"MAC" (space) message & send to 7575

ہمیں نچوڑنے والے

ہمارے افسانہ نگار و ناول نگار دوست اکرام اللہ نے کل ایک لطیفہ سنایا۔ ہو سکتا ہے یہ لطیفہ آپ نے پہلے بھی سنا ہو لیکن کیا مضائقہ ہے اگر آپ اسے ایک بار پھر پڑھ لیں۔ لطیفے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ حالات کے مطابق ان کے معنی اور مفہوم بدلتے رہیں۔ تو صاحب، کہتے ہیں، سردیوں کا موسم تھا۔ خوب ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ ایک صاحب نے دیکھا کہ ایک لڑکا نہر کے کنارے بیٹھا ایک بلی کے بچے کو نہلا رہا ہے۔ بلی کا بچہ سردی سے تھرتھر کانپ رہا ہے مگر وہ لڑکا ہے کہ اس پر پانی ڈالے جا رہا ہے۔ وہ صاحب اس لڑکے کے پاس گئے اور اسے سمجھایا کہ بیوقوف، یہ تو کیا کر رہا ہے اس طرح تو یہ بلی کا بچہ مر جائے گا۔ جا، اسے دھوپ میں لے جا، اور سکھا۔ یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئے تو انہوں نے دیکھا‘ بلی کا بچہ مرا پڑا ہے اور وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا ہے۔ کہنے لگے، دیکھا، میں نہ کہتا تھا، اسے اس سردی میں ٹھنڈے پانی سے نہ نہلا‘ مار دیا ناں تو نے اسے؟ لڑکے نے جواب دیا: یہ نہانے سے نہیں مرا ہے‘ یہ نچوڑنے سے مرا ہے‘ سکھانے کے لئے میں نے اسے نچوڑا تھا۔ تو آج کل ہم بھی نچوڑے جانے کے اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہر شام کسی نہ کسی ٹیلی وژن چینل کا اینکر یا رپورٹر کسی بازار میں یا کسی سڑک پر کھڑا وہاں چلتے پھرتے لوگوں سے سوال کر رہا ہوتا ہے کہ آپ کے خیال میں آج کل کے حالات کیسے ہیں؟ اور سوائے ایک دو نوجوانوں کے ہر ایک یہی جواب دیتا ہے: مہنگائی نے مار ڈالا‘ پہلے جو چیز چالیس پچاس روپے میں ملتی تھی‘ اب سو دو سو روپے سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ کئی چیزیں تو ایسی ہیں جو دنیا بھر میں سستی ہو رہی ہیں مگر ہمارے ہاں ان کے نرخ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پٹرول کو ہی دیکھ لیجئے۔ دنیا بھر میں اس کے نرخ کم ہوئے ہیں مگر ہمارے ہاں وہ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ایک صاحب کے پاس تیرہ سو سی سی کار ہے۔ وہ رو رہے تھے کہ صرف تین مہینے پہلے تک ان کی کار کی ٹینکی تین ہزار روپے سے بھی کم میں بھر جاتی تھی۔ اب وہ چار ہزار سے بھی زیادہ میں بھرتی ہے۔ اب آپ خود ہی حساب لگا لیجئے کہ پٹرول کتنے گنا مہنگا ہوا۔ ہمارا کام اخبار رسالے اور کتابیں پڑھنا، اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر آنکھیں پھوڑنا ہے۔ اس لئے ہم اپنی آنکھوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر نے ایک خاص ڈراپس بتائے ہیں آنکھوں میں ڈالنے کے لئے۔ آج سے تین چار مہینے پہلے تک ڈراپس کی شیشی ساڑھے چار سو یا پانچ سو روپے تک آ جاتی تھی۔ پرسوں وہ شیشی خریدی تو ساڑھے سات سو روپے کی تھی۔ ہم حساب کتاب میں ہمیشہ کمزور رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتا دیجئے کہ اس شیشی کی قیمت میں کتنے فیصد اضافہ ہوا؟ اور یہ جو لائف سیونگ ڈرگز کہلاتی ہیں، ان کی قیمتیں ایک اوسط آمدنی والے آدمی کی دسترس سے باہر چلی گئی ہیں۔
اس پر ہمیں جامعہ ملیہ دہلی کے پرانے استاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھی ڈاکٹر عابد حسین کا ایک افسانہ نما ڈرامہ یاد آ گیا۔ ہندوستان کے باشندوں میں ہندو بنیا اپنی کنجوسی کے لئے بہت مشہور تھا۔ اسی طرح کا ایک بنیا کہیں بیمار پڑ گیا۔ حالت بہت خراب ہوئی تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور اس سے پوچھا‘ اگر تم میرا علاج کرائو گے تو کتنا خرچ ہو گا؟ اور اگر میں مر جائوں تو میرے کریا کرم پر کتنا روپیہ لگے گا؟ اس کا بیٹا بھی آخر بنیے کا بیٹا ہی تھا۔ اس نے فوراً حساب لگایا اور اپنے پتا جی کو بتایا: آپ کا علاج کرانے پر زیادہ خرچہ ہو جائے گا اس کے مقابلے میں آپ کا کریا کرم بہت سستا ہو جائے گا۔ یہ سن کر بنیا بو لا ''تو پھر بیٹا بھول جا علاج ولاج، میں مر جائوں تو آسانی سے میرا کریا کرم ہی کرا دینا۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہماری اپنی حکومت کیا چاہتی ہے؟ سرکاری ہسپتالوں میں پہلے ہی مفت علاج معالجہ ختم کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ہسپتال نجی ہاتھوں میں دینے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ آج کل پختونخوا کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ وہ مظاہرہ کرتے ہیں اور جلوس نکالتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، اور آنسو گیس چھوڑی جاتی ہے۔ اور یہ جو ہمارے ٹی وی چینل ہیں وہ شور مچا رہے ہیں۔ مسیحا قاتل بن گئے۔ بھائی، ان ڈاکٹروں سے بھی تو پوچھ لو کہ وہ ایسا سخت قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہوئے؟ ہمارے میڈیا والے سوائے سیاست کے باقی دوسرے شعبوں میں تحقیق و تفتیش کرنا بھول چکے ہیں۔ وہی بات ہے کہ کسی نے اڑا دی، ''کوا کان لے گیا‘‘ اور ہم کوے کے پیچھے دوڑ پڑے۔ اپنا ہاتھ اٹھا کر نہیں دیکھا کہ ہمارا کان موجود ہے یا نہیں۔ اور یہ جو ڈاکٹروں کی غفلت سے بچوں اور بڑوں کے مرنے کی خبریں آتی ہیں ان پر بھی ذرا غور فرما لیجئے۔ مان لیا کہ آج کا ڈاکٹر حکیم اجمل خاں نہیں ہے‘ جو مریضوں کا علاج مفت کرتے تھے۔ حالات نے اسے لالچی بھی بنا دیا ہے لیکن جب کسی ہسپتال سے یہ خبر آتی ہے کہ وہاں ڈاکٹروں کی غفلت سے کوئی بڑا یا بچہ مر گیا ہے تو کیا یہ ہمارا پیشہ ورانہ فرض نہیں ہے کہ خبر چھاپنے یا نشر کرنے سے پہلے اس واقعے یا حادثے کی تحقیق بھی کر لیں۔ جس شخص کا بھی کوئی عزیز انتقال کر جاتا ہے تو اسے یقیناً بہت صدمہ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ صدمے سے پاگل ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ روتا پیٹتا بھی ہے اور واویلا بھی بہت کرتا ہے۔ اور اب تو ڈاکٹروں پر حملے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ وہ ساری ذمہ داری ڈاکٹروں پر ڈال دیتا ہے اور ڈاکٹر اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہم کوئی بھی مریض اس وقت ہی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں جب وہ قریب قریب آخری دموں پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے خود ہی دوائیں کھلاتے رہتے ہیں۔ یا گلی محلے میں بیٹھے ڈاکٹروں سے نسخے لکھواتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے۔ اور پھر، ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں وہ طبی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں‘ جو پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہیں۔ اب پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی سن لیجئے۔ اول تو وہاں ڈاکٹروں کی فیس ہی ہوش اڑا دیتی ہے۔ اس پر لیبارٹری کے ٹیسٹ اور ان کے خرچے۔ اور اگر خدانخواستہ سرطان جیسی موذی بیماری ہو تو ہمارے دوست کے بقول باورچی خانے کے برتن تک بک جاتے ہیں۔ اس پر ایک اور تماشہ بھی ہوتا ہے ان عالی شان ہسپتالوں میں۔ اگر کسی مریض کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ اس کا زندہ رہنا مشکل نظر آتا ہے تو یہ ہسپتال ایسے مریض اپنے ہاں داخل ہی نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایسے مریض کے مر جانے پر ان کا ریکارڈ خراب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کینسر کے ایک بہت ہی مشہور و معروف ہسپتال کو لے لیجئے۔ وہ بہت نیک کام کر رہا ہے۔ لیکن ذرا آپ کینسر کے کسی ایسے مریض کو وہاں لے جا کر تو دیکھئے جس کا مرض تیسرے درجہ پر آ گیا ہو۔ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ وہاں سے آپ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ وہ اس کا علاج نہیں کریں گے۔ ان کا ریکارڈ جو خراب ہو جائے گا۔
معاف کیجئے، ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آ گئے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اور آمدنی تحت الثریٰ میں جا رہی ہے۔ ہمیں تو اپنے ایک دوست کا ڈرائیور یاد آ رہا ہے۔ ایک دن بہت ہی پریشان بیٹھا تھا۔ ہم نے پوچھا، کیا ہوا؟ کہنے لگا، ہم سفید پوش کیا کریں؟ کہاں سے کھائیں‘ کہاں سے پہنیں اور کہاں سے بچوں کو پڑھائیں؟ وہ ہمیں بہت اچھا لگا۔ اس نے اپنے آپ کو سفید پوش کہا۔ سفید پوش اور کیا ہوتے ہیں۔ جو آدمی اپنا گھر بار چلا رہا ہے اور اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہے، وہ سفید پوش نہیں تو اور کیا ہے؟ آج کل تو ہم سب اپنی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ڈرتے ہیں اس وقت سے جب کسی کو ڈاکٹر عابد علی کے ڈرامے کا کردار بننا پڑ جائے۔ یہ سوچ کر ہی سارے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بس، خیریت یہ ہے کہ ہم میں کوئی بنیا یا سرائیکی زبان کا ''کراڑ‘‘ نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں