ایک مہینے کے لگ بھگ وہ کڑاکے کی سردی پڑی ہے کہ بقول کسے ہم سب کی قلفی جم گئی۔ اور تو اور پیڑوں پر سے پرندے تک غائب ہو گئے تھے۔ خدا جانے وہ کہاں جا چھپے تھے؟ وہ گھریلو چڑیاں جو صبح پو پھٹتے ہی اپنے چہچہوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں‘ ایسی خاموش ہو گئی تھیں کہ ہم پریشان ہو گئے کہ کہیں ہمیشہ کے لئے ہی ہماری یہ چڑیاں ہم سے چھین نہ لی گئی ہوں۔ کہتے ہیں ناں کہ فصلوں پر چھڑکی جا نے والی زہریلی دوائوں نے ہمارے کئی پرندوں کی نسلیں ہی ختم کر دی ہیں۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہماری چڑیاں بھی اسی کی نذر ہو گئیں۔ لیکن چند روز قبل صبح اٹھا تو دیکھا کہ مطلع صاف، زمین و آسمان پر چھایا ہوا کہرا غائب ہے اور خوب دھوپ چمک رہی ہے‘ اور ہماری چڑیاں بھی پیڑوں اور پودوں پر خوب پھدکتی پھر رہی ہیں۔ ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر اور ایک شاخ سے دوسری شاخ پر۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔ ہم ہڈیوں میںگودا جمانے والی سردی کو یاد کرنے چلے تھے، اور یہاں سورج ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔ اب تو خیر پچھلے دو دن سے خوب بارش ہو رہی ہے اور سردی پھر بڑھ گئی ہے۔ اس پر ہمیں وہ دل جلا شاعر یاد آ گیا جس نے کہا تھا
مانگا کریں گے اب تو دعا ہجرِ یار کی
آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ
گو یا موسم کو بھی ہمارے ساتھ دشمنی ہے۔ مگر ایک مہینے کے قریب جو سورج گہرے، بلکہ گوڑھے کہرے کی چادر میں لپٹا رہا، اور جاڑا ہمارے دانت کٹکٹاتا رہا، اس نے ہم سب کو یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ کیا اس سے پہلے بھی کبھی لاہور میں اتنی سردی پڑی ہے؟ اور اگر ایسی سردی پڑی ہے، تو کب؟ اب کوئی کہہ رہا ہے‘ بیس پچیس سال پہلے ایسی سردی پڑی تھی اور کوئی کہہ رہا ہے‘ پچاس سال پہلے ایسی سردی پڑی تھی۔ اتفاق سے یہ وہ سال ہیں جب ہم لاہور میں ہی تھے اور ہمیں وہ سردیاں یاد ہیں لیکن چونکہ وہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا اس لئے وہ سردیاں ہمیں یاد تو ہیں، مگر ایسی نہیں تھیں جیسے آج کل ہمارے کڑاکے نکال رہی ہیں۔ اس زمانے میں وہ طرح طرح کی موٹی موٹی جیکٹیں تو نہیں ہوتی تھیں جیسی اب نظر آتی ہیں، بلکہ ان دنوں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ چمڑے کی جیکٹیں بھی ہم پہنے پھریں گے؛ البتہ اس سردی سے بچنے کیلئے ہم سر پر وہ اونی کن ٹوپ اوڑھتے تھے جو سر سے گردن تک ڈھانپ لیا کرتا تھا اور سامنے سے بندر کی طرح منہ نکل آتا تھا۔ قمیص پر گرم سویٹر یا روئی کی صدری اور اوپر سے گرم اوور کوٹ۔ اب ہم یہ بھی بتا دیں کہ ان دنوں ایک تو ہوتا تھا اوور کوٹ، اور دوسرا ہوتا تھا چیسٹر۔ ان دونوں میں کیا فرق ہوتا تھا؟ یہ یاد نہیں۔ ہاتھ اونی دستانوں میں اور پائوں اونی جرابوں میں بند ہوتے تھے۔ یہ سارے لوازمات پورے کرنے کے بعد ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ یہ ہم اپنی نوجوانی کی بات کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں بزرگ کس طرح ان کڑاکے کے جاڑوں سے اپنے آپ کو بچاتے تھے؟ ہمارا خیال ہے وہ موٹا کمبل اوڑھے رہتے تھے۔ اور شاید حقہ گڑگڑا کر بھی جاڑا بھگاتے تھے۔ اور یہ جو آج کل صبح شام نہاری کھائی جاتی ہے، اس زمانے میں یہ صرف صبح تڑکے کھائی جاتی تھی۔ نہاری کا مطلب ہی ہے صبح تڑکے کھایا جانے والا کھانا۔ نہار کا مطلب ہے صبح سویرے۔ اب تو ہر چیز کو کاروباری کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ نہاری کی دکانیں جگہ جگہ کھل گئی ہیں اور کسی کھانے کا کوئی وقت ہی مقرر نہیں رہا ہے۔ ان دنوں ہر چیز کی طرح کھانوں کے بھی کچھ آداب ہوتے تھے۔ دوپہر یا شام کو نہاری کھانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ جاڑے آتے ہی نہاری کی دعوتیں بھی شروع ہو جاتی تھیں۔ لیکن شرط یہ تھی کہ جہاں آپ کی دعوت ہے وہاں آپ فجر کی نماز کے فوراً بعد پہنچ جائیں‘ ورنہ آپ نہاری سے محروم رہ جائیں گے۔ ان دنوں بھی نہاری کی چند دکانیں بہت مشہور تھیں۔ ایک دکان لاہوری دروازے کے اندر تھی۔ اس دکان کی نہاری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہاری کھانے والے رات کو ہی اپنے برتن دکان پر رکھ جاتے تھے کہ صبح کو گاہکوں کا اتنا ہجوم ہو جائے گا کہ ان کی باری ہی نہیں آئے گی۔ صبح فجر کی نماز کے ساتھ ہی اس دکان پر گاہکوں کی وہ بھیڑ بھاڑ ہو جاتی تھی کہ باقاعدہ قطار لگانا پڑتی تھی۔ اب صحیح یا غلط، کہا یہ جاتا تھا کہ جن دیگوں میں وہ نہاری پکائی جاتی تھی، ان کی نہاری کا تار دکاندار کے دادا پردادا سے ایک ہی چلا آ رہا تھا۔ آج تو شاید ایسی نہاری کو کوئی ہاتھ بھی نہ لگائے کہ ایسی مضر صحت نہاری کون کھائے مگر ان دنوں وہی نہاری شوق سے کھائی جاتی تھی۔ نہاری کے علاوہ بھی سردیوں کے کھانے ہوتے تھے۔ اب ان سب کے نام کیا گنوانا۔ ہمیں تو یہ یاد ہے کہ ہر سالن یا ہر حلوے کی تھال میں انڈے ضرور نظر آ تے تھے اور ابلے ہوئے انڈے تو ابھی چند سال پہلے تک لڑکے آوازیں لگا لگا کر گلی گلی بیچتے دکھائی دیتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان میں کچھوے کے انڈے بھی ہوتے تھے۔ ان دنوں چونکہ راوی میں پانی ہوتا تھا۔ اس لئے اس دریا میں کچھوے بھی ہوتے تھے۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے، ہو سکتا ہے وہ انڈے کچھوے کے ہی ہوتے ہوں۔
یادش بخیر، روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز کا دفتر میو ہسپتال کے سامنے تھا اور ہم چوبرچی کے قریب اسلامیہ پارک میں رہتے تھے۔ رات کو بارہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم دفتر سے نکلتے اور اپنی وہ فلپس سائیکل نکالتے جو ہم نے بڑے چائو سے خریدی تھی اور گھر روانہ ہو جاتے۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہوتی تھی۔ سر پر وہ اونی ٹوپ جو گردن تک ڈھانپ لیتا۔ اس ٹوپ میں سے تھوڑا سا منہ باہر نکلا رہتا۔ پورے جسم کو گرم اوور کوٹ میں جکڑا ہوتا۔ ہاتھ گرم دستانوں میں بند اور پائوں میں ایسی گرم جرابیں جو پنڈلیوں تک چڑھی ہوتیں۔ آدھی رات، سڑکیں سنسان، موٹر کاریں، موٹر سائیکلیں اور رکشا تو کجا کہ یہ چیزیں ابھی اس شہر میں آئی ہی نہیں تھیں، اس وقت تو وہ تانگے بھی دور دور نظر نہ آتے جو لاہور کی پہچان تھے۔ ہمارے سائیکل چلانے کا انداز یہ تھا کہ کچھ دور زور زور سے پیڈل مارتے۔ جب سائیکل کی رفتار تیز ہو جاتی تو ہاتھ ہینڈل پر سے اٹھا کر اوور کوٹ کی جیبوں میں ڈال لیتے۔ اب سائیکل اپنی رفتار سے خود ہی چلتی رہتی۔ جب رفتار کم ہونے لگتی تو ہاتھ جیبوں سے نکال کر ہینڈل پر رکھتے اور پھر زور زور سے پیڈل مارنے لگتے۔ یہ سلسلہ گھر تک اسی طرح چلتا رہتا۔ مگر راستے میں کتے بھی تو ہمارا استقبال کرتے تھے۔ یہ کتے ہماری سائیکل کی آواز سنتے ہی بھونکتے ہوئے ہماری طرف لپکتے اور ہماری ٹانگوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے۔ ہم اپنے پائوں اوپر اٹھا لیتے۔ سائیکل اپنی رفتار سے ہی چلتی رہتی۔ اس راستے پر چل چل کر ہم جان گئے تھے کہ ان کتوں کے اپنے اپنے علاقے مخصوص ہیں۔ یہ اپنی مخصوص حد تک ہی ہمارا پیچھا کریں گے اور پھر ہار کر جھک مار کر واپس چلے جائیں گے۔ ادھر وہ کتے واپس ہوتے، ادھر ہماری سائیکل کی رفتار کم ہو جاتی اور ہمارے پائوں پیڈل پر آ جاتے۔ اور پھر وہی کہ کبھی ہاتھ جیبوں میں اور کبھی ہینڈل پر۔ ان دنوں کی جو نہایت ہی دلکش اور دل نشین یاد ہمارے ذہن میں محفوظ رہ گئی ہے، وہ یونیورسٹی گرائونڈ میں سانس لیتا بھورا بھورا کہرا تھا۔ ان دنوں یونیورسٹی گرائونڈ بالکل صاف ستھرا تھا۔ اس میں کسی اور چیز یا کسی اور عمارت نے دخل نہیں دیا تھا۔ ہم اس گرائونڈ کے قریب پہنچتے تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے۔ ہمارے سامنے وسیع و عریض گرائونڈ ہے اور وہ گرائونڈ ملگجے بھورے بھورے کہرے سے بھرا ہوا ہے اور اس کہرے میں ایسے لہریں اٹھ رہی ہیں جیسے وہ کہرا سانس لے رہا ہو۔ یہاں ہم اپنی سائیکل کی رفتار کم کر دیتے اور اس کہرے کے ساتھ خود بھی سانس لینے لگتے۔ اور پھر یہ ہلکے ہلکے سانس لیتا کہرا ہمارے گھر تک ساتھ جاتا۔ اب وہ سردیاں کتنی شدید ہوتی تھیں؟ یہ تو ہمیں یاد نہیں۔ مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ ہم ان سردیوں سے پریشان ہونے کے بجائے، ان سے مزے لیتے تھے۔