سوال کیا جا رہا تھا کہ ہمارے ہاں کیسی جمہوریت ہے؟ کیا یہ خالص جمہوریت ہے؟ مکمل جمہوریت ہے؟ یا نیم جمہوریت ہے؟ ہم سے کسی نے سوال نہیں کیا‘ ورنہ ہم عرض کرتے کہ اصل میں یہ پیوندی جمہوریت ہے۔ ایسی ہی پیوندی، جیسے ہمارے کھیتوں میں پیوندی بیج بوئے جاتے ہیں یا آج کل پیوندی موٹر کاریں آ گئی ہیں کہ آٹو میٹک بھی چلا لو اور مینوول بھی۔ ہماری جمہوریت میں جمہوری پیوند بھی ہیں، اور غیر جمہوری پیوند بھی۔ کچھ اندر کے پیوند ہیں اور کچھ باہر کے پیوند۔ صرف فرق یہ ہے کہ پیوندی بیچ سے پیداوار زیادہ ہو تی ہے۔ لیکن پیوندی جمہوریت، جمہوری پیداوار بڑھاتی نہیں بلکہ الٹا اسے گھٹاتی ہے۔ اور ہمارے ہاں یہ آج سے نہیں ہو رہا ہے۔ ہم تو شروع سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں؛ البتہ ان دنوں یہ پیوند کچھ زیادہ ہی مضبوط ہو گئے ہیں۔ ان میں کچھ انجیکشن بھی لگ گئے ہیں۔ اسی لئے یوں نظر آ رہا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم منیر نیازی کے الفاظ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ''حرکت تیز تر ہے، اور سفر آ ہستہ آہستہ‘‘۔ کچھ حرکت ہو تو ہم آگے بڑھیں۔ یہاں تو حرکت بھی نہیں ہے۔ بس شور ہے۔ اور یہ شور و غوغا بھی اتنا ہے کہ خا موشی سے سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
ہاں، کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں مہینے کے مہینے چند سوچنے سمجھنے والے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ٹھنڈے دل سے دوسروں کے خیالات سننے اور اپنے خیال پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہے نیر علی دادا کی ماہانہ بیٹھک۔ اس بار خالد غیاث مایوس نہیں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ صرف الحمرا آرٹس کونسل میں ہونے والی تقریبوں میں ہی جا کر دیکھ لیجے۔ ہمارے نوجوان کتنے پھرتیلے اور کتنے جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ ان کے پاس نئی فکر ہے، نئے خیالات ہیں، بس انہیں منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن نعیم طاہر پریشان تھے کہ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن اور ہمارے عجائب گھر میں کچھ عرصے پہلے تک ہمارا جو فکری اور ثقافتی اثاثہ محفوظ تھا وہ سب تتر بتر ہو گیا ہے۔ ریڈیو پاکستان میں قدیم اور جدید مسودے اور نئے پرانے ریکارڈ محفوظ کرنے کا جو شعبہ تھا‘ اسے بارش اور دیمک کھا گئی ہے۔ اب وہاں آپ کو کوئی چیز بھی محفوظ نظر نہیں آئے گی۔ ذرا یاد کیجئے، اس ریڈیو کے ساتھ کون کون ہستیاں منسلک نہیں تھیں۔ سید امتیاز علی تاج، رفیع پیر، پطرس بخاری اور ذوالفقار علی بخاری۔ اور جب تک کسی ڈرامے، کسی فیچر یا کسی مذاکرے کا تحریری مسودہ پیش نہیں کیا جاتا تھا اس وقت تک اس کا معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام مسودے اس شعبے میں محفوظ ہونے چاہئیں۔ لیکن اب وہاں مشکل سے ہی کوئی قدیم مسودہ ملتا ہے۔ نعیم طاہر تو پاکستان ٹیلی وژن کے بارے میں بھی یہی کہہ رہے تھے لیکن ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ پی ٹی وی تو کل کی بات ہے۔ اس کا ریکارڈ تو محفوظ ہونا چاہیے۔ لیکن نعیم طاہر کہتے ہیں کہ وہاں بھی ریڈیو والا ہی حال ہے۔ انہیں الحمرا آرٹس کونسل کے بارے میں بھی شبہ تھا کہ وہاں بھی قدیم چیزیں محفوط نہیں ہوں گی بلکہ انہوں نے تاریخی عجائب گھر کے بارے میں جو بتایا اسے سن کر تو واقعی بیہوش ہو جانے کو جی چاہا۔ انہوں نے بتایا کہ سید امتیاز علی تاج کی لائبریری کی کئی ہزار کتابیں عجائب گھر کے حوالے کی گئی تھیں کہ ان کا ایک الگ گوشہ بنا کر کتابوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے پیش کر دیا جائے گا‘ مگر پچھلے دنوں وہ وہاں گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ تمام کتابیں ڈبوں میں بند کر کے رکھ دی گئی ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے بارے میں تو ہماری بھی کچھ یادیں ہیں۔ یہ یادیں لاہور ریڈیو کے حوالے سے بھی ہیں، اور ملتان ریڈیو کے حوالے سے بھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور ریڈیو سٹیشن شملہ پہاڑی کے قریب ایک کوٹھی میں ہوتا تھا۔ حفیظ ہوشیار پوری اس کے ڈائریکٹر تھے۔ آج کے نوجوانوں کو یاد دلا دیں کہ یہ وہی حفیظ ہوشیار پوری ہیں جن کی یہ غزل آج آپ گاتے پھرتے ہیں ''محبت کر نے والے کم نہ ہوں گے‘ تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے‘‘۔ ان کے ساتھ تھے اظہار کاظمی اور چودھری بشیر صاحب جیسے دانشور (باقی اصحاب کے نام ہم بھول گئے ہیں) امتیاز علی تاج، سید عابد علی عابد اور رفیع پیر کے نام اس عمارت کی راہ داریوں میں گونجتے تھے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ استادوں کے استاد، شاعر اور نقاد سید عابد علی عابد موسیقی کا پروگرام کرتے تھے۔ پہلے وہ کوئی فلمی یا غیر فلمی گانا سناتے اور پھر سمجھاتے کہ اس کی دھن کس راگ میں بنائی گئی ہے۔ تاج صاحب فلموں کے بارے میں بات کرتے تھے۔ ایک بار وہ نہیں آ سکے تھے تو ہم نے یہ پروگرام کیا تھا۔ اصل میں تو وہ زمانہ موہنی حمید کا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ موہنی حمید جیسی آواز پھر سننے کو نہیں ملی۔ مسعود اختر نئے نئے ریڈیو ڈرامے میں آئے تھے۔ بلکہ ایک ڈرامے میں مصطفیٰ زیدی نے بھی کام کیا تھا۔ لاہور ریڈیو سے ہمارے یادگار پروگرام وہ ہیں جب ایک سال یوم آزادی پر ہم نے شہر میں ہونے والی تقریبات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تھا۔ اور دوسرا شام کے صدر کا دورہ تھا۔ ہم لاہور کے ہوائی اڈے پر شوکت تھانوی کے ساتھ اس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے تھے۔ انہی دنوں برہان الدین حسن نے لاہور کی خبریں پڑھنا شروع کی تھیں۔
ہم یہ دعویٰ بھی کر سکتے ہیں کہ ملتان کا ریڈیو سٹیشن ہم نے بنوایا۔ ہم نے اپنے اخبار میں اتنا شور مچایا کہ ملتان جیسے قدیم و جدید ثقافت کے امین شہر میں ریڈیو سٹیشن تک نہیں ہے۔ اور پھر وہاں ریڈیو سٹیشن بن گیا‘ اور الیاس عشقی جیسے اردو‘ ہندی اور سندھی زبان کے ادیب اور محقق ملتان کے حصے میں آئے۔ اور چودھری بشیر بھی تو یہاں آ گئے تھے۔ سعید مرزا اور ہندوستان کے مشہور میوزک ڈائریکٹر خیام کے بھائی شکور بیدل بھی اسی سٹیشن پر تھے۔ اس ریڈیو سٹیشن نے کتنے ہی ڈرامہ لکھنے والے، ڈرامہ فن کار اور موسیقار پیدا کئے۔ ہم نے بھی وہاں ڈرامے لکھے۔ لیکن وہاں سب سے زیادہ مقبول ڈرامہ لکھنے والے ظہور نظر تھے۔ اپنے افسانہ اور ناول نگار اکرام اللہ اور فرخ مراد ڈراموں میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔ عفت ذکی اور نشاط پروین ان ڈراموں کی جان تھیں۔ رعنا زیدی اور زہرا بچوں کا پروگرام کرتی تھیں۔ زہرا نے فوجی بھائیوں کا پروگرام بھی کیا۔ ناہید اختر اسی ریڈیو سٹیشن کی پیداوار ہیں۔ وہ اپنی بہن حمیدہ اختر کے ساتھ وہاں آتی تھیں۔ دونوں بہنیں برقع اوڑھتی تھیں۔ پھر ٹیلی وژن آیا تو ریڈیو کی قدروقیمت ختم ہو گئی۔ اب ریڈیو ایف ایم ہو گئے ہیں‘ اور معلوم نہیں کیا پروگرام کرتے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اب ملتان ریڈیو کا کیا حال ہے۔ خدا کرے وہاں ہمارے اور ظہور نظر کے ڈراموں کے مسودے محفوظ ہوں۔ ان کا حشر لاہور والا نہ ہو گیا ہو۔
یہ ساری کتھا ہم نے اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے کہ ہم اپنی فکری اور ثقافتی تاریخ اور اس کا ورثہ محفوظ رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور کا آرکائیو اور عجائب گھر کے ڈبے اس کی معمو لی سی مثالیں ہیں۔ اب ہم کس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھیں۔ ادب اور ثقافت سے ہمارے نئے پاکستان کی نئی حکومت کی جو رغبت ہے اس کا ادنی سا نمونہ وہ علمی اور ادبی ادارے ہیں جن کا آج کل کوئی سربراہ نہیں ہے اور اب اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وجہ محض اتنی سی ہے کہ حکومت کے پاس ادب اور ثقافت کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ جان لیجئے کہ جس معاشرے میں علم و ادب اور ثقافت کو پیسے اور فنڈز کی ترازو میں تولا جائے، اس معاشرے کا کیا حال ہو گا۔ ہم نے عرض کیا نا کہ ہماری جمہوریت پیوندی جمہو ریت ہے۔ یہ بھینسوں، مرغیوں اور انڈوں کی جمہوریت ہے۔ لیکن خالد غیاث اپنے نوجوانوں سے مایوس نہیں ہیں۔ اور ان کے حوصلہ دلانے پر ہم بھی انہی نوجوان لڑکے لڑکیوں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ کبھی تو حالات بدلیں گے اور یہ حالات یہی نوجوان بدلیں گے۔