"MAC" (space) message & send to 7575

پاکستانی ثقافت، تخلیقی اور تنقیدی جائزہ

بزرگ ادیبوں اور شاعروں کو مبارک ہو۔ ایک اور ادارے نے بھی انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ ادارہ ہے کراچی آرٹس کونسل۔ اس سال یہ انعام تین ادیبوں کو دیئے گئے: سندھی، اردو اور انگریزی کے ادیب امر جلیل، اردو کے افسانہ نگار اسد محمد خان اور شاعر افتخار عارف۔ اس انگریزی نام کے انعام کا اردو ترجمہ اکادمی ادبیات پاکستان نے ''کمال فن ایوارڈ‘‘ رکھا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ترجمہ انگریزی نام کی وسعت تک نہیں پہنچتا کیونکہ یہ انعام تو کسی ادیب و شاعر کو اس کی عمر بھر کی کاوشوں کے اعتراف میں دیا جاتا ہے‘ مگر فن میں کمال تو کسی بھی عمر میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عمر بھر کی کمائی پر امر جلیل نے اچھا مذاق اڑایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ یہ انعام دے کر ہم سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں جو کمال حاصل کرنا تھا‘ وہ کر لیا۔ بس، اب آپ ہماری جان چھوڑئیے۔ انہوں نے یہ بات مذاق میں کہی تھی لیکن کیا ہمارے عالم فاضل دانشوروں اور لغت نویسوں کو اس جانب توجہ نہیں کرنا چاہیے؟ کیا اس انعام کا کوئی اچھا سا اردو نام نہیں رکھنا چاہیے؟
یہ بارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آخری دن یا آخری شام تھی۔ چار دن کی اس کانفرنس میں کتنے اجلاس ہوئے؟ اور ان اجلاسوں میں کتنے موضوع زیر بحث آئے؟ اس کا احاطہ کرنے کے لیے تو دفتر کے دفتر چاہئیں‘ لیکن ایک موضوع ایسا ہے جسے اس کانفرنس کا بنیادی موضوع کہنا چاہیے اور یہ موضوع ہے‘ پاکستانی ثقافت یا یوں کہہ لیجئے کہ پاکستانی ثقافت کی ر نگا رنگی۔ کانفرنس کے منتظمین نے تو اس کا اظہار اس طرح کر دیا کہ پاکستان کے ہر علاقے کی مقامی ثقافت اس علاقے کے ادب اور شاعری کی صورت میں پیش کر دی کہ دیکھ لو یہ ہے اس علاقے کا ثقافتی اظہار‘ لیکن ایک اجلاس خاص طور پر پاکستانی ثقافت کے حوالے سے مخصوص کیا گیا تھا۔ یوں تو پاکستانی ثقافت کی تعریف اور اس کا تعین کرنے کی کوششیں قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی شروع ہو گئی تھیں اور ان مباحث میں فیض احمد فیض، پروفیسر کرار حسین اور ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے ہمارے زعما حصہ لیتے رہے تھے اور اس وقت اس موضوع پر جو مباحث سامنے آئے تھے وہ تحریری شکل میں بھی موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ موضوع ہر چند سال بعد کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اور بدلتی ہوئی سیاسی اور سماجی صورت حال میں اس پر غور و خوض ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس اجلاس کا موضوع تھا ''پاکستانی ثقافت، تخلیقی و تنقیدی جائزہ ‘‘۔ اس اجلاس کے میزبان تھے ڈاکٹر سید جعفر احمد‘ اور ان کے سامنے بیٹھے تھے سید سردار شاہ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، ثروت محی الدین، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر قاسم بگھیو، نذیر لغاری، اباسین یوسف زئی، افضل مراد اور غازی صلاح الدین۔ گویا یہ پاکستان کی تمام زبانوں اور تمام علاقوں کی نمائندگی تھی۔ سید جعفر احمد چونکہ استاد ہیں، اس لئے انہوں نے گفتگو کرنے والے شرکا کے لئے ایک سوالنامہ تیار کر رکھا تھا۔ یہ ایک قسم کا امتحانی پرچہ تھا‘ جو سب کے حوالے کر دیا گیا‘ مگر گفتگو کرنے والوں میں سے شاید ہی کسی نے وہ سوالنامہ پڑھا ہو گا‘ کیونکہ وہی باتیں شروع ہو گئیں جو ہم اب تک سنتے چلے آئے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب بھی پاکستانی ثقافت کا ذکر آتا ہے تو ہم فوراً ہزاروں سال پیچھے چلے جاتے ہیں اور مہر گڑھ اور موہنجو داڑو کی بات شروع کر دیتے ہیں کہ ہم ان تہذیبوں کے امین ہیں۔ ادھر اعتزاز احسن نے یہ ثابت کرنے کے لئے پوری کتاب لکھ ڈالی ہے کہ جس خطے میں پاکستان بنایا گیا ہے وہ خطہ تو ہمیشہ سے ہندوستان کے باقی حصوں سے الگ تھا۔ یعنی پاکستان تو ہمیشہ سے تھا۔ صرف اس کا وجود بعد میں سامنے آیا ہے۔ یہی بات اس اجلاس میں بھی کہی گئی اور بڑے وثوق کے ساتھ کہی گئی۔ لیکن شاید ہمارے یہ زعما گزشتہ چند سال کے دوران میں ہندوستان میں کی جانے والی کھدائیوں سے واقف نہیں ہیں۔ ہندوستان میں جو کھدائیاں کی جا رہی ہیں ان سے ثابت ہو رہا ہے کہ ہم جسے انڈس سولائزیشن یا وادیٔ سندھ کی تہذیب کہتے ہیں‘ وہ راجستھان سے ہوتی ہوئی ہندوستانی گجرات تک پھیلی ہوئی تھی اور ادھر ہڑپہ کی تہذیب ہندوستانی پنجاب کے مشرقی حصے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس پر ہم توجہ نہیں کرتے۔ ادھر غازی صلاح الدین نے تہذیبوں کی کایا کلپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے ساتھ ہر علاقے اور ہر مقام کے کلچر میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اب پاکستان کے کسی علاقے کا کلچر وہ نہیں رہا‘ جو ستر بہتّر سال پہلے تھا۔ ہر علاقہ دوسرے علاقے کے کلچر یا ثقافت سے متاثر ہوا ہے اور ثقافتی تنوع کے باوجود ایک مشترک ثقافت وجود میں آ رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تخلیق کا حوالہ دیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ کسی عوامی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ اشرافیہ کی ذہنی اپچ کا نتیجہ ہے۔ اور یہ تو سب مانتے ہیں کہ پاکستان کے واحد خالق قائد اعظم محمد علی جناح تھے، جنہوں نے اس اشرافیہ (بالخصوص یو پی کی اشرافیہ) کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کیا۔ اور اشرافیہ کا یہ کلچر ان علاقوں سے یہاں آیا جو پاکستانی علاقوں کا حصہ نہیں بنے۔
لیکن اس بحث میں کسی کی توجہ آج کے عالمی کلچر کی طرف نہیں گئی۔ یہ مان لیجئے کہ آج کا کلچر گلوبل کلچر ہے۔ ہمارے عقائد خواہ کچھ بھی ہوں، ہمارا رہن سہن، ہمارا لباس، حتیٰ کہ ہمارے کھانے تک عالمی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ آج جو لباس ہم پہنتے ہیں وہی لباس امریکہ، کینیڈا، انگلستان، آسٹریلیا، برازیل، جاپان اور چین میں بھی پہنا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں میں جو چیزیں استعمال ہوتی ہیں، وہی ان تمام ملکوں میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ہمارے مختلف علاقوں کی قدیم دست کاریاں اب صرف نمائش کے لئے ہی رہ گئی ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ پیداواری آلات ہماری فکر پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب ہم عالمی سطح پر سوچتے ہیں اور اسی انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے خلاف جو رد عمل پیدا ہوا ہے اس میں بھی عالمی فکر ہی کار فرما ہے۔ جب ہم اس عالمی فکر کے خلاف اپنی شناخت پر بہت زیادہ اصرار کرتے ہیں تو اس سے تنگ نظری اور تشدد پیدا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث مباحثے ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری قدیم تہذیب نہایت ہی طاقت ور تہذیب تھی بلکہ اب تو یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ جس دراوڑ تہذیب کو ہم بہت ہی پس ماندہ تہذیب سمجھتے تھے وہ بھی خاصی ترقی یافتہ تہذیب تھی۔ اس زمانے کے لوگ میسوپوٹیمیا (آج کا عراق) تک تجارت کرتے تھے۔ لیکن یہ ساری باتیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج ہم گلوبلائزڈ تہذیب کا حصہ ہیں اور یہ تہذیب جہاں ہمیں دوسری دنیا تک رسائی دے رہی ہے، وہیں ہماری قدیم علاقا ئی ثقافتیں بھی اپنی شکل بدل رہی ہیں۔ 
عالمی اردو کانفرنس کی آخری شام چند قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ ان میں جہاں اظہار و ابلاغ کی آ زادی کا مطالبہ کیا گیا‘ وہاں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ادیبوں کی آمد و رفت کے لیے ویزا کی سہولتوں کی مانگ بھی کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ ادیبوں اور فن کاروں کو پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان کتابوں کا لین دین ہے۔ آپ کوئی کتاب ہندوستان نہیں بھیج سکتے‘ اور نہ ہندوستان سے کوئی کتاب منگواسکتے ہیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ یہ پابندی ختم کی جائے۔ ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہماری دنیا خوف، دہشت اور ظلم کے شکنجے میں ہے‘ ہم اہل ادب و فن اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اپنی حکومتوں سے انسانی حقوق کے تحفظ اور امن کے قیام کا پر زور مطالبہ کرتے ہیں۔ اب چونکہ یہ اردو کانفرنس تھی اس لئے ایک قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کر دیا گیا کہ ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اردو زبان کی صحت کو یقینی بنایا جائے۔ ظاہر ہے اس مطالبے کا تعلق براہ راست پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ہی ہے اس لئے یہ مطالبہ گویا اپنے آپ سے ہی کیا گیا ہے۔ یہ قراردادیں آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے پیش کیں‘ اور کئی ہزار حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں