افتخار عارف نے کہا ہے:
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آ باد رکھنا چاہتے ہیں
اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور دلوں کو درد سے آباد رکھنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو محمودالحسن نے اختیار کیا ہے۔ اس نے انتظار حسین کی صحبت میں جو چند سال گزارے، اور ان کے ساتھ ملاقاتوں میں ان سے جو باتیں ہوئیں، وہ ایک چھوٹی سی کتاب میں محفوظ کر دی ہیں۔ کتاب کا نام ہے ''شرف ہم کلامی‘ انتظار حسین سے ملاقاتیں اور باتیں‘‘۔ اس کتاب میں انتظار حسین زندہ ہے۔ وہ ہمیں اپنے بارے میں اور اپنے ملنے والوں اور اپنے دوستوں کے بارے میں باتیں کرتا ہوا ملتا ہے۔ وہ اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اپنے اسلوب اور اپنے انداز کی یہ بالکل ہی انوکھی کتاب ہے۔ اس سے پہلے یادوں اور ملاقاتوں پر ایسی کتاب کم سے کم ہم نے تو نہیں دیکھی۔
اور دلوں کو درد سے آباد رکھنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان ہستیوں کے بچھڑنے کے بعد انہیں اس طرح یاد رکھا جائے کہ انہوں نے ہمارے ادب، ہمارے فن، ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت کو جس طرح ثروت مند کیا ہے اسے مختلف مضامین کی شکل میں پیش کر دیا جائے۔ اس میں ان کی اپنی زندگی کے وہ پہلو بھی سامنے لائے جائیں جنہوں نے ان کی تخلیقی شخصیت کی آب یاری کی۔ پچھلے دنوں پانچ ایسی ہی ہستیاں ہم سے جدا ہو گئیں، جنہیں بلا شبہ نابغہ روزگار ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے تین تو ہماری اپنی جانی پہچانی ہستیاں تھیں‘ اور ایک ہندوستانی اور ایک امریکی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ادب اور ادیب کو کسی ایک علاقے، کسی ایک ملک یا کسی ایک دائرے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ اب اگر ادب، خواہ وہ کسی بھی علاقے اور کسی بھی زبان کا ہو، آفاقی ہوتا ہے، تو ادیب بھی آفاقی ہی ہوتے ہیں۔ وہ سب کے ہوتے ہیں، کسی ایک کے نہیں ہوتے۔ حال ہی میں ہمیں چھوڑ کر جانے والی ان ہستیوں کو آصف فرخی نے اپنے جریدے ''دنیا زاد‘‘ کے خاص شمارے میں اکٹھا کر دیا ہے۔ اس شمارے کا عنوان رکھا ہے ''الوداع‘‘۔ یہ ہستیاں ہیں فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین، انور سجاد، ٹونی موریسن اور کرشنا سوبتی۔ کرشنا سوبتی ہندی کی ناول نگار تھیں‘ لیکن اردو پڑھنے والے ان سے اس لئے واقف ہیں کہ ان کی تحریریں اردو میں بھی تر جمہ ہو چکی ہیں۔ اب رہیں ٹونی موریسن تو ہم انہیں اس لئے بھی جانتے ہیں کہ انہیں ادب کا نوبیل انعام ملا تھا۔ لیکن انگریزی ادب پڑھنے والے ان کے ناولوں سے خوب واقف ہیں‘ بلکہ برطانوی خاتون ناول نگار اور نقاد اے ایس بیاٹ نے تو موریسن کے ناول Beloved کو بیسویں صدی کا بہترین ناول تسلیم کیا ہے۔ ان کے باقی ناول بھی ہم سب نے پڑھے ہیں۔ تنویر انجم اور آصف فرخی نے موریسن کی نظموں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے‘ جو اس رسالے میں شامل ہے۔
''دنیا زاد‘‘ کا یہ خاص شمارہ فہمیدہ ریاض سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے تو عاصم کلیار نے فہمیدہ کے بیٹے کبیر، جو امریکہ کے ایک تالاب میں ڈوب گیا تھا، کے نام خط لکھا ہے۔ یہ ایک نوحہ ہے۔ اس کے بعد فہمیدہ ریاض ہے اور ''دنیا زاد‘‘۔ ہم ہر ادیب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ بے چین روح تھا، یا بے چین روح تھی۔ لیکن اس رسالے میں فہمیدہ کی جو تحریریں ہماری نظر سے گزری ہیں‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فہمیدہ سے زیادہ بے چین روح ہمارے کسی اور ادیب اور شاعر میں نظر نہیں آتی۔ یہ بے چین روح، نہ صرف اپنی زندگی میں کسی نئی سے نئی چیز اور نئی سے نئی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے، بلکہ اپنی تحریروں میں بھی یہی تلاش ایک صنف سے دوسری صنف کی طرف اور ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف اسے لئے پھرتی ہے۔ وہ ہر دم کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی ہے۔ شعر نہیں کہہ رہی ہے تو افسانے لکھ رہی ہے۔ افسانے نہیں لکھ رہی ہے تو قدیم ایران پہنچ جاتی ہے اور اس پر ناول لکھ لیتی ہے۔ تصوف کی طرف راغب ہوتی ہے تو رومی کے شعروں کا ترجمہ کرتی ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے کی عادت ایسی بنا لی ہے کہ اس نے اپنے پاس رجسٹر رکھ لئے ہیں۔ اب جو کچھ بھی اسے یاد آتا ہے اس پر لکھتی رہتی ہے۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اگر فہمیدہ کو واقعی سمجھنا ہو تو ان رجسٹروں پر موجود اس کی تحریریں ضرور پڑھنا چاہئیں۔ آصف فرخی نے فہمیدہ پر بہت ہی مفصل مضمون لکھا ہے لیکن انہوں نے رجسٹروں پر موجود ان کی چھوٹی موٹی تحریریں جمع کر کے فہمیدہ کو ہر پہلو سے سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اور ہمیں یاد آیا کہ کئی سال پہلے فہمیدہ نے فیس بک کو اپنا ساتھی بنائے رکھا تھا۔ اب فیس بک تھی اور وہ۔ کوئی بھی بات اسے کرنا ہوتی، یا کسی واقعے یا کسی تحریر پر تبصرہ کرنا ہوتا تو فیس بک اس کے سامنے حاضر ہوتی۔ رات کو فیس بک پر لکھتے لکھتے وہ یہ بھی لکھ دیتی تھی ''اچھا دوستو، اب میں سونے جا رہی ہوں، کل صبح ملاقات ہو گی‘‘ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اس کا کمپیوٹر خراب نہیں ہو گیا۔ اور پھر بیماری نے اسے آن گھیرا۔ فہمیدہ پر اس کی بہن نجمہ منظور کے علاوہ انیس ہارون، عشرت آفرین، فاطمہ حسن اور شہلا نقوی نے اپنے اپنے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔ حمید شاہد نے ''دو عورتیں، دو کہانیاں‘‘ کے عنوان سے فہمیدہ اور خالدہ حسین کو یاد کیا ہے‘ لیکن یاسمین حمید نے فہمیدہ کی شاعری پر جو مضمون لکھا ہے‘ اور جس طرح انہوں نے فہمیدہ کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کا تنقیدی احاطہ کیا ہے، ہمارے خیال میں فہمیدہ پر ایسا تخلیقی اور تنقیدی مضمون آج تک نہیں لکھا گیا۔ کاش فہمیدہ زندہ ہوتی اور وہ یہ مضمون خود پڑھتی تو کتنا خوش ہوتی۔ پہلی مرتبہ اتنی باریک بینی سے اس کی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔
حمید شاہد نے خالدہ حسین سے اپنی آخری ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔ اور اپنے اس پیش لفظ کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے خالدہ حسین کے افسانوں کے آخری مجموعے ''جینے کی پابندی‘‘ پر لکھا ہے۔ نجیبہ عارف نے مکالماتی انداز میں خالدہ کے فن اور شخصیت پر بات کی ہے۔ زاہدہ حنا نے ان کے آخری مجموعے اور سعید نقوی نے ان کے فن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ناصر عباس نیر نے ''انسانی اختیار کے اثبات و نفی کی کشمکش‘‘ کے عنوان سے نوآبادیاتی جدیدیت کے تناظر میں خالدہ حسین کے افسانوں کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے‘ اور ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے خالدہ حسین کا جو طویل انٹرویو کیا ہے وہ اس منفرد افسانہ نگار کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ یہاں خالدہ حسین کا اپنا ایک مضمون بھی شامل ہے۔
اب اس محاکمے میں انور سجاد رہ گئے۔ یہاں ان کا ایک مضمون تو شامل ہے اور ایک شخصی خاکہ بھی لیکن انور سجاد اس سے کہیں زیادہ کا مستحق ہے۔ وہ اپنے اسلوب، اپنے انداز اور اپنے بیانیے کا منفرد اور واحد افسانہ اور ناول نگار تھا۔ امید ہے اس کے فن پر بھی تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ قریب تیس سال پہلے اس نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا تھا؟ اس کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔ اور ہاں اس شمارے میں کشور ناہید کا ایک مزیدار مضمون بھی تو ہے۔ اس کے کمرے میں گارسیا مارکیز آ گیا تھا۔ کیوں اور کیسے آیا تھا؟ یہ جاننے کے لئے اس کا مضمون پڑھ لیجئے۔
اب ایک جریدے کے خاص شمارے کا ذکر آیا ہے تو انجمن ترقی اردو پاکستان کے جریدے ''قومی زبان‘‘ کو بھی یاد کر لیں۔ اس جریدے کا خاص شمارہ جمیل جالبی کی یاد میں ہے۔ جمیل جالبی نے جو علمی اور تحقیقی کام کئے ہیں‘ اس شمارے میں ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ ہی ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو اردو زبان اور اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لئے ایک تاریخی ریکارڈ بن گیا ہے۔ جمیل جالبی کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ہمیں اکادمی ادبیات یاد آ جاتی ہے۔ مبین مرزا نے کئی سال کمال فن انعام کے لئے جمیل جالبی کا نام پیش کیا لیکن وہاں موجود دوسرے ارکان نے اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ خیر، جمیل جالبی جیسے محقق اور نقاد کو ایسے انعام کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے رسالے ''نیا دور‘‘ کے ذریعے جدید ادب اور رجحان ساز جدید ادیبوں کو جو پروان چڑھایا وہی ان کا انعام ہے۔ قومی زبان نے ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ جہاں ان کے انعام گنوائے ہیں وہاں ان کی کتابوں کی مکمل فہرست بھی شائع کر دی ہے۔