ایک موٹر کار تھی وہاں۔ وہ تھی روزنامہ آفاق کے مدیر میر صاحب کے صاحب زادے اقبال صاحب کی۔ اور وہ کھانے کے فوراً بعد وہاں سے جا چکے تھے۔ علی سفیان آفاقی نے، حسب عادت شرارت کی کہ ہمارے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا۔ اس کاغذ پر ان کھانوں کے نام تھے جو ہم نے کھائے تھے۔ مگر اسے بھی معلوم نہیں تھا کہ ماڈل ٹائون والی بس کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب ہم میکلوڈ روڈ تک کیسے جائیں؟ ہمارے ساتھ ظہور الحسن ڈار بھی تھے۔ آج کی نسل کو تو ظہور الحسن ڈار یاد نہیں ہوں گے۔ لیکن اس زمانے میں ڈار صاحب بہت جانے پہچانے صحافی تھے۔ ان دنوں وہ روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر تھے۔ اور ہاں ظہور الحسن ڈار لنگڑاتے بھی تھے۔ اب ہم تین تھے۔ خلیل احمد، ہم اور ظہور الحسن ڈار۔ جانا تھا ماڈل ٹائون سے میکلوڈ روڈ اور وہ بھی پیدل۔ آج تو شاید اس فاصلے کا سن کر ہی سانس چڑھ جائے مگر ہم چل پڑے۔ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ ان دنوں سڑکیں سنسان ہوتی تھیں۔ آج کی طرح نہیں کہ رات کو کسی وقت بھی باہر نکل کر دیکھیں، بے شمار موٹر کاریں ادھر سے ادھر دوڑتی نظر آئیں گی۔ ان دنوں راتوں کو ان سڑکوں پر بقول کسے الو بولتا تھا۔ اب ہم ہیں اور فیروز پور روڈ۔ چلے جا رہے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ کچھ نہیں جانتے، کب پہنچیں گے اپنے ٹھکانے پر۔ ہم دس بجے کے قریب وہاں سے چلے تھے۔ چلتے چلتے سحری کا وقت ہو گیا اور پھر سڑک پر ایک ریہڑا جاتا دکھائی دیا۔ ہم نے اس کی خوشامد کی کہ بھائی، ہمیں بھی ساتھ لے چل۔ اس نے کہا ''میں تو مزنگ تک جائوں گا‘‘۔ ہم نے کہا: چلو مزنگ ہی سہی۔ اور اس نے ہمیں مزنگ کے چوک پر اتار دیا۔ اب وہاں سے ظہور الحسن ڈار کہاں گئے؟ یہ یاد نہیں۔ مگر ہم اور خلیل احمد مزنگ سے پیدل میکلوڈ روڈ پہنچے۔ یہ تھے ہم اور ہماری ٹانگیں۔ ہم پیدل چلتے تھے۔ بسوں میں سفر کرتے تھے۔ اور ہماری ''بے عزتی خراب‘‘ نہیں ہوتی تھی۔ آج ذرا سی بات پر ہماری عزت پر آنچ آ جاتی ہے۔ ایاز امیر ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ ان موٹر کاروں نے ہمارا دماغ خراب کر دیا ہے۔ اب رہا پیدل چلنے کا سوال۔ تو وہ فٹ پاتھ کہاں ہیں جن پر ہم کسی خطرے کے بغیر چلا کرتے تھے۔ ہم اور برہان الدین حسن ( وہ بھی مرحوم ہو گیا) بھاٹی دروازے سے پیدل لارنس گارڈن جاتے تھے۔ مال روڈ پر دونوں طرف فٹ پاتھ تھے۔ ان پر مولسری کے پیڑ کھڑے تھے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی ان پیڑوں پر پھول آنے لگتے تھے اور فٹ پاتھ بھینی بھینی خوشبو سے مہک اٹھتے تھے۔
خلیل احمد سے ہمیں فلم ''گلنار‘‘ یاد آ گئی۔ یہ فلم سید امتیاز علی تاج نے بنائی تھی۔ مثنوی ''زہر عشق‘‘ پر یہ فلم بنائی گئی تھی۔ اس میں شوکت تھانوی نے بھی کام کیا تھا۔ ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی تھی۔ اور مثنوی پڑھی تھی نور جہاں اور خلیل احمد نے۔ خلیل احمد کی یہ پہلی فلم تھی۔ ماسٹر غلام حیدر نے مثنوی کی روایتی دھن میں ہی موسیقی ترتیب دی تھی۔ خلیل احمد اور نور جہاں نے یہ مثنوی گائی نہیں تھی بلکہ اس لے اور اس سر میں پڑھی تھی جس میں مثنویاں پڑھی جاتی تھیں۔
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک سوداگر
اور پھر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے
افسوس ہوتا ہے کہ تمام فلموں کا ذکر ہوتا ہے مگر اس فلم کو کو ئی یاد نہیں کرتا۔ ہم تو نور جہاں اور خلیل احمد کی آواز میں یہ مثنوی سننا چاہتے ہیں۔ ایسی مثنوی پڑھی تھی ان دونوں نے کہ رلا دیا تھا فلم دیکھنے والوں کو۔