"MAC" (space) message & send to 7575

اب کس کی باری ہے؟

سنسان سڑک پر ایک لڑکا کھڑا ہے اور چیخ رہا ہے ''میری باری کب آئے گی؟‘‘ یہ ایک ہندوستانی ٹیلی وژن چینل کا اشتہار تھا۔ اب یہ یاد نہیں کہ یہ کس چیز کا اشتہار تھا۔ ہندوستان کے ٹیلی وژن چینلز کے ساتھ ہی یہ اشتہار بھی غائب ہو گیا لیکن ان دنوں یہ اشتہار ہمیں بہت یاد آ رہا ہے۔ ہر ایک کی باری آتی چلی جا رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا۔ اور چو تھا سوچ رہا ہے ''میری باری کب آئے گی‘‘ کیونکہ اسے یقین ہے کہ آج یا کل اس کی باری بھی آ جائے گی۔ یہ اور بات کہ عدالتیں ان کی ضمانتیں بھی منظور کر رہی ہیں۔ لیکن باری سب کی آ رہی ہے۔ بہرحال اب دیکھیے کس کی باری آتی ہے۔ اب عام لو گ کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار نے ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے تو پاکستان میں اپوزیشن کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور اس چپقلش میں ہمارا سکون برباد ہو گیا ہے۔ شاعر نے تو کہا تھا:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اگر ایسا ہی ہے تو پھر تغیر ہی ہو جائے۔ کچھ تو ہو جائے... لیکن یہاں تو تغیر بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ 
لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا غصہ اور طیش ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا ہے۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ ہمارے سوا اس ملک پر حکومت کرنے کا کسی اور کو اختیار نہیں ہے۔ اسی لئے نئے نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ اب ایک وزیر صاحب نے نیا عمرانی معاہدہ کرنے کی جو بات کی ہے، وہ ایک نیا شوشہ ہی تو ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارا آئین ایک عمرانی معاہدہ ہی تو ہے، جو تمام صوبوں اور تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظورکیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو وہ اختیارات دے دئیے ہیں جن کے لئے سیاسی جماعتیں کب سے مطالبہ کر رہی تھیں۔ اب اگر نئے عمرانی معاہدے کی بات کی جا رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ موجودہ آئینی ڈھانچہ ہمیں پسند نہیں ہے۔ اب عام آدمی پوچھ رہا ہے کہ کیا ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں؟ یہ بات کھل کر نہیں کی جا رہی ہے لیکن جس انداز سے نئے نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کی آخری امید صدارتی نظام ہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے ہاتھ میں سارے اختیارات آ جائیں۔ اور یہ شخص کون ہے؟ وہ آپ جانتے ہی ہیں حالانکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں جب بھی صدارتی نظام آیا، وہ کوئی آمر مطلق ہی لے کر آیا اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو یاد کیا۔ یہ علیحدگی آمرانہ صدارتی نظام کا نتیجہ ہی تو تھی۔ ہم نے کارگل کی بے نتیجہ جنگ میں اپنے کتنے ہی جوان شہید کرائے۔ یہ بھی آمرانہ ذہنیت کا ہی خمیازہ تھا۔ نواز شریف نے کارگل پر کمیشن بنانے کا اعلان کیا تو دیکھ لیجئے، ان کا کیا حشر کر دیا گیا ہے۔
اب سوچنے سمجھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ کہیں یہ شوشے اس لئے تو نہیں چھوڑے جا رہے کہ ان سے حکومت نہیں چل رہی ہے؟ معیشت کا حال اتنا برا ہو گیا ہے کہ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ روز نئے نئے منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک منصوبہ بھی اپنی تکمیل کو پہنچتا نظر نہیں آتا۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہیں وہ ہزاروں مکان، جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور کہاں ہیں وہ لاکھوں نوکریاں جن کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ یہاں تو بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ اپوزیشن یا میڈیا ہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ حکومت کے اپنے اعدادوشمار ہی بتاتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو نئے نئے مشیر مقرر کر دئیے جاتے ہیں۔ لوگ خارجہ امور پر بھی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک کو خوش کرنے کے لئے کئی دوسرے دوستوں کو ناراض کر لیا ہے۔ مشیروں اور معاونین کی تعداد ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تک نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ڈاکٹر معید یوسف کو وزیر مملکت کا درجہ اس لئے دیا گیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر بنانے میں مدد دیں گے۔ مگر یہی لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہونا چاہئے؟ ہمیں دوسرے ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کا بڑا شوق ہے۔ ہم کبھی اس ملک جا رہے ہیں اور کبھی اس ملک۔ لیکن ابھی تک تو اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
عام آدمی بھی اتنا پریشان ہے کہ اب سوال کرنے لگا ہے: کیا اب بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا ہے کہ مخالفت اور مخاصمت کی پالیسی ترک کرکے ہمیں اپنے ملک کے اندر مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے؟ آپ اپنے مخالفوں کو جتنا دیوار کے ساتھ لگاتے چلے جائیں گے اتنا ہی آپ خود کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ اپنے دشمن کو کمزور سمجھنے سے بڑی غلطی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ کتنے لوگوں کو جیل میں ڈالیں گے؟ کتنے مخالفوں کے خلاف نئے سے نئے مقدمے بنائیں گے؟ لوگ سچ کہتے ہیں کہ اس سے ان کی طاقت کم نہیں ہو گی بلکہ ان کی ہمت و طاقت اور بھی بڑھے گی۔ ابھی تو آپ کے سامنے اور بھی کڑے امتحان ہیں۔ الیکشن کمشنر پر اگر سمجھوتہ ہو بھی جاتا ہے تو آگے اور بھی مرحلے باقی ہیں۔ مگر اصل سوال یہی ہے کہ کیا عمران خان اپنی ''تریاہٹ‘‘ چھوڑ دیں گے ؟ معاف کیجئے ''تریاہٹ‘‘ عورت کی ضد کے بارے میں کہا جاتا ہے لیکن چونکہ اس وقت ہمیں کوئی اور لفظ نہیں سوجھ رہا ہے اس لئے ہم اس لفظ سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ کیا عمران خان صاحب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے؟ کیا وہاں مخالف جماعتوں کے ارکان سے ہاتھ ملانے میں اپنی توہین نہیں سمجھیں گے؟ یہ وہ سوال ہیں جو عام سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ کر رہے ہیں۔
اب یہاں ہمیں ایک اور بات یاد آ گئی۔ بزرگ کہتے تھے کہ قسمیں کبھی نہ کھائو اور خدا کی قسم کھانا تو ہمارے ہاں بہت ہی بڑا جرم سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ ہمارے بزرگ تو یہ بھی سمجھایا کرتے تھے کہ قسمیں کھانے والے کا کبھی اعتبار نہ کرو۔ وہ اپنا جھوٹ چھپانے کے لئے قسمیں کھا رہا ہوتا ہے۔ یہ تو ہمارے بزرگ ہمیں سمجھایا کرتے تھے۔ لیکن جب سے ہمارے نئے پاکستان کی نئی حکومت آئی ہے، جسے دیکھو وہ قسمیں کھا رہا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا وزیر قسم کھائے بغیر بات ہی نہیں کرتا۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ وہ جانتا ہے‘ اس کی بات میں وزن نہیں ہے۔ یہ خدا کو جان دینے والی بات کس نے کی تھی اور کتنے زور شور سے کی تھی؟ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ جس شخص کے بارے میں قسمیں کھائی جاتی تھیں اور اس کے جرم کے ثبوت پیش کرنے کا اعلان کیا جاتا تھا‘ اسے تو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ اب وہ خدا کو جان دینے والی بات کہاں گئی؟ کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا کی جائے گی کہ اس کے بعد آپ کی کیا عزت رہ گئی ہے۔ کیا عمران خان اپنے ایسے وزیروں سے جواب طلب کریں گے؟ لوگ سوال کرتے ہیں۔ یہ عام آدمی کی پریشانی ہے۔ مگر جاننے والے کہتے ہیں کہ ہمیں تو ایسا نظر نہیں آتا‘ بلکہ اس حکومت سے قربت رکھنے والے افراد تو کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب خود ہی ایسے وزیروں اور مشیروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ خود ہی کشیدگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ سچ ہے یا غلط؟ یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گا۔ مگر ہمیں سکون چاہئے۔ قلب مطمئنہ چاہئے۔ بہت کشیدگی دیکھ لی ہم نے۔ ادھر نریندر مودی نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے اور ادھر ہماری اپنی حکومت نے۔ اب عام لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہمیں اسی کشیدگی اور اسی تنائو میں زندگی گزارنا ہے یا کہیں کوئی اطمینان اور سکون کی شکل بھی نظر آئے گی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں