ہم تو زہرا نگاہ اور ڈاکٹر نعمان الحق کی یادداشت کے اسیر ہیں۔ سبحان اللہ اور ماشااللہ کیا حافظہ پایا ہے ان دونوں نابغہ روزگار ہستیوں نے۔ ہم تو انہیں سنتے ہیں اور اش اش کرتے ہیں۔ یہ سلامت رہیں ہزار برس‘ اور ہم بھی ایسے ہی انہیں سنتے رہیں (یہ اپنی عمر کے لئے دعا ہے)۔ یہ ہمارے ادب، تنقید اور تحقیق کی آبرو ہیں۔ لیکن ابھی یہ ذکر بعد میں۔ پہلے کچھ بیان ادبی اور ثقافتی تقریبات کے اس موسم کا ہو جائے جس کا آغاز اکتوبر سے ہوتا ہے۔ اکتوبر آیا اور یہ جشن شروع ہو گئے۔ لاہور میں اس کی بسم اللہ حیات احمد خان مرحوم کی کل پاکستان موسیقی کانفرنس سے ہوتی ہے۔ حیات احمد خان کے بعد ان کی صاحب زادی ڈاکٹر غزالہ نے یہ شمع روشن کر رکھی ہے۔ ہر مہینے کے شروع میں تو پابندی کے ساتھ موسیقی کی ایک محفل ہوتی ہی ہے، لیکن ہر سال اکتوبر میں موسیقی کا جشن برپا ہوتا ہے۔ اس جشن میں جہاں جانے پہچانے موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ وہاں سنگیت کی دنیا میں ابھرتے ہوئے نئے گانے والے بھی تلاش کئے جاتے ہیں۔ آج پاکستان میں کتنے ہی ایسے موسیقار ہیں‘ جنہوں نے ابتدا اسی جشن سے کی اور آج وہ نامور موسیقار مانے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے موسیقی کانفرنس کی یہ تقریب اس لئے شجر ممنوعہ بن جاتی ہے کہ وہ باغ جناح کے اوپن ائیر تھیٹر میں ہوتی ہے اور اکتوبر میں جو ٹھنڈ شروع ہو جاتی ہے اس میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر موسیقی سے لطف اندوز ہونا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈ اور یہ سردی گلے، ناک اور کانوں کا امتحان لیتی ہے۔ بہرحال سال کے سال یہ تقریب ہوتی ہے اور زور و شور سے ہوتی ہے۔
اور ادھر نومبر آیا اور فیض فیسٹیول شروع ہو گیا۔ الحمرا کے سبزہ زار اور اس کے بڑے اور چھوٹے تمام ہال بڑے بڑے نامور ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں، مصوروں، سیاست دانوں حتیٰ کہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں کی بات چیت اور بحث مباحثے سے گونج اٹھتے ہیں۔ اس بار ہم نے دیکھا کہ اس جشن کے لئے جہاں پورے الحمرا کی آرائش و زیبائش پر خاص توجہ دی گئی‘ وہاں اس کمرے کا نقشہ بھی بدل دیا گیا ہے جہاں ایک دو سال پہلے تک عطاالحق قاسمی بیٹھا کرتے تھے۔ ہمیں تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ یا۔ کس خوبصورتی اور کس سلیقے سے سجایا گیا ہے یہ کمرہ۔ اس کے ہر گوشے سے سلیمہ، منیزہ اور ڈاکٹر مدیح ہاشمی اور عدیل ہاشمی کی فن کارانہ بصیرت جھلک رہی تھی۔
لیکن ہم زہرا نگاہ اور ڈاکٹر نعمان الحق کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ یہ ''یادوں سے پیمان وفا‘‘ کے موضوع پر محفل تھی اور اسے رونق بخشنے والی تھیں زہرا نگاہ اور عارفہ سیدہ زہرا۔ اب جہاں یہ دونوں موجود ہوں وہاں باتوں اور یادوں کے گل و گلزار مہکنے ہی لگتے ہیں۔ یاد کیا جا رہا تھا فیض اور کیفی اعظمی کو۔ اب فیض اور کیفی اعظمی کا موازنہ کچھ عجیب سا لگتا ہے‘ لیکن زہرا نگاہ نے ان دونوں کے درمیان قدرِ مشترک ڈھونڈ لی کہ یہ دونوں ترقی پسند تھے اور سوشلسٹ نظریات رکھتے تھے۔ ایسے نظریات جن کے لئے ان دونوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اسی بات چیت کے دوران میں کیفی اعظمی کی صاحب زادی اور بلا مبالغہ فلمی دنیا کی بہترین فن کارہ شبانہ اعظمی بھی سامنے سکرین پر نظر آ ئیں۔ انہوں نے ممبئی سے یہ ویڈیو بھیجی تھی۔ وہ اپنے والد کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ لیکن سائونڈ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ اس لئے ان کی بہت سی باتیں سنائی نہیں دیں۔ اب زہرا نگاہ فیض اور کیفی اعظمی کی شاعری کا موازنہ تو نہیں کر سکتی تھیں‘ لیکن بہرحال کچھ تو کہنا تھا‘ اس لئے انہیں کیفی اعظمی کی ایک نظم ''مریم‘‘ یاد آ گئی‘ اور انہوں نے وہ سنا دی۔ پھر اچانک انہیں خیال آیا کہ کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے گیت بھی تو لکھے تھے‘ اور انہوں نے کیفی کا وہ گیت یاد کیا جو ہمیں بھی یاد آتا ہے (اور بہت یاد آتا ہے) تو ہم جھوم اٹھتے ہیں۔ وہ گیت ہے ''وقت نے کیا، کیا حسیں ستم‘ تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم‘‘ اور پھر ''جائیں گے کہاں، کچھ پتا نہیں‘ چل پڑے مگر راستہ نہیں‘‘۔ پھر فیض صاحب کی یادیں شروع ہو گئیں۔ زہرا نگاہ کے پاس لندن سے کراچی تک فیض صاحب کی اتنی یادیں ہیں کہ اگر وہ دن بھر اور رات بھر بھی انہیں سناتی رہیں تو ختم نہ ہوں۔ عارفہ سیدہ کے پاس صرف یادیں ہی نہیں تھیں بلکہ فیض کی شاعری اور ان کے فن پر بات کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ تھا۔
لیکن فیض کی شاعری پر ڈاکٹر نعمان الحق نے جو ایک خاصی ضخیم کتاب لکھی ہے، اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ادبی تحقیق ہو تو ایسی۔ اس کتاب میں انہوں نے فیض کی تمام نظموں اور غزلوں کو سامنے رکھ کر یہ معلوم کیا ہے کہ کس نظم کے کس مصرعہ کو فیض نے اپنی نظم سے خارج کیا ہے‘ اور کہاں کہاں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ بہت ہی باریک بینی کا کام ہے اور یہ نعمان الحق ہی کر سکتے تھے۔ یہاں ہمیں فیض ایک مختلف انداز میں نظر آتے ہیں۔ فیض صاحب کی اس ترمیم و اضافے کے بارے میں نعمان الحق سے کرید کرید کر معلومات حاصل کرنے والے تھے اپنے سلمان اکرم راجہ۔ آپ یہ تو جانتے ہیں کہ سلمان اکرم راجہ جانے مانے وکیل ہیں۔ آپ نے انہیں ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں بھی دیکھا ہو گا‘ لیکن آپ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کتابوں کے رسیا بھی ہیں۔ دنیا بھر میں چھپنے والی نئی سے نئی کتاب ان کے کنڈل پر ہوتی ہے اور وہ اسے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے نعمان الحق کی یہ کتاب بھی ایک تجربہ کار وکیل اور ادب کے باریک بین قاری کے طور پر پڑھی‘ اور کتاب کے ایک ایک ورق پر نعمان الحق سے سوال کیا کہ یہ کیوں ہے؟ اور یہ کیسے ہے؟ انہوں نے نعمان الحق کو یاد دلایا کہ آپ نے اصل متن سے زیادہ حاشیے میں بہت سی باتیں لکھ دی ہیں۔ انہیں راولپنڈی میں بیٹھے ضیا کھوکھر بھی یاد آئے، یہ پیپلز پارٹی کے متوالے فیض کے بھی عاشق ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جلسے میں فیض نے جو نظم پڑھی تھی، اس میں یہ الفاظ بھی تھے، جو بعد میں اس نظم میں نظر نہیں آئے۔ ہم تو ڈاکٹر نعمان الحق کو ایک استاد اور نقاد کی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ وہ ایک منفرد اور ممتاز محقق بھی ہیں۔ جس عرق ریزی سے انہوں نے فیض کی نظموں سے حذف کئے جانے والے الفاظ بازیافت کئے ہیں، یہ انہی کا حصہ ہے۔ نعمان الحق صحیح معنوں میں ہفت زبان ہیں۔ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، فرانسیسی کون سی ایسی زبان ہے جو وہ نہیں جانتے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم حساب کتاب کے علم سے شروع ہوئی۔ ہمیں تو وہ اس وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ ڈوب کر اردو اور فارسی کے اشعار سنانا شروع کرتے ہیں۔
ایک اجلاس میں فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین اور الطاف فاطمہ کو یاد کیا گیا۔ آصف فرخی میزبان تھے۔ عارفہ سیدہ اور اصغر ندیم سید باتیں کرنے والوں میں تھے۔ یہ تینوں لکھنے والیاں اپنے مزاج، اپنے اسلوب اور اپنی فکر کے حساب سے بالکل ہی مختلف تھیں۔ فہمیدہ جہاں شعلۂ جوالہ تھیں وہاںخالدہ حسین بالکل ہی نرم رو ندی‘ اور الطاف فاطمہ نہایت ہی خوددار لکھنے والی کہ انہیں ہر قسم کے سر کاری ایوارڈ پیش کئے گئے لیکن انہوں نے ہر اعزاز اور ہر انعام قبول کر نے سے انکار کر دیا۔ یو بی ایل کی طرف سے ان کی کتاب پر انعام دیا گیا تو گویا زبردستی ان کے گھر جا کر اس کا چیک پیش کیا گیا۔
یہ جشن ہمیشہ ہمیں الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر کئی محفلیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ان میں بیشتر وہ ہوتی ہیں جہاں جانے کو جی چاہتا ہے لیکن ایک وقت میں ایک ہی جگہ جایا جا سکتا ہے۔ اس لئے افسوس ہوتا ہے کہ فلاں سیشن میں ایسے موضوع پر بات ہو رہی ہے جس موضوع نے ہمیں کب سے پریشان کر رکھا ہے۔ مگر کیسے جائیں؟ مثلاً ہم ''سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت‘‘ والے سیشن میں جانا چاہتے تھے، مگر کیا کرتے، کہیں اور پھنسے ہوئے تھے۔