بارشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں‘ لیکن بہار کے موسم کو تو کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ تو اپنے وقت پر ہی آتا ہے ‘ اور وہ آ گیا ہے۔ پیڑوں کی ٹنڈ منڈ شاخوں پر ہرے ہرے پتے پھوٹنے لگے ہیں‘ اور مختلف پیڑوں پر کلیاں‘ پھول بننے لگے ہیں۔ ان کلیوں نے پوری فضا معطر کر دی ہے۔ پورے ماحول میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ بھینی بھینی نہیں، کھٹی میٹھی خوشبو کہ اس خوشبو میں ہلکی سی ترشی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس موسم میں ہم نے بہار کا جشن منانا شروع کیا مگر بارش نے وہاں بھی رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ ہم تو صرف ایک پارک میں ہی جشن منا رہے تھے۔ اسے جیلانی پارک کہا جاتا ہے۔ اس پارک میں کھیل تماشے بھی ہو رہے تھے اور کھانا پینا بھی، کہ ہماری سب سے بڑی تفریح یہی رہ گئی ہے کہ بچے جھولا جھولیں اور ہم مزے مزے کے چٹ پٹے کھانے کھاتے رہیں۔ ہمیں دوسری کوئی تفریح میسر نہیں ہے۔ ہماری فلموں نے تھوڑے بہت تفریح کے اسباب پیدا کئے تھے مگر دیکھ لیجئے سرمد کھوسٹ کی فلم کے ساتھ کیا ہوا؟ لوگ اسے بھول بھال گئے؟ ہر طرف خاموشی ہے۔ کھانا اور صرف کھانا ہمارا ماٹو ہے۔ اب آپ یہی دیکھ لیجئے کہ شہر کے ہر بازار میں نئے نئے ناموں سے کھانے کے بڑے بڑے ہوٹل کھل گئے ہیں بلکہ ذرا غور کیجئے تو دنیا کا کوئی بھی بڑا یا چھوٹا ریسٹورنٹ ایسا نہیں ہے جو ہمارے ہر شہر میں نہ کھل گیا ہو۔ اور پھر یہ سارے انتہائی مہنگے ریسٹورنٹ شام ہوتے ہی کھانے والوں سے بھر جاتے ہیں۔ ریسٹورنٹ بھرے ہوتے ہیں اور ہمیں یہ طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ کہاں ہے وہ غربت، جس کا آپ رونا روتے رہتے ہیں؟ کہاں ہے وہ مہنگائی جس کا نام لے کر آپ دہائی دیتے رہتے ہیں؟ کیا آپ یقین کریں گے، یہاں ایک بین الاقوامی ریسٹورنٹ میں کافی کا ایک مگ ساڑھے چار سو روپے کا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ جو چاہیں اور خرچ کر دیں۔ یہ آپ کی جیب پر ہے۔ اسی لئے طعنہ دیا جاتا ہے کہ پھر غربت کہاں ہے؟ مہنگائی کہاں ہے؟ امیر اور غریب کا فرق ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یوں تو یہ فرق ساری دنیا میں ہی بڑھ رہا ہے مگر وہاں اسے کم کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں‘ لیکن ہم صرف نعرے لگا رہے ہیں۔ ہم یہ فرق مٹانے کے منصوبے نہیں بناتے بلکہ غریبوں کو تسلی دینے کیلئے پناہ گاہیں بناتے ہیں۔ ان کیلئے مفت کے دسترخوان سجاتے ہیں۔ انہیں لنگر خانہ کہا جاتا ہے حالانکہ ایسے دسترخوان اور لنگر خانے تو کئی سرمایہ داروں اور خیراتی اداروں نے پہلے ہی سجائے ہوئے ہیں۔
یہاں ہمیں یاد آیا کہ دنیا ٹی وی پر حبیب اکرم نے اپنے ایک پروگرام میں ان پناہ گاہوں کا سروے کیا تھا‘ جو حکومت نے بنائی ہیں۔ اس پروگرام میں کافی انکشافات بھی کئے گئے تھے۔ یہ اچھا پروگرام تھا‘ لیکن ہم نے جو عرض کیا تھا، اس پروگرام میں اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ہم تو یہ معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ ان پناہ گاہوں میں جو لوگ پناہ لیتے ہیں، وہ کون ہیں؟ وہ اسی شہر کے رہنے والے ہیں یا دوسرے شہروں سے یہاں آتے ہیں۔ کیا ان کے پاس کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے؟ اب جہاں تک لنگر خانے کا تعلق ہے، تو ہم نے عرض کیا ناں کہ صرف لاہور میں ہی کئی ایسے ادارے اور متعدد مخیر اصحاب ہیں جو صبح شام غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘ اور یہ کام وہ برسوں سے کر رہے ہیں۔ اب یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اس طرح آپ غریبوں کو روزگار کی فراہمی کی سبیل کرنے کے بجائے، انہیں مفت خوری کی عادت ڈال رہے ہیں۔ حبیب اکرم نے تو ایسا نہیں کیا، لیکن کیا کوئی ادارہ ان بھکاری عورتوں اور مردوں کا سروے بھی کر سکتا ہے جو صبح سے شام تک شہر کے ہر چوراہے پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ بھیک مانگنے میں جس فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ فرض شناسی ملازمت کرنے والوں میں بھی نظر نہیں آتی۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ سردی ہو یا گرمی، چلچلاتی دھوپ ہو یا موسلا دھار بارش، یہ بھکاری اپنے فرض سے کبھی غفلت نہیں برتتے۔ یہ بھکاری ہر جگہ اپنے وقت پر موجود ہوتے ہیں۔ اب ہم پھر ایک ایسی بات کرنے لگے ہیں‘ جسے زبان پر لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ان بھکاریوں کی حوصلہ افزائی بھی تو ہم ہی کرتے ہیں۔ اپنے اوپر سے نحوست ٹالنے کے لئے ہم انہیں روپے پیسے دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہمارا صدقہ ہے۔ اب ان خیرات دینے والوں کو کون سمجھائے کہ اپنی خون پسینے کی یہ کمائی ایسے اداروں کو کیوں نہیں دیتے جو عام آدمی کی فلاح کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ان ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات دی جاتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ان اداروں اور ہسپتالوں کو اور بھی مدد چاہیے۔ وہ پندرہ سولہ سال کی لڑکی ہرگز آپ کی مدد کی مستحق نہیں ہے جو صبح ہی صبح بھیک مانگنے کے لئے کاروں کے آگے پیچھے بھاگی پھرتی ہے۔ کسی زمانے میں ان بھکاریوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تھی اور انہیں کام پر لگانے کی باتیں بھی شروع کی جا رہی تھیں‘ مگر پھر ہم اسی دھڑے پر چل نکلے تھے۔ چل نکلے تھے نہیں بلکہ چل نکلے ہیں۔
لیجئے ہمیں پھر جشن بہاراں یاد آ گیا۔ ہم غریبوں کے آنسو پونچھنے کے لیے ہی تو بہار کا یہ جشن مناتے ہیں۔ ویسے اس جشن میں امیر غریب سب ہی شریک ہوتے ہیں؛ تاہم ہمارا یہ جشن صرف ایک پارک تک ہی محدود ہوتا ہے۔ پورا شہر اس میں شامل نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ نہر کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ رنگا رنگ پھول نظر آتے ہیں‘ مگر وہ بھی کاغذ کے پھول ہوتے ہیں۔ محض ادھر سے گزرنے والوں کو خوش کرنے کے لئے۔ وہ زمانے گزر گئے جب صرف لاہور ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے شہر بھی بہار کے رنگوں میں ڈوب جاتے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ہمارے اور آپ کے سوچنے کی بات ہے۔ پہلے ہم صرف حکومت سے ڈرتے تھے، اب عام آدمی سے بھی ڈرتے ہیں۔ پہلے صرف حکومت کا سینسر ہوتا تھا۔ اب عام لوگوں کا سینسر بھی ہے اور یہ سینسر بھی حکومت کی ہی دین ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، یہ برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ہم اور ہماری حکومت پیچھے ہٹتے چلے گئے ہیں اور، جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے وہ آگے بڑھتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے ہر شعبے اور ہر گوشے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کس کی سنی جا رہی ہے اور کس کا حکم چلتا ہے۔ سرمد کھوسٹ کی فلم کے ساتھ بھی تو یہی ہوا ہے۔ تمام سینسر بورڈ اس کی نمائش کے حق میں تھے لیکن غیر ریا ستی عناصر کا جو ایک اور سینسر بورڈ ہے، اس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ شاید اس سینسر بورڈ کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔
اب یہی دیکھیے کہ ا دھر عورت مارچ کا اعلان ہوا اور ادھر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ حالانکہ یہ مارچ ہر سال ہوتا ہے اور اس کے جو نعرے ہیں وہ بھی قریب قریب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ اب آپ الفاظ پر نہ جائیے، ان کا بنیادی مطالبہ عورت کو اس کا جائز حق دلانا ہے۔ مرد کے برابر حق کہ آخر وہ بھی انسان ہے۔ وہ اپنی ذات پر اپنا حق مانگ رہی ہے۔ دس دس بارہ بارہ برس کی لڑکیوں کی زبردستی شادی کرا دی جاتی ہے۔ غیرت کے نام پر اگر کسی کا قتل کیا جاتا ہے تو وہ اسی کا۔ اب وہ جاہل نہیں ہے، پڑھی لکھی ہے اور جان گئی ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں۔ آپ ان کے مطالبات پر غور تو کیجئے‘ اس کے بعد ان کی زبان اور ان کے الفاظ پر قینچی چلائیے۔ سوچ لیجئے کہ اگر آپ کسی کے حقوق برابر غصب کرتے رہیں گے تو آخر کار اسے غصہ آ ہی جائے گا۔ آپ اپنے ٹی وی چینلز پر ایک نام نہاد ڈرامہ نگار کی بد زبانی دیکھ ہی چکے ہیں۔ یہ ہے ہماری ذہنیت، اور یہ ہے عورتوں کے بارے میں ہماری رائے۔