کشمیر کے سلسلے میں ہمیں جہاں غیر ملکی اخباروں اور ٹیلی وژن چینلز سے خبریں ملتی ہیں وہاں ہمارے کشمیری ناول نگار دوست میرزا وحید بھی اپنے ٹویٹرز میں خاص طور سے سری نگر کے حالات سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ وہاں ان کے خاندان کے افراد رہتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے جب پہلی مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو ٹرمپ صاحب نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ثالثی کرانے کی پیش کش کی تھی۔ اس پیش کش پر پاکستان میں بہت خوشیاں منائی گئی تھیں‘ اسے ایک بریک تھرو قرار دیا گیا تھا اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر جلد ہی حل ہو جائے گا۔ یوں جنوبی ایشیا کے اس خطے میں پائیدار امن کے قیام کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بچے گی۔ اگرچہ اس کے بعد اس کا زیادہ ذکر نہیں ہو رہا ہے لیکن اس پیشکش پر فقیر سید اعجازالدین نے ایک انگریزی اخبار میں جو تبصرہ کیا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس پیش کش پر شمالی اور جنوبی کوریا، یا پاکستان اور ہندوستان کو غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کمیٹی پر غور کرنا چاہیے جو ہر سال کسی نامور شخصیت کو امن کا نوبیل انعام دیتی ہے۔ اس لیے کہ امریکہ کے کئی صدر ایسے ہی اعلان پر نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ بارک اوباما کو محض اس لیے اس انعام سے نوازا گیا تھا کہ انہوں نے مصر میں اسلام کے بارے میں کوئی تقریر کی تھی۔ اوباما کو ان کی صدارت کے دس مہینے کے اندر ہی یہ انعام مل گیا تھا‘ ٹرمپ صاحب کو تو تین سال ہو چکے ہیں۔ فقیر سید اعجازالدین یہ لکھ کر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہ آپ خود ہی سمجھ لیجئے۔ اور پھر یہ بھی تو سوچئے کہ ٹرمپ صاحب جو ثالثی کرانا چاہتے ہیں‘ اس میں کشمیر کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ ہندوستان تو اب وہاں الیکشن کے نام پر بھی ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ دنیا شور مچاتی رہے نریندر مودی کی حکومت ہر حال میں ان منصوبوں پر عمل کرتی رہے گی‘ جو برسوں پہلے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی بنا چکی ہیں۔ ایسے بھی آپ نے دیکھ ہی لیا کہ دنیا کتنا شور مچا سکی ہے۔ اب ہم اگر کسی پر بھروسہ کر سکتے ہیں تو وہ کشمیری عوام ہی ہیں۔ چلتے چلتے ہم آپ کو آر ایس ایس کے ایک لیڈر کا یہ اعلان بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ 2021 کے آخر تک ہندوستان میں کوئی مسلمان رہے گا اور نہ کوئی کرسچین۔ سب کو ہندو بنا لیا جائے گا۔ یہ اعلان ابھی چند دن پہلے ہی کیا گیا ہے۔ اب ٹرمپ صاحب ثالثی کرا لیں دونوں ملکوں کے درمیان۔ وہاں تو ہندوستانی شہریت کا ایک قانون بھی بنایا جا رہا ہے۔ یہ قانون بھی مسلمانوں کی شہریت کے حوالے سے ہی بنایا جا رہا ہے۔
اب کچھ بات ہو جائے ایک لائبریری کی‘ جو ابھی بنی نہیں ہے۔ شاہد بخاری وکیل ہیں، لکھاری ہیں اور ادب سے گہرا لگائو رکھتے ہیں۔ وہ ڈی بلاک فیصل ٹائون لاہور کے پارک میں لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ پارک میں ایک کمرہ خالی پڑا ہے۔ بخاری صاحب اسی کو لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ مگر پی ایچ اے کے کار پرداز اس منصوبے کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں لائبریریوں کی کیا ضرورت ہے؟ بھلا ہمارے لوگ کتابیں پڑھ کر کیا بھاڑ پھوڑ لیں گے۔ حالانکہ انہیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ لاہور کے ہی ناصر باغ میں ادبی محفلیں ہوتی رہی ہیں اور وہاں بھی ایک لائبریری موجود ہے‘ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ بخاری صاحب درخواستوں پر درخواستیں دے رہے ہیں لیکن کوئی جواب ہی نہیں آتا۔ جس کمرے میں بخاری صاحب لائبریری بنانا چاہتے ہیں‘ وہ کمرہ خالی پڑا ہے۔ اس میں قفل پڑا ہوا ہے۔ یہ لائبریری اس علاقے کے لوگوں کی علمی اور ادبی تشنگی ہی دور کرے گی۔ ہم بار بار عرض کر چکے ہیں کہ آج کتاب خریدنا اپنی جیب پر بھاری بوجھ ڈالنے سے کم نہیں ہے۔ کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ علم و ادب کا ذوق رکھنے والے کتاب خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دنیا بھر میں یہ کمی لائبریریاں ہی پوری کرتی ہیں‘ بلکہ ایک زمانے میں تو ہمارے ہاں بھی خاصی لائبریریاں ہوتی تھیں۔ ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی لائبریری نظر آتی تھی۔ آپ کسی بھی لائبریری کے ممبر بن جائیں‘ آپ وہاں سے اپنی پسند کی کوئی بھی کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری مثال ہی لیجئے۔ ہم نے زیادہ ترکتابیں لائبریریوں سے ہی حاصل کر کے پڑھی ہیں۔ کس میں ہمت ہے اپنی جیب سے ہر کتاب خریدنے کی۔ یا تو مانگے تانگے سے کتاب پڑھی جاتی ہے، یا پھر لائبریری سے۔ ہم فیصل ٹائون کے اس پارک کا انتظام کرنے والوں سے ایک ہی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ اپنی نسل کو جاہل رکھنے میں خوش ہوں گے؟ ایک طرف تو یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ آج کی نسل میں کتابیں پڑھنے کا شوق کم ہوتا جا رہا ہے، اور دوسری طرف آپ انہیں لائبریری جیسی سہولت سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسی لائبریری جو ایک بندہ اپنے پیسوں سے بنانا چاہ رہا ہے۔ کسی بھی علاقے یا کسی بھی آبادی میں لائبریری صرف کتابیں پڑھنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ اس علاقے کے باشندوں کے مل بیٹھنے کی جگہ بھی ہوتی ہے۔ بخاری صاحب اپنے شوق میں اس لائبریری کے لیے کافی کتابیں بھی جمع کر چکے ہیں۔ تو کیا یہ امید رکھی جائے کہ اس پارک میں لائبریری بنانے کی اجازت مل جائے گی؟
اب جہاں اس کالم میں دو موضوع آ گئے ہیں تو اگر ایک تیسرے موضوع پر بھی بات کر لی جائے تو شاید کالم کی حد سے تجاوز نہیں ہو گا۔ پچھلے کئی برسوں سے ہمارے پاس ایک رسالہ آ رہا ہے۔ اس کا نام ہے ''ماہنامہ شریعت‘‘۔ اس کے سرورق پر چھپا ہوا ہے ''امارت اسلامیہ افغانستان کا واحد اردو ترجمان‘‘۔ یہ رسالہ چار رنگوں میں آرٹ پیپر پر چھپتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں کہ یہ کہاں سے شائع ہوتا ہے۔ پریس کا نام اور اس شہر کا نام بھی جہاں وہ پریس موجود ہے‘ رسالے میں موجود نہیں ہیں‘ حالانکہ پاکستان کیا‘ دنیا بھر کے قانون کے مطابق کسی بھی مطبوعہ رسالے یا کتاب پر پریس اور شہر کا نام شائع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب تک ہم نے اس رسالے کا ذکر اس لیے نہیں کیا تھا کہ کہیں ہم سے غلطی نہ ہو جائے۔ لیکن اب چو نکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت شروع ہو چکی ہے اور اس بات چیت میں پاکستان بھی برابر کا شریک ہے‘ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ رسالے کا تعارف کرا دیا جائے۔ اس رسالے میں طالبان کی ان مسلح کارروائیوں کا ذکر کیا جاتا ہے‘ جو وہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں علاقے میں ہم نے اتنے دشمن مارے اور اتنا اسلحہ تباہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی چند مجاہدین کی شہادت اور ان کے زخمی ہونے کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ اس رسالے کے جولائی 2019 کے شمارے میںپہلے صفحے پر ایک باکس میں لکھا ہے ''ماہنامہ شریعت‘ امارت اسلامیہ افغانستان کا اردو زبان کا واحد اور با ضابطہ دینی، ثقافتی اور سیاسی مجلہ ہے۔ یہ ملت اسلامیہ کے رسمی میڈیا و ثقافتی کمیشن کی جانب سے شائع ہوتا ہے۔ اس شمارے میں چھبیس مضامین اور رپورٹیں موجود ہیں‘‘۔ آخری صفحے پر جون 2019 میں ہونے والی کارروائیوں کا چارٹ یا جدول دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں کی تعداد 1009 بتائی گئی ہے۔ ایجنٹوں کے مقتولین کی تعداد 2020، زخمیوں کی تعداد 1282 اور فوجی گاڑیوں اور ٹینکوں کی تباہی 50 بتائی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں اس مہینے مجاہدین کے شہدا کی تعداد 50 اور زخمی مجاہدین کی تعداد 85 بتائی گئی ہے۔ مجاہدین نے جو فوجی گاڑیاں اور ٹینک تباہ کیے ان کی تصویریں بھی شائع کی گئی ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش پر شمالی اور جنوبی کوریا، یا پاکستان اور ہندوستان کو غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کمیٹی پر غور کرنا چاہیے جو ہر سال کسی نامور شخصیت کو امن کا نوبیل انعام دیتی ہے۔ اس لیے کہ امریکہ کے کئی صدر ایسے ہی اعلان پر نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔