"MAC" (space) message & send to 7575

عمران خان، کتاب اور انسانی حقوق

معلوم ہوا کہ عمران خان کتاب پڑھتے ہیں۔ اس کی اطلاع دی ہے ولیم ڈیل رمپل نے۔ ڈیل رمپل کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والا یہ شخص اب ہندوستان کا ہو گیا ہے۔ دہلی کو اس نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔ بر صغیر میں مسلمانوں کی تاریخ، اور مسلمانوں کے تاریخی آثار اپنی کتابوں میں محفوظ کر رہا ہے۔ مغل تاریخ پر اس کی خاص توجہ ہے۔ دہلی کے بارے میں The City of Djinns جیسی انتہائی دلچسپ کتاب لکھ کر اس نے ابتدائی شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد کتابوں پر کتابیں لکھے چلا جا رہا ہے۔ لاہور لٹریچر فیسٹیول میں یہاں آیا تھا تو اس نے پاکستان کے تاریخی مقامات کی تصویریں کھینچی تھیں اور فیس بک پر اپ لوڈ کی تھیں۔ پچھلے دنوں اس نے عمران خان کی ایک تصویر ٹویٹر پر لگائی۔ عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپس پاکستان آ رہے ہیں۔ وہ جہاز میں بیٹھے ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ شاہ محمود قریشی بیٹھے ہیں۔ ڈیل رمپل نے اپنے ٹویٹر میں لکھا ہے 'کرتے شلوار میں ملبوس یہ صاحب میری کتاب پڑھ رہے ہیں،۔ اور اس کی یہ کتاب ہے The Anarchy۔ یہ کتاب حال ہی میں چھپی ہے اور یہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور جنوبی ایشیا میں اس کمپنی کی لوٹ مار اور مغلیہ سلطنت کے خلاف اس کی سازشوں کے بارے میں ہے۔ ہم نے یہ کتاب ابھی نہیں پڑھی‘ لیکن ہمیں باری علیگ کی کتاب ''کمپنی کی حکومت‘‘ یاد ہے۔ اب چونکہ ڈیل رمپل کا طرز تحریر بہت ہی دلکش اور دلچسپ ہوتا ہے اس لئے امید ہے کہ یہ کتاب بھی دلچسپ ہو گی۔ رمپل کے اسی طرز تحریر کی وجہ سے ہمارے نک چڑھے مورخ اس کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے غور نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ پاپولر ہسٹری یا عوامی تاریخ لکھتا ہے۔ لیکن اسی عوامی طرز تحریر نے عام قاری کو بھی اپنی تاریخ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ تاریخ بھی ایسے لکھتا ہے جیسے کہانی یا ناول لکھ رہا ہو۔ اس لئے جب اس نے اپنے ٹویٹر پر لکھا کہ 'کرتے شلوار میں ملبوس یہ صاحب میری کتاب پڑھ رہے ہیں‘ تو ہمیں یقین آ گیا کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ لیکن عمران خان یا ان کے ساتھیوں کی جانب سے اس کی تصدیق ہمارے سامنے نہیں آ ئی کہ وہ ڈیل رمپل کی کتاب ہی پڑھ رہے تھے یا کوئی اور کتاب؛ البتہ ہمیں خوشی ہوئی کہ عمران خان کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں اور ایسے پڑھ رہے ہیں کہ آدھی کتاب پڑھ چکے ہیں‘ کیونکہ تصویر میں انہوں نے جو صفحے کھولے ہوئے ہیں‘ وہ کتاب کے درمیان کے صفحے ہیں۔ 
اب کتاب پڑھنے کا ذکر آیا ہے تو ادب کے نوبیل انعام کا تذکرہ بھی ہو جائے۔ پچھلے سال یہ انعام نہیں دیا گیا تھا کیونکہ نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کے ایک رکن کے شوہر پر نہایت گھنائونے قسم کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس رکن کو کمیٹی سے نکال دیا گیا اور نئے ارکان مقرر کئے گئے۔ اس بار دو سال کے انعام دئیے گئے ہیں۔ ایک پچھلے سال کا اور ایک اس سال کا۔ یہ انعام بھی تنازعے کا سبب بن گئے ہیں کیونکہ ایک ناول نگار پر الزام یہ ہے کہ اس نے سربیا کے اس ظالم اور جابر حکمران کا ساتھ دیا تھا‘ جس نے بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ دوسری خاتون ناول نگار پر الزام یہ ہے کہ اس نے اپنے ناولوں میں تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ 2018 کا انعام پولینڈ کی خاتون ناول نگار اولگاتو کارچک کو دیا گیا ہے اور 2019 کا انعام آسٹریا کے پیٹر ہینڈکے کو دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر ادیبوں کی بین لاقوامی تنظیم PEN نے بھی احتجاج کیا ہے۔ خیر، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نوبیل انعام کی تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ اکثر سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر یہ انعام دئیے جاتے رہے ہیں۔ انعام دینے والی کمیٹی کے ارکان کا رجحان عام طور پر دائیں بازو کی سیاست کی طرف رہا ہے۔ 
نوبیل امن انعام کے بارے میں ہم پہلے ہی فقیر سید اعجازالدین کا قول نقل کر چکے ہیں۔ یہ انعام کسی نہ کسی امریکی صدر کو محض اس بنا پر دیا گیا کہ انہوں نے عالمی امن کے بارے میں کوئی بیان دیا تھا۔ بارک اوباما کو صرف اس لئے یہ انعام دے دیا گیا تھا کہ انہوں نے مصر میں اسلام کے بارے میں کوئی بیان دیا تھا۔ اس سے پہلے بھی اسی قسم کے بیان پر یہ انعام دیا جاتا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چونکہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ثالثی کرانے کا بیان دیا تھا‘ اس لئے اسے دنیا کا سب سے بڑا مذاق قرار دیتے ہوئے طنز کیا گیا تھا کہ اس بیان پر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امن کا نوبیل انعام دیا جا سکتا ہے۔ اچھا، اس سال امن کا نوبیل انعام ایتھوپیا کے وزیر اعظم کو دیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے پڑوسی ملک اریٹیریا کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔ اب ہم معافی چاہتے ہیں۔ ہمیں اس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی بہت ہی نازک مسئلہ ہو جسے ایتھوپیا کے وزیر اعظم نے حل کر دیا ہو‘ لیکن یہ دیکھ لیجئے کہ اس سے پہلے کئی بین الاقوامی امور پر اس طرح کے انعام دئیے گئے لیکن امن اور صلح و آشتی کی وہ فضا زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی جس کے لئے یہ انعام دیئے گئے تھے۔ بہرحال، ہو سکتا ہے اب وہ تاریخ نہ دہرائی جائے۔
عمران خان عالمی میڈیا سے بہت ناراض ہیں کہ وہ ہانگ کانگ کے جلسوں اور مظاہروں کی خبریں تو بڑے اہتمام سے نشر کرتا ہے، لیکن کشمیر میں ہندوستان جو ظلم کر رہا ہے اس کا کہیں ذکر تک نہیںکرتا۔ یہ شکایت بالکل بجا ہے۔ لیکن ہم کیا کریں۔ ہمارا ماضی ہماری پیٹھ پر ایسا سوار ہے کہ جب بھی کشمیر کی موجودہ صور تحال کا ذکر آتا ہے تو دنیا اس ماضی کا حوالہ دینے لگتی ہے۔ کہتے ہیں‘ چین ہمارا یار ہے اور ہماری جان بھی اس پر نثار ہے۔ کشمیر کے معاملے میں اس نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ ہمارے موقف کا حامی ہے لیکن چین کے صدر ان دنوں ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ ہم نے ہندوستان کے تمام اخبار چھان مارے۔ ان میں چین کی طرف سے ہمارے موقف کی حمایت میں ہمیں ایک لفظ بھی نظر نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے یہ ہماری نظروں کا قصور ہو۔ 
اب اپنے گھر کی بات بھی کر لیجئے۔ ہم دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اپنے گھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیا حال ہے۔ کیا اس سے بڑا مذاق کوئی اور ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو پہلے ہی جیل کی کوٹھڑی میں بند ہے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اخباروں میں خبر چھپتی ہے، میاں نواز شریف کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ گویا ایک قیدی کو دوبارہ قید کر دیا گیا۔ کہاں؟ ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں۔ اچانک ایک اور مقدمہ یاد آ گیا ہے اور یہ گرفتاری اس مقدمے میں کی گئی ہے۔ ایسے شخص کا بہرحال کسی نہ کسی مقدمے میں جیل کے اندر رہنا ضروری ہے‘ جو اپنی ہٹ کا پکا ہے اور ہماری بات مان کر ہی نہیں دیتا۔ وہ جیل میں بیٹھ کر بھی مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور دھرنے کی حمایت کر رہا ہے اور مسلم لیگ میں اس دھرنے کے حوالے سے جو اختلافات تھے، اسی شخص کی وجہ سے وہ اختلافات بھی دور ہو چکے ہیں۔ اب چونکہ ایک سابق جج کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس کی سزا کالعدم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تو اس کے خلاف ایک نیا مقدمہ تلاش کر نا ضرور ہو گیا تھا۔ اس کا گناہ کیا ہے؟ یہ ہمارے وزیر داخلہ پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ چونکہ وہ فوجی آدمی ہیں، اور فوجی آدمی صاف گو ہوتا ہے اس لئے انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر نواز شریف نثار علی خان کی بات مان لیتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ خوب سمجھ سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن یہ ضرور ہے کہ سرکاری حلقوں میں کافی گھبراہٹ پیدا ہو چکی ہے۔ اسی لئے اب عمران خان ان لو گوں کے ساتھ بات چیت کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔ بس، یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر دھرنے کی دھمکی دینے والے ایسا چاہیں۔ بھلا وہ لوگ ایسا کیوں چاہیں گے؟ اور اب بات چیت کی پیشکش کے بعد تو ان کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار آ گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں