"MAC" (space) message & send to 7575

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

ہم خوش ہیں کہ جواہر لعل یونیورسٹی دہلی کے طلبہ اور طالبات مل جل کر زور شور سے حبیب جالب کی نظم ''دستور‘‘ اسی ترنم میں پڑھ رہے ہیں، جس ترنم میں حبیب جالب پڑھا کرتا تھا۔ چلیے کہیں سے تو باغیانہ آواز آئی۔ ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔ یہ ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہو رہی ہے۔ اس پر ہمیں ملتان کا ایک مشاعرہ یاد آ گیا۔ یہ ایوب خان کا زمانہ تھا۔ ایوب خان نے نیا آئین بنایا تھا۔ حبیب جالب نے اسی آئین یا دستور کے خلاف یہ نظم لکھی تھی۔ ان دنوں تمام صوبے توڑ کر پاکستان کو دو صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ ملتان کے مشاعرے کی صدارت مغربی پاکستان اسمبلی کے سپیکر (نام یاد نہیں آ رہا ہے) کر رہے تھے۔ مشاعرہ اپنے عروج پر تھا کہ حبیب جالب کی باری آ گئی۔ جالب سٹیج پر آئے اور انہوں نے یہ نظم پڑھنا شروع کر دی۔ اب مشاعرے کے صدر کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ان کی موجودگی میں ایوب خان کے خلاف نظم پڑھی جا رہی تھی۔ انہوں نے بلند آواز میں جالب کو حکم دیا کہ یہ نظم یہاں نہیں پڑھی جا سکتی۔ مشاعرے کے باقی سامعین تو ایسے خاموش بیٹھے تھے جیسے انہیں سانپ سو نگھ گیا ہو لیکن روزنامہ امروز کے سید سلطان احمد طیش میںکانپتے ہوئے اٹھے اور سٹیج کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگانے لگے ''یہ نظم پڑھی جائے گی اور یہی نظم پڑھی جائے گی ورنہ یہ مشاعرہ نہیں ہو گا‘‘۔ سلطان احمد کے ان باغیانہ نعروں سے مشاعرہ میں موجود کچھ اور لوگوں کو بھی ہمت ہوئی، اور انہوں نے بھی نعرے لگانا شروع کر دئیے: حبیب جالب یہی نظم پڑھیں گے۔ ہم یہی نظم سنیں گے۔ آخر سپیکر صاحب کو ہار ماننا پڑی اور حبیب جالب نے یہی نظم پڑھی‘ اور حسب معمول مشاعرہ لوٹ لیا۔ اصل میں یہ نظم ایک قسم کا ترانہ بن گئی ہے۔ آمرانہ اور جابرانہ نظم و نسق کے خلاف اس سے زیادہ پُر زور احتجاج اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اب آپ کہیں گے کہ اس کے بعد ایسی نظمیں کیوں نہیں لکھی گئیں، حالانکہ حالات میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے؟ اس کی وجہ بیان کرنے کے لیے ایک پورا مقالہ چاہیے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ہم سب بے شمار مصلحتوں کا شکار ہو گئے۔ اور اسی لئے ہمارے درمیان حبیب جالب پیدا ہونا بند ہو گئے‘ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ لکھا ہی نہیں جا رہا ہے۔ لکھا جا رہا ہے۔ صرف، زبان، لہجہ، انداز اور اسلوب بدل گئے ہیں۔ بہرحال کہیں سے تو آواز دوست آئی۔
اب آ جائیے پچھلے کالم کی طرف۔ ہم نے سٹیج ڈرامے کے حوالے سے علی احمد اور ضیا محی الدین کا نام لکھا تھا۔ ہمارے احباب نے شکایت کی ہے کہ تم خواجہ معین الدین کو کیوں بھول گئے؟ انہوں نے تو پاکستان کے سٹیج ڈرامے میں نئی روح پھو نکی تھی۔ اس وقت تک عام طور پر مغربی ڈراموں کے ترجمے ہی سٹیج کئے جا رہے تھے۔ خواجہ معین االدین نے طبع زاد ڈرامے لکھے اور انہیں سٹیج کیا۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں موجود خرابیوں اور کوتاہیوں کو اپنا موضوع بنایا۔ انہوں نے ''لال قلعے سے لالو کھیت‘‘ اور ''تعلیم بالغاں‘‘ جیسے ڈرامے لکھے۔ تعلیم بالغاں پاکستان ٹیلی وژن پر بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ اسے آغا ناصر نے پیش کیا تھا۔ آغا ناصر نے خواجہ معین الدین پر مضمون بھی لکھا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر روبینہ ترین کی نگرانی میں شہلا کنول نے بھی خواجہ معین الدین پرکتاب لکھی ہے۔ اب اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کے جریدے ''قومی زبان‘‘ کا ستمبر کا جو شمارہ آیا ہے‘ اس میں بھی خواجہ معین الدین پر ایم اے چشتی کا تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ رسالہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ لیکن طبع زاد سٹیج ڈرامہ بانو قدسیہ نے بھی لکھا ہے اور انور سجاد نے بھی غالباً ایک ڈرامہ لکھا تھا۔ اس کے بعد ہمارے ہاں طبع زاد ڈرامے لکھنے کا رواج ہی ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ڈرامے لکھنے والے ٹیلی وژن کی چکا چو ند میں پھنس گئے۔ اپنے دوست ڈرامہ نگاروں سے معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ٹیلی وژن کے ڈرامے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور آج کل تو ٹیلی وژن ڈراموں میں اتنا گلیمر نظر آنے لگا ہے کہ ڈراموں کا زیادہ وقت خوبصورت شکلیں، بھڑک دار لباس اور عالی شان سیٹ دکھانے پر ہی صرف ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایک ڈرامے کی سو سو، دو دو سو قسطیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ ڈرامے، ڈرامہ لکھنے والا اور ڈرامے کا پروڈیوسر مل کر لکھتے ہیں۔ اس طرح ڈرامہ لکھنے والوں کو بھی بڑا بھاری معاوضہ مل جاتا ہے۔ اس صورت میں ڈرامہ لکھنے والوں کو کس کیڑے نے کاٹا ہے کہ وہ سٹیج کے لئے ڈرامہ لکھیں۔ نصرت جاوید آج کل اپنے ٹی وی ڈراموں کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔ کیا وہ سٹیج کے لئے ڈرامہ لکھنے کی زحمت کریں گے؟ یہی سوال امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید سے بھی ہے۔ سٹیج ڈرامے میں پیسہ نہیں ہے، لیکن عزت تو ہے۔ مگر صرف یہ عزت کمانے کے لیے کون لکھے گا سٹیج ڈرامہ؟ سٹیج ڈرامہ براہ راست اپنے سامنے بیٹھے لوگوں سے بات کرتا ہے اور انہیں اس طرح مسحور و مبہوت کر دیتا ہے کہ وہ بھی ڈرامے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مغرب میں ٹیلی وژن اور فلموں کے باوجود سٹیج ڈرامہ اسی طرح پروان چڑھ رہا ہے۔ وہاں مہنگے سے مہنگے سے ٹکٹ کے باوجود ان ڈراموں کو دیکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایگاتھا کرسٹی کا ڈرامہ Mouse Trap لندن میں پچاس ساٹھ سال سے چل رہا ہے۔ صرف یہ ہے کہ تھیٹر بدلتے رہتے ہیں۔ خاصا مہنگا ٹکٹ ہے۔ اس کے باوجود اسے دیکھنے والے کم نہیں ہوتے۔ تین سال پہلے ہمیں بھی یہ ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تھیٹر کا ہال زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن دیکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔ یہ ڈرامہ اتنے عرصے سے چل رہا ہے اور ڈرامے سے دلچسپی رکھنے والے بہت سے لوگ اس کے اختتام سے واقف بھی ہو گئے ہوں گے۔ اس کے باوجود جب آپ اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ سے عہد کرایا جاتا ہے کہ ڈرامہ دیکھ کر باہر نکلنے کے بعد آپ کسی کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ڈرامے کے آخر میں کیا ہوا۔ اس لئے ہم بھی آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ اس ڈرامے کی کہانی کیا ہے اور وہ ختم کس طرح ہوتی ہے۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ڈرامے میں شروع سے آخر تک اسرار ہی اسرار ہیں‘ اور سنسنی ہی سنسنی ہے۔ آخر وقت تک آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اور یہی اس ڈرامے کی کامیابی ہے۔ جب سٹیج ڈرامے کا ذکر آتا ہے تو یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ مسلم معاشروں میں سٹیج ڈرامہ کیوں پیدا نہیں ہو سکا؟ اس کی بے شمار وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن اب مسلمان معاشرے بھی مغربی تہذیب اور ثقافت سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ ان کی پرانی روایات قریب قریب معدوم ہی ہو چکی ہیں۔ اس لئے ہمارا سٹیج ڈرامے کی طرف توجہ کرنا کوئی ایسی معیوب بات نہیں ہے۔ ضیا محی الدین کراچی میں نہایت کامیابی کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک آدھ طبع زاد ڈرامہ بھی سٹیج کیا ہے۔ یہ کام لاہور میں بھی ہو سکتا ہے۔ آخر الحمرا آرٹس کونسل کس مقصد کے لیے ہے؟ ہم نے کئی بار یہ تجویز پیش کی ہے کہ الحمرا میں ڈرامہ ورکشاپس کرائی جائیں۔ کوئی ایک لکھنے والا ڈرامہ لکھے۔ ڈرامے سے متعلق پرانے لکھنے والے مل جل کر بیٹھیں، اور اس کی نوک پلک ٹھیک کریں۔ انگلستان میں جان آزبرن کا ڈرامہ Look Back in Angerاسی طرح لکھا گیا تھا۔ آج یہ ڈرامہ ماڈرن کلاسیک میں شمار ہوتا ہے۔ الحمرا کے پاس بے شمار فنڈز ہیں۔ کیا وہ یہ کام نہیں کر سکتا؟ وہاں ڈرامے کے نام پر جو نوٹنکی پیش کی جاتی ہے اس سے الحمرا کو آمدنی تو ہو جاتی ہے‘ لیکن ہماری ثقافت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مدیحہ گوہر (جنہیں مرحومہ کہنے کو جی نہیں چاہتا) اور شاہد محمود ندیم سٹیج ڈرامے پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ نعرے بازی والے ڈرامے ہیں۔ چلیے، انہیں باغیانہ ڈرامے کہہ لیجئے۔ لیکن یہ وہ ڈرامے نہیں ہیں جو مہذب دنیا میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ اسی لئے، اس وقت ہمیں حبیب جالب کی طرح نعرہ لگانے کی ضرورت ہے۔ آئیے، ہم بھی نعرہ لگائیں: میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں