"MAC" (space) message & send to 7575

کراچی آرٹس کونسل اور بہت کچھ

ان دنوں ہم کر اچی میں ہیں۔ جب سے اسلام آباد میں نیا پاکستان بنانے والی حکومت آئی ہے کراچی کو اتنا بد نام کیا گیا ہے کہ یہاں آنے کی بات سنتے ہی خوف آنے لگتا ہے۔ کچرا ہے تو وہ کراچی میں۔ کتے ہیں تو وہ کراچی میں۔ اور کراچی کے کتے انسانوںکو کاٹتے بھی ہیں۔ یہ خبریں پڑھ پڑھ کر لگتا تھا کہ اس ملک کے باقی شہر نتھرے نتھرے اور شفاف پانی کی طرح صاف ستھرے ہیں۔ کہیں کوئی گندگی نہیں ہے۔ کہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نہیں ہیں۔ اب رہ گئے کتے تو وہ کراچی میں ہی بائولے ہو گئے ہیں اورگلی گلی‘ سڑک سڑک معصوم لوگوں کو کاٹتے پھرتے ہیں۔ باقی شہروں کے کتے تو جیسے اتنے سدھے سدھائے ہوئے ہیں کہ وہ انسانوں کو دیکھ کر ہی دم ہلا کر چائوں چائوں کرنے لگتے ہیں۔ کراچی میں کتوں کے کاٹنے کی خبریں آئیں تو محض توازن برقرار رکھنے کے لئے کئی دوسرے شہروں سے بھی ایسے بائولے کتوں کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ توازن قائم رکھنا بھی تو ضروری ہے نا۔ اور ہاں یہاں ٹڈی دل بھی تو آ گیا تھا۔ یہ ٹڈی دل بلوچستان سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ وہ رحیم یار خان تک بھی چلا گیا تھا‘ ورنہ وہ گناہ بھی کراچی کے گلے ہی پڑتا۔
لیجئے ہم کہاں کچرے اور کتوں کے قصے میں پڑ گئے اور لگے کراچی کی صفائیاں پیش کرنے۔ اصل میں تو ہمیں کراچی آرٹس کونسل کی بارہویں عالمی اردو کانفرنس نے کچھ ایسا مبہوت کیا ہے کہ اس کی وجہ سے پورا کراچی ہمیں اچھا لگنے لگا ہے۔ یعنی کراچی آرٹس کونسل اور اس کے مدارالمہام محمد احمد شاہ۔ احمد شاہ کے بغیر کم سے کم ہم تو کراچی آرٹس کونسل کا تصور نہیں کر سکتے۔ یہ احمد شاہ کا کرشمہ ہی ہے کہ جب بھی ہم یہاں آتے ہیں‘ آرٹس کونسل کی پوری عمارت کو نئی آرائش اور زیبائش کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ عمارت میں توسیع کے ساتھ اس کی شکل و صورت بھی بدلتی رہتی ہے۔ اس بار اسے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس سال یہ بھی معلوم ہوا کہ احمد شاہ نے عالمی بینک کے تعاون سے صرف آرٹس کونسل ہی نہیں بلکہ اس کے بڑے پھاٹک کے ساتھ گزرنے والی سڑک کو بھی آرٹس اور کلچر کے علاقے کا درجہ دلا دیا ہے۔ یہ ساری گزارش ہم اپنے لاہور کی الحمرا آرٹس کونسل کو سامنے رکھ کر‘ کر رہے ہیں۔ الحمرا آرٹس کونسل سرکاری ادارہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ سرکاری ادارے وہاں کے افسروں کے ذوق و شوق کے مطابق ہی چلتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لئے وہاں عطاء الحق قاسمی جیسا سربراہ آ گیا تھا تو الحمرا کی شکل بدل گئی تھی۔ الحمرا کے سبزہ زار میں علامہ اقبال کا مجسمہ عطاء الحق قاسمی نے لگوایا تھا۔ اس کے بعد ہی کچھ لوگوں کو قائد اعظم کا مجسمہ لگانے کی ہمت ہوئی۔ اور پھر عطاء الحق قاسمی نے ہی سال کے سال ادبی اور ثقافتی جشن منانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ یہ جشن کئی سال منایا جاتا رہا۔ پھر جیسے ہی عطاء الحق قاسمی وہاں سے روانہ ہوئے، یہ جشن بھی ختم ہو گئے۔ اس سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ ایک با ذوق اور با صلاحیت فرد کی بھی کتنی اہمیت ہوتی ہے‘ دوسرے یہ ثابت ہوا کہ سرکاری اداروں میں یہ کام مستقل بنیادوں پر نہیں ہو سکتے۔ ادھر کسی کام میں دلچسپی لینے والا فرد وہاں سے ہٹا، اور وہ کام بھی اس کے ساتھ ہی چلا گیا۔ غیر سرکاری اداروں میں‘ جو اپنے منتخب عہدے داروں اور ارکان کی دلچسپی اور ان کے ذوق و شوق کی وجہ سے چلتے ہیں، وہ نئی نئی اختراعات بھی کی جا سکتی ہیں جو سرکاری اداروں کی پالیسیوں کی وجہ سے وہاں نہیں کی جا سکتیں۔ الحمرا آرٹس کونسل اور کراچی آرٹس کونسل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ کراچی میں موجود تمام نامور ادیبوں اور فن کاروں کی مشاورت سے آرٹس کونسل کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ ان کے مشیروں میں طلعت حسین، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر ہما میر، اقبال لطیف، عنبریں حسیب عنبر، ڈاکٹر محمد ایوب شیخ، سید اسجد بخاری، عظمیٰ الکریم، عمران عمو، سید سعادت علی جعفری، شکیل خان، محمد بشیر خان سدوزئی، چاند گل شاہ اور فرخ شہاب جیسے ادیب اور فن کار شامل ہیں۔ آرٹس کونسل کے کئی سو ارکان عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 
اب کراچی آرٹس کونسل کی بارہویں عالمی کانفرنس کا ذکر بھی ہو جائے۔ ہر سال اس کانفرنس میں ہندوستان کے دو تین ادیب ضرور شریک ہوتے تھے۔ اس مرتبہ خدشہ تھا کہ شاید وہاں سے کوئی بھی ادیب نہیں آ سکے گا‘ لیکن وہ احمد شاہ ہی کیا جو ہار مان جائے۔ اس سال بھی ہندوستان سے ایک نہیں بلکہ دو ادیب اور شاعر اس کانفرنس میں آئے ہیں۔ ایک تو اپنے جانے پہچانے ادیب، نقاد اور شاعر شمیم حنفی صاحب ہیں۔ دوسرے ان کے ساتھ ہندوستان کے نہایت ہی مقبول و معروف شاعر رنجیت چوہان آئے ہیں۔ شمیم حنفی صاحب اپنی طبیعت کی خرابی اور کمزوری کی وجہ سے کراچی آ تے ہوئے گھبرا رہے تھے مگر احمد شاہ کے اصرار کے آگے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ آ گئے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ صرف چار پانچ دن کے لئے ہی آئے ہیں‘ مگر وہ آئے تو سہی۔ اور انہوں نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پڑھا۔ لیکن اس اجلاس کا پہلا خطبہ حارث خلیق کا تھا۔ حارث خلیق کا تعارف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کرایا گیا۔ دوسرے دن ہمارے دوست پیرزادہ سلمان نے بھی اپنے اخبار میں انہیں انسانی حقوق کے کمیشن کا سیکرٹری جنرل ہی لکھا۔ لیکن بھائی، حارث خلیق سیکرٹری جنرل اب بنے ہیں۔ پہلے تو وہ اردو اور انگریزی کے شاعر اور ادیب ہیں‘ بلکہ ان کا شمار تو ان معدودے چند ادیبوں اور شاعروں میں کیا جا سکتا ہے جو نجیب الطرفین ادیب و شاعر ہیں۔ حار ث کے والد خلیق ابراہیم خلیق ادیب تھے، اور حکومت پاکستان کے محکمہ فلم اینڈ پبلی کیشن کے سربراہ تھے۔ انہوں نے جو آپ بیتی لکھی ہے اس میں ترقی پسند ادیبوں اور متحدہ ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین کی تاریخ محفوظ کر دی ہے۔ حارث کی والدہ حمیرا خلیق کا تو اردو ادب کی مختلف اصناف میں خاصا بڑا کام ہے۔ انہوں نے افسانے لکھے ہیں، ٹیلیوژن ڈرامے لکھے ہیں، ترجمے کئے ہیں اور آپ بیتی بھی لکھی ہے۔ اس آپ بیتی میں کئی ایسی باتیں ہیں جو تاریخ میں پہلی مرتبہ سامنے آئی ہیں۔
حارث خلیق نے اپنے خطبے میں ہمیں یاد دلایا کہ آج ہم دو بحرانوں کی زد میں ہیں۔ ایک بحران ہے ماحولیاتی آلودگی کا‘ اور دوسرا بحران ہے ہمارے ریاستی بیانیے کا۔ ماحولیاتی آلودگی کا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ شاید کچھ عرصے بعد ہمیں بھی ہندوستان کی طرح شہر شہر آکسیجن والے کلینک کھولنا پڑیں گے۔ باہر کی فضا میں آپ کا دم گھٹنے لگے گا تو آپ اس کلینک کا رخ کریں گے۔ منہ میں آکسیجن کی نلکی لگائیں گے اور بگڑتے ہوئے سانس بحال کرتے رہیں گے۔ اب ریاستی بیانیے کا بحران کیا ہے؟ اظہار رائے کی آزادی حکومت اور ہمارے اصل حکمرانوں کی مرضی کے تابع ہو گئی ہے۔ وہ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے یہ بنیادی حق استعمال کر سکتے ہیں۔ اجازت نہ دیں تو ہمارا وہی حشر ہو گا جو پچھلے دنوں طلبہ کی یک جہتی کے لئے جلوس نکالنے والوں کا ہوا۔ حارث نے ادیبوں کو یاد دلایا کہ وہ بلوچستان کے حالات پر لکھیں اور وزیرستان میں جو رہا ہے اس پر لکھیں۔
پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے خطبے میں کہا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آج ہم پوسٹ ٹرتھ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم تو شکوک و شبہات کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ادب کی موت، تاریخ کا خاتمہ، اور تخیل کی موت جیسی اصطلاحوں کے بعد ہمارے لئے اور کیا رہ گیا ہے۔ اب تو مستقبل کی موت کا اعلان ہونا ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس صورت میں ادیب کیا کر سکتا ہے۔ زندگی کی رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ اس کا ساتھ دینا مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورت میں کوئی بھی آرام و سکون کی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ اس بار اس کانفرنس کا اصل موضوع ہماری ثقافتی رنگا رنگی ہے۔ تمام زبانوں کا ادب اور ثقافت یہاں موجود ہیں‘ اور سب ادیب و شاعر بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں