مشورہ دیا جا رہا ہے کہ گھر میں خالی نہ بیٹھو۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہا کرو۔ کتابیں پڑھنے کی بات ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور کیا کرو۔ کچھ نہیں تو اپنا روزنامچہ ہی لکھتے رہا کرو۔ لکھو، کہ آج صبح سے شام تک تم نے کیا کیا۔ اب ظاہر ہے تم سے کوئی ملنے تو آ ہی نہیں سکتا کہ ملنے جلنے پر پابندی لگا دی گئی ہے‘ بلکہ گھر کے لوگوں کے بارے میں بھی کہا گیا کہ ان سے بھی ذرا فاصلے سے ہی ملو۔ اب یہ لکھو کہ تم نے صبح کا سورج نکلتے دیکھا یا نہیں؟ اگر دیکھا تو وہ سورج کیسا تھا؟ ویسا ہی تھا جیسے ہر صبح ہوتا ہے یا اس میں کوئی فرق تھا؟ دیکھیے نا، ہم چیزوں کو صرف جسمانی آنکھ سے ہی نہیں دیکھتے‘ بلکہ دل کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں اور دل کی آنکھ ہمیں وہ دکھاتی ہے جو جسمانی آنکھ نہیں دکھاتی۔ ظاہر ہے جب ہم دل کی آنکھ سے سورج کو دیکھیں گے تو بیمار بیمار سا ہی نظر آئے گا۔ یہ جو آج کل کورونا وائرس کی وبا ہے وہ تو زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی ہے۔ بھلا سورج اس سے کیسے بچ سکتا ہے؟
ہم نے یہ سوچا، اور طے کیا کہ آج ہم اپنا روزنامچہ لکھنے کی کوشش کریں گے؛ چنانچہ ہم نے اس مشورے پر عمل کیا۔ صبح ہی صبح کمرے سے باہر نکل کر آسمان پر ایک نظر ڈالی۔ اب پرسوں بارش ہو رہی تھی۔ ہم سورج کہاں سے دیکھتے۔ موسم نکھرا نکھرا تھا۔ چاروں طرف پھولوں کی مہک تھی۔ بارش میں نہا کر پیڑوں اور پودوں کے ہرے ہرے پتے کچھ اور بھی ہرے ہو گئے تھے۔ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے اور لال لال پھولوں کے رنگ کچھ اور بھی شوخ ہو گئے تھے۔ بارش سے کینو مالٹے کے پھول جھڑ گئے تھے اور ہری بھری شاخوں پر ننھے ننھے پھل نظر آنے لگے تھے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس منحوس وبا نے پیڑوں، پودوں اور پھولوں پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ابھی ہم یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے آ کر ہمیں ڈرا دیا ''یہ بارش فصلوں کے لئے اچھی نہیں ہے۔ گندم کی فصل تیار کھڑی ہے۔ اگلے مہینے کٹائی شروع ہونے والی ہے۔ اس بارش میں گندم کے پودے زمین پر گر جائیں گے اور ان کی بالیوں میں پکے ہوئے گندم کے دانے کالے پڑ جائیں گے‘‘۔ ہم نے یہ بات سنی اور اندر آ گئے کہ ہر سال ہی اس موسم میں بارش ہوتی ہے۔
اس کے بعد نہائے دھوئے، ناشتہ کیا۔ اخبار پڑھے اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئے۔ اب دنیا بھر کے اخبار ہمارے سامنے تھے۔ ان اخباروں سے فارغ ہوئے تو فیس بک اور ٹویٹر کا وسیع و عریض میدان ہمیں للچا رہا تھا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اس میدان میں نظروں کے گھوڑے دوڑائے۔ ابھی اس سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ موبائل پر کچھ چوں چاں شروع ہو گئی۔ واٹس ایپ بھانت بھانت کے پیغاموں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ ایسے پیغام تھے جو ہم سے جواب بھی مانگ رہے تھے۔ باقی پیغام ہمارے علم میں اضافے یا ہمارے تھوڑے بہت مبلغ علم میں خلل ڈالنے کے لئے تھے۔ یہ وہ پیغام تھے جنہیں ڈیلیٹ کرتے کرتے ہماری انگلیاں تھک جاتی ہیں مگر ہم انہیں بلاک بھی نہیں کر سکتے کہ ان میں بعض کام کی باتیں بھی مل جاتی ہیں۔ سید قاسم جعفری نے جو دو شعر بھیجے تھے، وہ ہمیں اچھے لگے۔ چلیے، وہ شعر آپ بھی پڑھ لیجئے۔
غم کی راتیں ہیں، فنا کے دن ہیں
گریہ و آہ و بکا کے دن ہیں
تم تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے
اور پھر اب تو وبا کے دن ہیں
اس پر یاد آیا کہ اکادمی ادبیات نے پاکستان کے شاعروں سے کہا ہے کہ اس وبا پر نظمیں اور غزلیں لکھو۔ بہترین تخلیق پر انعام دیا جائے گا۔ دیکھتے ہیں اس مقابلے میں کون کون شاعر حصہ لیتا ہے‘ اور کون بہترین تخلیق کا انعام پاتا ہے۔ نعرے بازی کے لئے بہترین موقع ہے۔ اپنے آصف فرخی افسانہ نگاروں کو بھی اس وبا پر لکھنے کے لئے اکسا رہے ہیں۔ یہاں بھی دیکھیے، 'کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق‘۔ ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ جو افسانے 9/11 اور دہشت گردی پر لکھے گئے وہ فکشن کم تھے اور فیکشن زیادہ۔ اور فیکشن کبھی فکشن نہیں ہو سکتا۔
ہاں تو اسی میں دوپہر ہو جاتی ہے۔ اب یہ منحوس وبائیں ہوں یا آسمانی اور زمینی بلا ئیں، زندہ رہنے کے لئے کھانا تو بہر طور کھانا ہی پڑتا ہے۔ کھانا کھایا۔ قیلولہ کیا۔ اور پھر ٹیلی وژن کے سامنے۔ اب ٹی وی ہے اور ہم۔ تیسرے پہر کا آخر ہونے لگتا ہے تو اپنے وزیر اعظم عمران خان چند ٹی وی اینکرز کو اپنے سامنے بٹھائے نظر آتے ہیں۔ اب تک وہاں جو اینکر نظر آئے تھے‘ وہ جانے پہچانے تھے۔ وہ بڑے سلیقے کے اور بڑی حد تک چبھتے ہوئے سوال بھی کرتے تھے لیکن آج وہاں جو شکلیں دکھائی دے رہی تھیں ان میں نسیم زہرا کے سوا کوئی شکل بھی جانی پہچانی نہیں تھی۔ اس لئے سوالوں کا معیار بھی بس ایسا ہی تھا۔ جب سے عمران خان صاحب کی یہ پریس بریفنگ شروع ہوئی ہے ہم انتظار ہی کر رہے ہیں کہ اس میں حامد میر، عاصمہ شیرازی اور مجیب الرحمن شامی بھی کبھی نظر آ جائیں گے لیکن ابھی تک تو ان کی باری آئی نہیں ہے۔ اور اب تو ڈر یہ لگنے لگا ہے کہ شاید ان کی باری کبھی آئے بھی نہ کیونکہ ان سے ایسے سوالوں کا خطرہ لگا رہتا ہے جو شاید کسی کو پسند ہی نہ آئیں۔ اب یہی دیکھیے کہ نسیم زہرا نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں یہ سوال کر لیا کہ ''وزیر اعظم صاحب، اس انتہائی خطرناک ہنگامی صورت حال میں آپ اپنی مخالف جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ اس جان لیوا وبا کے دنوں میں وہ آپ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہیں؟‘‘ اس سوال نے یکدم اس بریفنگ کی فضا ہی بدل دی۔ جناب وزیر اعظم کے ہونٹوں پر ان کی مخصوص مسکراہٹ پھیلی۔ کچھ توقف کیا۔ اور پھر اس سوال کا جواب دینے کے بجائے وہی تاریخ دہرانا شروع کر دی جو گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے وہ اور ان کے وزیر اور مشیر دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کرکے لوگوں نے اس ملک کو برباد کر دیا۔ ملک کا سرمایہ باہر بھیجا گیا‘ اور خوب بے ایمانیاں اور بد دیانتیاں کی گئیں۔ غریبوں کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ اب ہم خاص طور سے غریبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اتنی دیر انہوں نے اپنے مخالف رہنمائوں کو وہ ملاحیاں سنائیں کہ اصل سوال ہی کہیں غتربود ہو گیا۔ اور شاید وہ بھی یہی چاہتے تھے۔
رات کو ہم نے ایک فلم دیکھی۔ فلم کیا دیکھی، یہ سیدھا سادہ سوال ہی مسلسل ہمیں پریشان کرتا رہا کہ آخر وزیر اعظم صاحب کا مسئلہ ہے سیاسی یا نفسیاتی؟ سیاست میں تو دوستوں اور دشمنوں سے، سب سے ملا جاتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا کہ کسی نہایت ہی اہم مسئلے پر کوئی اجلاس ہو رہا ہو، اور وہاں وزیر اعظم اپنی تقریر کرکے گھر چلا جائے، دوسروں کی بات سننا تک گوارا نہ کرے۔ ہمارے یہاں ایسا ہی ہوا۔ اب ہم کون ہوتے ہیں‘ وزیر اعظم کو سمجھانے والے، ما شا اللہ وہ خود بھی خاصے سمجھ دار ہیں۔ اتنا تو وہ ضرور سمجھتے ہوں گے کہ ان کا یہ عمل دوسری جماعتوں کے رہنمائوں کی بے عزتی کے مترادف تھا۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ ان رہنمائوں کی جگہ اگر وہ خود ہوتے تو کیسا محسوس کرتے؟ اب اگر شہباز شریف نے اس وقت اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو کیا غلط کیا؟ اور اگر بلاول بھٹو بائیکاٹ کے بعد دوبارہ محفل میں آ گئے تو یہ اس ملک اور اس ملک کے دگرگوں حالات کے ساتھ ان کی وابستگی کا ثبوت ہی تو ہے۔ اسی لئے تو ہم عرض کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کا مسئلہ خالصتاً ذاتی اور نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ احساسِ برتری کا مسئلہ۔ ہم تو نہایت ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ کسی نفسیات دان سے پوچھ لیجئے کہ احساس برتری کا مطلب کچھ اور بھی ہوتا ہے اورغرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو بھی پسند نہیں ہے۔
لیجئے، ہمارے ایک دن کا روزنامچہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا لکھا جا سکتا ہے۔ اب اگر کل کا روزنامچہ بھی لکھا گیا تو اس سے اور کیا مختلف ہو گا؟ اس لئے اللہ بس اور باقی ہوس۔