فرانسیسی زبان کا ایک لفظ ہے deja vu جس کا مطلب ہے دیکھی بھالی کیفیت یا دیکھے بھالے حالات۔وہ صورت حال جس سے ہم پہلے بھی گزر چکے ہوں۔آج کل ہم کچھ ایسی ہی کیفیت اور ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں ۔ہم مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ اس دھرنے سے عمران خان کا دھرنا یاد آ نے لگتا ہے ۔ ہم تو عمران خان کے اس اعلان کا ذکر کر نا چا ہتے ہیں جس میںانہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو قرضے دینے کی خوش خبری سنائی ہے ۔ اس اعلان کے مطابق نو جوانوں کواپنے پیروں پر کھڑا ہو نے کے لئے لاکھوں روپے کے قرضے ملیں گے ۔کس حساب سے ملیں گے ؟ اس کی تفصیل آپ اخبار میں پڑھ لیجئے ۔ہمیں تو اس اعلان پر ایوب خان یاد آ گئے ہیں۔انہوں نے بھی اسی قسم کے قرضے کا اعلان کیا تھا۔ اور یہ قرضے دیئے بھی گئے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان قرضوں کا کیا حشر ہوا تھا؟ ہمیں وہ بھی یاد ہے ۔ہمیں تو ملتان کے ابن حنیف یاد آ تے ہیں ۔ لکھنے پڑھنے والے،کئی کتابوں کے مصنف۔دانش کدے کے نام سے کتابوں کی دکان چلا تے تھے ۔ کتابیں بیچتے کم تھے‘ خود ہی پڑھتے زیادہ تھے ۔ایوب خان کی حکومت نے اس قسم کے قرضے کا اعلان کیا تو انہوں نے شاید بیس ہزار کا قرضہ لے لیا۔ ان دنوں بیس ہزار روپے بھی بہت ہو تے تھے ۔انہوں نے قرضہ لیا اور اس دکان میں جھونک دیا،جو پہلے ہی نہیں چل رہی تھی ۔آدمی شریف اور دیانت دار تھے۔ قرضہ ادا کر نے کے لئے دکان ہی بیچ ڈالی‘ اور ایک اخبار میں نو کری کر لی۔ یہ تو ہمارے سامنے کا ایک واقعہ تھا۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات پیش آ ئے ہوں گے ۔اسی لئے قرضے دینے والی وہ سکیم ایسی غائب ہو ئی کہ پھر اس کا ذکر کہیں سننے میں ہی نہیں آ یا ۔اب سمجھ میں نہیں آ تا کہ عمران خان کی حکومت کن نو جوانوں کو یہ قرض دے گی ۔ قرض حاصل کر نے والے نو جوانوں کوقرض لینے سے پہلے کس طرح اپنا حق ثابت کر نا پڑے گا ۔کیا ان نو جوانوں کو قرض حا صل کر نے کے لیے اپنے اس کاروبار کی تفصیل پیش کر نا ہو گی جس کے لئے وہ قرض لے رہے ہیں ؟
اور پھر لاہور میں کئی نجی ادارے ایسے ہیں جو چھوٹے موٹے کارو بار کر نے والوں کو قرضے دیتے ہیں ۔ایک این جی او یہ کام کر رہی ہے ۔ اور چند مخیر اصحاب بھی اس طرح کے قرضے دے رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں محمد یو نس نے بھی گرامین بینک قائم کیا تھا۔ ان کا بینک بھی غریبوں بالخصوص غریب عورتوں کو چھوٹے قرضے دیتا تھا۔ اس بنا پر محمد یو نس دنیا بھر میں مشہور ہو گئے تھے ۔ حتیٰ کہ انہیں نو بیل انعام بھی مل گیا تھا۔ وہی محمد یونس اب مقدمے بھگت رہے ہیں ‘اور بنگلہ دیش کی حکومت ان کے خلاف کا رروائی کر رہی ہے۔ ہمیں اس بارے میں زیادہ تفصیل کا علم نہیں ہے اس لئے ہم مزید کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ ہمارے ہاں انفرادی طو رپر جو کام ہو رہا ہے اس کے بارے میں کہا تو یہ جا تا ہے کہ بہت کامیاب ہے ۔ہو سکتا ہے کامیاب ہی ہو‘ لیکن حکومت کی طرف سے اس طرح کے جو کام کئے جا تے ہیں ان میں کئی ادارے ملوث ہو تے ہیں اس لئے اس کی کامیابی کا امکان کم ہی نظر آ تا ہے ۔ اب یہ کامیاب نو جوان سکیم کوہی لے لیجئے ۔ظاہر ہے یہ قرضے بینکوں کے ذریعے دیئے جا ئیں گے ‘اور بینکوں کے اپنے قواعد وضوابط ہو تے ہیں ۔ اور پھر سود کے بغیر کوئی بینک بھی قرض نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ قرض حا صل کر نے والے نو جوانوں کو پہلے یہ بتانا ہو گا کہ وہ کس قسم کے کا رو بار کے لئے قرض لینا چا ہتے ہیں ۔اب آپ دیکھ لیجئے کہ اس وقت ہمارے ملک میں کاروبار کے مواقع ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔ جو لوگ پہلے کا رو بار کر رہے ہیں وہی رو رہے ہیں کہ ان کا کارو بار نہیں چل رہا ہے۔اب حکومت سے قرضے لے کر کا رو بار کے میدان میں قدم رکھنے والے نا تجربہ کارنوجوان کس طرح اپنا کاروبار جما سکتے ہیں ۔سوال یہ ہے ۔
اصل قصہ یہ ہے کہ عمران خان نے حکومت سنبھالنے سے پہلے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے، وہ ان کے گلے کا پھندا بن گئے ہیں۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ مکان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت میں آنے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے چند روز پہلے ان کے ایک وزیر با تدبیر نے کسی جھجک کے بغیر اعلان کر دیا کہ حکومت کسی کو نوکری نہیں دے سکتی۔ انہیں یاد دلایا گیا کہ خود عمران خان نے اس کا وعدہ کیا تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ حکومت نوکریاں دلانے کی سہولت فراہم کرے گی، نوکریاں تو پرائیویٹ سیکٹر میں دی جاتی ہیں۔ یہ بہانہ بناتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان جیسے ملک میں سب سے زیادہ نوکریاں حکومت کے محکموں اور اداروں میں ہی دی جاتی ہیں۔ آپ اپنے ملک کے اعدادوشمار ہی دیکھ لیجئے۔ یہاں سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے والوں کی تعداد ہی زیادہ ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں اتنی نوکریاں نہیں ہیں۔ ہمارے وزیر صاحب نے تو یہ بھی اعلان کر دیا کہ چار سو سرکاری ادارے بند کئے جا رہے ہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ ان اداروں کا نام بھی لے دیتے۔ لیکن انہوں نے نام نہیں لیا۔ اور قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ اب یہ حساب لگایا جا رہا ہے کہ ان اداروں کے بند ہو نے سے کتنے لاکھ آدمی بیروزگار ہو جائیں گے۔ گویا وہ سیاسی جماعت جو ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دینے کا دعویٰ کرکے برسر اقتدار آئی تھی اب ان لوگوں کے روزگار کے بھی پیچھے پڑ گئی ہے‘ جو کام سے لگے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں آپ نوجوانوں کو قرضے دینے کی سکیم کو بھی دیکھ لیجئے۔ کیا یہ بھی حکومت کی طرف سے عوام کی توجہ بٹانے کی کوشش تو نہیں ہے؟ اب تو عام آدمی نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ عوامی جذبات بھڑکا کر برسر اقتدار آنا تو آسان ہے‘ لیکن حکومت چلانا مشکل ہے۔ اس کا احساس خود عمران خان کو بھی ہو گیا ہے۔ اسی لئے اب وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ٹیم اچھی نہیں ملی۔ حالانکہ یہ ٹیم خود انہوں نے منتخب کی تھی۔ اب اگر وہ سارا الزام اس ٹیم کو دینے کی کوشش کریں گے تو بجا طور پر ان سے سوال کیا جائے گا کہ یہ ٹیم کس نے تیار کی تھی؟ اگر ٹیم ناکارہ ہے تو ٹیم بنانے والا کیسے اس سے بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ معاشی حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ حکومت اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ روپے کی قدر کم ہوئی تو چیزوں کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔ پٹرول کے نرخ بڑھنے کا بھی ان قیمتوں پر اثر ہوا۔ دوائوں کی قیمتیں تو آسمان کو چھونے لگیں۔ انسانی زندگی بچانے والی دوائوں کی قیمتیں تو کئی سو گنا بڑھ گئیں۔ اب بجائے اس کے کہ اس کی بنیادی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی حکومت نے کاروباری طبقے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔ اب عمران خان بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ جعلی قیمتیں بڑھانے والوں کے خلاف کارروا ئی کی جائے گی۔ جعلی قیمتیں بڑھانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ قیمتیں دکان داروں نے خود بڑھائی ہیں یا حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھی ہیں؟ اس کا فیصلہ ماہر معاشیات ہی کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو اب عمران خان صاحب پر ترس آنے لگا ہے۔ ان کی حکومت پہلے ہی ذہنی انتشار اور مخمصے کا شکار تھی، اوپر سے مولانا فضل الرحمن نے اسے حواس باختہ کر دیا ہے۔ حالانکہ مولانا اور ان کا ساتھ دینے والی اپوزیشن جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ ان کا یہ ایڈونچر کامیاب نہیں ہو گا۔ لیکن انہوں نے حکومت کو ایسا پریشان کر دیا ہے کہ اس نے کامیاب نوجوان جیسے وہ منصوبے شروع کر دیئے ہیں جو برسوں پہلے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ گویا، یہ تو وہی جگہ ہے نکلے تھے ہم جہاں سے۔