اردو میں ایک لفظ ہے ''ہتھ چُھٹ‘‘۔ یہ کسی ایسے آدمی کو کہتے ہیں جو بات بے بات لڑتا جھگڑتا اور تھپڑ مارتا رہتا ہو۔ اپنے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری پچھلے دنوں یہی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن ہم ان کی اس لئے قدر کرتے ہیں کہ عمران خان کے وزیروں کے ٹبر میں وہ واحد وزیر ہیں جو دانش مندانہ، عاقلانہ اور سائنٹفک بات کرتے ہیں۔ بھول جائیے اس بات کو کہ جب وہی فواد چودھری سیاست پر بات کرتے ہیں تو ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں‘ اور جو بھی منہ میں آتا ہے وہ کہہ جاتے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے کہ عمران خاں اپنے وزیروں سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ زندگی کے معاملات میں فواد چودھری حقیقت پسندانہ اور سائنسی ذہن رکھتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ چاند دیکھنے کے معاملے پر انہوں نے جو موقف اختیار کیا‘ وہ خالصتاً جدید سائنسی دورکے مطابق ہے۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ آج کے زمانے میں‘ جب ہم ایک مہینے یا ایک سال کے ہی نہیں بلکہ سالہا سال کے چاند کی پیدائش کا تعین کر سکتے ہیں، تو وہ کیا غلط کہتے ہیں۔ انہوں نے تو سائنسی بنیادوں پر کئی سال کا نقشہ بھی بنوا دیا ہے کہ دیکھ لو فلاں تاریخ کو فلاں مہینے کا چاند غائب ہو گا اور فلاں تاریخ کو طلوع ہو جائے گا۔ مگر ہماری وہ محترم ہستیاں، جو سالہا سال سے چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھنے کا فریضہ ادا کرتی آئی ہیں، فواد چودھری کی بات نہیں مانتیں۔ اب اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ فواد چودھری کی طرح ہم بھی جانتے ہیں۔ لیکن اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھنا ضروری ہے‘ لیکن کیا آپ واقعی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھتے ہیں؟ یہ بیچ میں سائنسی آلات کہاں سے آ جاتے ہیں؟ دوربین اور خوردبین میں سائنس دانوں نے جو نئی سے نئی ایجادیں کی ہیں، آپ چاند دیکھنے میں انہی کا سہارا تو لیتے ہیں۔ اگر اپنی آنکھ سے ہی چاند دیکھنا ہے تو آپ اتنی قیمتی اور اتنی بھاری بھرکم دوربینوں کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟ وہی طریقہ اختیار کیوں نہیں کرتے، جو ہمارے بچپن میں کیا جاتا تھا۔ ان دنوں تو مسجدوں کی چھت پر چڑھ کر اپنی آنکھ سے چاند دیکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اب آپ کے پاس جدید ترین آلات ہیں۔ اس لئے آپ انہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ سائنسی آلات کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور اسی سائنس سے انکار بھی کرتے ہیں جو آپ کو اجرام فلکی تک رسائی دلاتی ہے۔ فواد چودھری کی شکایت بجا ہے کہ آپ نے مذہب کو اتنا جامد کیوں بنا دیا ہے؟ یہ مذہب تو آپ کو علم حاصل کرنے کے لئے چین تک جانے کی تلقین کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ چین جانے کا مطلب جسمانی یا عملی طور پر چین جانا ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہاں چین تو ایک استعارہ ہے، علم حاصل کرنے کے لئے دور تک جانے کا۔
اب، ان دنوں چاند دیکھنے کا مسئلہ تو سامنے نہیں ہے۔ مسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے۔ فواد چودھری کہتے ہیں: آج کے پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اس کونسل پر کروڑوں روپے کیوں خرچ کر رہے ہیں؟ یہ کونسل بڑی بڑی سفارشات کرتی ہے لیکن آئینی طور پر حکومت کے لئے ان سفارشات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ گویا یہ صرف مشورہ ہی ہوتا ہے۔ حکومت چاہے تو اس پر عمل کرے، نہ چاہے تو اسے نظر انداز کر دے۔ اور یہاں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس نظریاتی کونسل کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ اب یہ اسلامی نظریاتی کونسل کیا ہے۔ اس کا قیام کب عمل میں آیا؟ اور یہ کیوں بنائی گئی؟ اس کے بارے میں ہمارے دوست لیاقت علی ایڈووکیٹ لکھتے ہیں ''قیام پا کستان کے بعد ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا۔ اس کے پہلے سربراہ تھے ایک آسٹرین دانشور محمد اسد۔ یہ محمد اسد پیدائشی طور پر یہودی تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اپنے قیام کے دس سال بعد تک اس ادارے کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ 1956کے آئین میں اسلامی کمیشن کے نام سے ایک مشاورتی ادار ے کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا مقصد موجودہ قوانین کی اسلامی حیثیت کا تعین کرنا تھا۔ چودھری محمد علی وزیر اعظم تھے۔ وہ مذہبی آدمی تھے۔ وزارت سے علیحدہ ہونے کے بعد انہوں نے نظام اسلام پارٹی بنائی، جس کا مقصد پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا تھا۔ ایوب خان آئے تو انہوں نے 1962کے آئین میں اس ادارے کو اسلامی مشاورتی کونسل کا نام دیا؛ البتہ بھٹو صاحب کے زمانے میں جب 1973کا آئین نافذ کیا گیا تو اس میں اسے اسلامی نظریاتی کونسل بنا دیا گیا۔ اس کونسل کا پہلا دفتر لاہور میں تھا۔ 1977 میں یہ دفتر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ آئین میں کونسل کا رکن بننے کے لیے شخص یا person کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رکن بننے کے لئے مسلمان یا پاکستان کا شہری ہونا ضروری نہیں ہے۔ عورت اور مرد کی تخصیص بھی نہیں ہے۔ ہر وہ شخص اس کا رکن بن سکتا ہے (یا رکن بن سکتی ہے) جسے اسلامی تعلیمات پر دسترس حاصل ہو اور جو قانون اور سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی تقاضوں کے مطابق مشاورت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
1973 کے آئین کے تحت کونسل کو اپنے قیام کے سات سال بعد حتمی رپورٹ پیش کرنا تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس رپورٹ کے بعد یہ کونسل خود بخود تحلیل ہو جاتی لیکن کونسل سات سال کے عرصے میں اپنی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش نہ کر سکی؛ البتہ 23سال بعد دسمبر 1996 میں قومی اسمبلی میں یہ رپورٹ پیش کی گئی۔ اس کے بعد آئینی اور قانونی طور پر اس کونسل کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا‘ لیکن ہماری سیاسی جماعتیں مصلحت کا شکار ہو گئیں اور یہ کونسل برقرار رہی حالانکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے یہ کونسل تحلیل کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یوں بھی ہمارے ملک میں وفاقی شرعی عدالت بھی موجود ہے۔ یہ عدالت کسی بھی ایسے قانون کا جائزہ لے سکتی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں دو دو ایسے ادارے موجود ہیں جو ایک ہی کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری عام عدالتیں بھی اسلامی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کرتی ہیں۔ اس لئے اگر فواد چودھری اسلامی نظریاتی کونسل تحلیل کرنے کا کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت اپنے ایک دانش مند وزیر کی بات مان لے گی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ فواد چودھری ہمیشہ غصے میں نظر آتے ہیں اور اپنی ساری توانائی سیاسی مخالفوں کے ساتھ مجادلے میں صرف کر دیتے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ انہوں نے رویت ہلال کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں جو حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے، انہیں عمران خان کو بھی اس کا قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں‘ ایک چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا‘ لیکن کبھی یہی چنا واقعی بھاڑ پھوڑ بھی سکتا ہے۔
ادھر ملتان سے ایک نہایت ہی افسوسناک خبر آئی ہے۔ ایسی خبر جو عمران خان کی حکومت کی پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ خبر یہ ہے کہ ملتان بار ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی غیر مسلم ملتان بار کا رکن نہیں بن سکتا۔ بھلا سوچئے، یہ فیصلہ اس زمانے میں کیا جا رہا ہے جب ہم ہندوستان میں مودی سرکار کی مسلم دشمن پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور عمران خان سکھوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو گلے لگا رہے ہیں۔ ہم انیس سال ملتان میں رہے ہیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس شہر کے وکیل (جو پیارے وطن کے پڑھے لکھے اور باشعور شہری ہیں) ایسا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو سید قسور گردیزی اور عطااللہ ملک کا ملتان یاد ہے۔ اس ملتان کو کیا ہوا کہ ہمارے دوست اور ویت نام کے سابق سفیر اشفاق احمد خان کے صاحبزادے راشد رحمن کو ایک غریب کی وکالت کرنے کے جرم میں گولی مار دی جاتی ہے اور اب ملتان بار ایسوسی ایشن فیصلہ کرتی ہے کہ کسی غیر مسلم کو بار کا رکن نہیں بنایا جائے گا؟