"MAC" (space) message & send to 7575

محبِ وطن کون؟

سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے اور طلبہ یونین کی بحالی کی راہ ہموار کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ لیکن یہاں کیا ہوا؟ طالب علم رہنمائوں اور طلبہ یکجہتی مارچ کا انتظام کرنے والوں کے خلاف بغاوت اور غداری کے مقدمے بنا دئیے گئے اور اس مارچ میں سرگرم حصہ لینے والوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن کے خلاف یہ مقدمے بنائے گئے ان میں ولی خاں یونیورسٹی کے طالب علم مشعل خان کے والد اقبال لالہ بھی شامل ہیں۔ مشعل خان کو کچھ عرصہ پہلے طلبہ کے ہی ایک ہجوم نے نہایت بیدردی سے قتل کر دیا تھا۔ اب ان کے والد اپنے ہی ملک کے غدار قرار دئیے گئے ہیں۔ اب آپ ذرا یاد کیجئے۔ ہماری تاریخ میں کتنی شخصیتیں محض اس لیے ملک کی غدار بنائی گئیں کہ اس وقت کی حکومت انہیں پسند نہیں کرتی تھی ‘ اور پھر وہی حکومت جس نے انہیں غدار قرار دیا تھا انہیں محب وطن بھی قرار دیتی تھی ۔ہمیں تو اس موقع پر اس زمانے کے بہت ہی جی دار کارٹونسٹ وائی ایل بہت یاد آتے ہیں ۔ جب حکومت نے ولی خان کو غداری کے الزام میں گرفتار کر نے کے کچھ عرصے بعد رہا کیاتووائی ایل نے ایک کارٹون بنایا۔ اس کارٹون کی سرخی تھی ''اگلے حکم تک آ پ کو محب وطن قرار دیا جا تا ہے‘‘۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی نا کہ کسی کو غدار قرار دینا یااسے محب وطن کا سر ٹیفکیٹ دینا اس وقت کی حکومت کی صوابدید پر ہے ۔ یہ کون فیصلہ کرے گا کہ حبِ وطن کیا ہے‘اور غداری کیا ہے؟ اس طرح توحکومت کا ہر مخالف غدار ہے ‘اور باغی ہے ۔
اسی حکومت کے ایک وزیر فواد چودھری نے مطالبہ کیا تھا کہ طلبہ یک جہتی کاجلوس نکالنے والوں کے خلاف جو مقدمے دائر کئے گئے وہ واپس لیے جائیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کسی کی ضمانت ہوئی یا نہیں۔ یہ عمران خان کی حکومت کی ندرت ہی ہے کہ اس کا ایک وزیر اپنی حکومت کی پالیسی کے خلاف بیان دے رہا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی کبھی نہیں سنی جا ئے گی ۔ اس لیے کہ حکومت کی پالیسی تو اس حقیقت سے ہی واضح ہو جا تی ہے کہ پولیس ان گرفتار ہو نے والوں کا ریمانڈ حا صل کرنے کے لیے عدالت میں پیش کرتی ہے ۔ وہ تو عدالت کو ہی رحم آ جا تا ہے کہ وہ انہیں پولیس کے حوالے کر نے کے بجا ئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے۔ ظاہر ہے فواد چودھری کے مطالبے کے بجا ئے اب ان پر مقدمہ ہی چلا یا جا ئے گا۔ فاروق طارق نے بھی اپنی ضمانت کرا لی ہے۔ وہ بھی اس مقدمے میں پھنسے ہو ئے ہیں۔ آخرحکومت کیا چا ہتی ہے؟خود کو بدنام کر نے میں اسے کیا مزہ آ تا ہے؟ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنے مطالبات کے حق میں آواز اٹھانا اور جلوس نکالنایا جلسہ کر ناہر انسان یا ہر جماعت کا بنیادی انسانی حق ہے ۔ ان نو جوانوں نے جلوس نکالا۔ جوش میں آ کر طرح طرح کے نعرے لگا ئے۔قصہ ختم ہوا۔ اب انہیں باقاعدہ مجرم بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
اب توطلبہ یونین بحال کر نے کا اعلان عمران خان نے بھی کر دیا ہے ۔ انہوں نے فر مایا ہے: طلبہ یونین کی بحالی کا کام ایک مکمل ضابطۂ کار بنانے کے بعد کیا جا ئے گا۔انہوں نے یہ نہیں فر مایا کہ یہ ضابطۂ کار کب بنایا جا ئے گا۔ اس بارے میں انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ ضابطۂ کار کیا ہو گا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف وعدہ ہی ہے۔ ایسا وعدہ جسے پورا کرنا ضروری نہیں ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ضیا الحق نے جب طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا ئی تھی تو کیا اس وقت ان تنظیموں کے بارے میں کو ئی ضابطۂ کار موجود نہیں تھا؟ اسی ضابطہ کار کے تحت کیا طلبہ یو نینز بحال نہیں کی جا سکتیں؟ اوراگر سندھ کی حکومت نے یہ پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تو کیا اسے کو ئی نیا ضابطہ کار بنانے کا ادراک نہیں تھا؟ ایسے وعدے پہلے بھی بہت کئے جا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے زمانے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی 2008ء میں پارلیمنٹ میں جوپہلی تقریر کی تھی تو انہوں نے طلبہ یو نین بحال کر نے کا بھی اعلان کیا تھا۔مگر پھر کیا ہوا؟ وہ حکومت بھی اپنے وعدے بھول بھال گئی اور لوگ بھی خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔ 2017ء میں سینیٹ کی ایک کمیٹی نے بھی ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس قرار داد میںطلبہ یونینز کی بحالی کو طلبہ کا آ ئینی حق تسلیم کیا گیا تھا‘ لیکن یہ سب باتیں ہی باتیں تھیں۔ہوا کچھ بھی نہیں ۔ پچھلے ہفتے پاکستان کے پچاس شہروں میں نو جوانوں کے پر جوش احتجاج اور ان کے انقلابی نعروںنے ہمارے حکمرانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ طلبہ کے مطالبات پر تو جہ دیں۔ لیکن حکومت اپنی پیش رو حکومتوں کی طرح یہ توجہ اس طرح دے رہی کہ اصل معاملہ جتنا بھی ہو سکے ٹلتا ہی چلا جا ئے ۔ عمران خان صاحب کا ٹویٹ اسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ طلبہ یونینز کے نام پر کچھ عناصر تعلیمی اداروں میں اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ یہ گروہ یا جماعتیں طلبہ کی منتخب تنظیمیں نہیں ہیں۔ انہیں طلبہ نے کسی انتخاب میں کامیاب نہیں کرایا۔ یہ اپنی جماعتی طاقت کے بل پر مختلف تعلیمی اداروں میں قبضہ کئے بیٹھی ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر جب نئے طلبہ ان تعلیمی اداروں میں داخل ہو تے ہیں تو یہ گروہ اور یہ جماعتیں ان پر اپنی طاقت کا رعب جماکر‘ انہیں اپنے ساتھ شامل کر نے کی کوشش کر تی ہیں۔ اگر کوئی دوسری تنظیم یا طلبہ کا کو ئی اور گروہ نئے آنے والے طلبہ کا استقبال کرنے کی کوشش کرتا ہے تواسے بزورِ طاقت راستے سے ہٹا دیا جا تا ہے ۔ یہ سب کچھ کھلے عام ہو تا ہے۔ اکثر اوقات تو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی ان کا ساتھ دیتی ہے‘ لیکن اگر انتظامیہ ساتھ نہ دے تو مختلف طریقوں سے اسے خوف زدہ کر دیا جا تا ہے ‘اور وہ خاموش رہنے پر مجبور ہو جا تی ہے۔ عمران خان صاحب کو یاد ہو گا کہ جب وہ ایک یونیورسٹی میں گئے تھے تو ایک جماعت نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اس لیے بھی ہر تعلیمی ادارے میں طلبہ یو نین کا قیام ضروری ہے۔ اس یونین کے ارکان کا انتخاب خود طلبہ کریں گے اور اس انتخاب میںہر فکر اور ہر نظریے کے طلبہ شریک ہوں گے۔ اس طرح ایک توکسی مخصوص جماعت کی اجارہ داری ختم ہو جا ئے گی ‘دوسرے یہ یو نینز طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کریں گی ۔ طلبہ کے مطالبات وہی ہیں جن کا اعادہ یک جہتی مارچ میں کیا گیا ہے‘ اور یہ مطالبات ایسے ہیں جن سے کو ئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ فیس میں کمی کا مطالبہ‘ ہائر ایجو کیشن کمیشن کے فنڈز پورے کر نے کا مطالبہ۔یہ طلبہ کا اپنا حق ہے ۔اب حکومت کو سوچ لینا چا ہیے کہ یک جہتی مارچ کے بعد طلبہ کی طاقت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ اب ان کے رہنمائوں کے خلاف مقدمے بنا کر اس جن کو دو بارہ بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو ہر حال میں اس سنگین مسئلے کی طرف پوری سنجیدگی سے توجہ دینا پڑے گی۔ ظاہر ہے آپ کوپیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اگر یہ کام کل کر نا ہے تو آج ہی کیوں نہ کر لیا جائے؟ اس طرح حکومت کی عزت بھی رہ جائے گی ۔ اب یہ عمران خان اور ان کی حکومت پر ہے کہ وہ کیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی حکومت کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری اس معاملے میں زیادہ دانش مند ی کاثبوت دے رہے ہیں ۔ وہ معاملے کی نزاکت کو زیادہ سمجھتے ہیں ۔ کم سے کم ان کی بات ہی مان لی جائے۔ جنہیں گرفتار کیا گیا ہے‘ یہ غدار نہیں ہیں۔ محب وطن ہیں ۔اور وعدے کے مطابق طلبہ یونینز جلد سے جلد بحال کی جائیں ۔ 
طلبہ کے مطالبات وہی ہیں جن کا اعادہ یک جہتی مارچ میں کیا گیا ہے‘ اور یہ مطالبات ایسے ہیں جن سے کو ئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ فیس میں کمی کا مطالبہ‘ ہائر ایجو کیشن کمیشن کے فنڈز پورے کر نے کا مطالبہ ۔یہ طلبہ کا اپنا حق ہے ۔اب حکومت کو سوچ لینا چا ہیے کہ یک جہتی مارچ کے بعد طلبہ کی طاقت کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں