آج کل ہمیں یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے؎
مانگا کریں گے اب تو دعا ہجرِ یار کی
آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ
یہ شعر ہم نے ڈرتے ڈرتے لکھا ہے ‘اور یہ سوچ کر لکھا ہے کہ کیا ہماری دعائوں میں اثر باقی نہیں رہا؟ کیا ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں؟ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ جب سے یہ موذی وبا شروع ہو ئی ہے ہم نے اس سے نجات پانے کیلئے گڑ گڑ ا‘گڑ گڑا کتنی دعائیں مانگی ہیں ۔یہ دعائیں ہم نے انفرادی طور پر بھی مانگی ہیں ‘ اور اجتماعی طور پر بھی۔ہمارے وزیر اعظم عمران خاں کے سامنے مو لانا طارق جمیل نے جس خضوع و خشوع کے ساتھ دعا مانگی اس پر تو پتھر سے پتھر دل بھی پگھل گیا ہو گا‘ لیکن جس دن مو لانا صاحب رو رو کر یہ دعا مانگ رہے تھے ‘اس کے دوسرے دن ہی ہمیں یہ خبر سنا ئی گئی کہ ہمارے گھر میں بند رہنے کی مدت بڑھا دی گئی ہے ‘اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مدت کب ختم ہو گی؟بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اس وبا کا ایک اور ریلا آنے والا ہے جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو گا۔ تو کیاتوقعات ہم اپنے دل کی تسلی کیلئے باندھ رہے ہیں؟ اب ہم جیسے گناہ گار کیا کہہ سکتے ہیں؛البتہ یہ سوال کر نے کو جی چا ہتا ہے کہ کیا ہماری بے حیائی اور ہمارے گناہوں کی سزا ساری دنیا کو مل رہی ہے ؟ اس لئے کہ یہ آفت صرف ہمارے اوپر تو نازل نہیں ہو ئی ‘ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آ ئی ہو ئی ہے ‘ اور آپ جسے بے حیائی کہہ رہے ہیں وہ تو مغرب میں خدا جانے کب سے جاری ہے ۔ تو کیا ان کی بے حیائی کی سزا بھی ہم بھگت رہے ہیں؟
ادھر امریکہ سے یہ خبر آئی کہ گرمیاں شروع ہو نے دو‘اس وبا کی شدت خود بخود کم ہو جائے گی‘ لیکن کم سے کم ہم لاہور میں تودیکھ رہے ہیں کہ گر میاں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں ۔ دو دن ذرا دھوپ چمکتی ہے تو فو راً ہی بادل آ جا تے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے اور ہماری ا میدوں پر ٹھنڈا پانی پڑ جا تا ہے ۔ آ خر ہم کب تک گھر میں بند رہیں گے ؟ اور کب تک گھر میں بیٹھ کر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے؟ نہ موسم ہمارا ساتھ دے رہا ہے ‘اور نہ حالات ۔
یہاں ہمیں سو مرسٹ ماہم کا ایک ڈرامہ یاد آ رہا ہے۔ اس ڈرامہ کا مرکزی کردار ایک ادیب ہے ۔ ایسا ادیب جو اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی افسانے‘ ناول اور ڈرامے لکھتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے ۔ وہ صبح شام گھر میں بیٹھا کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا ہے ۔ گھر میں اور کو ئی فرد بھی نہیں ہے ‘ یعنی ان کا کو ئی بچہ بھی نہیں ہے۔ یہ میاں بیوی ہی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں ‘ لیکن پھر یوں ہو تا ہے کہ میاں بیوی کے در میان چخ چخ شروع ہو جا تی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کی باتیں ان کے دوستوں تک بھی پہنچتی ہیں۔ آخر ایک دوست اس کا یہ علاج بتاتا ہے کہ کچھ دن کیلئے ان دونوں کو علیحدہ کر دیا جائے؛ چنانچہ انہیں علیحدہ کر دیا جا تا ہے‘ اور اس طرح ان دونوں کے تعلقات معمول پر آ جا تے ہیں۔ یہ ڈرامہ ہمیں یاد آ یا‘ اور ہم نے خدا کاشکر ادا کیا کہ یہ تماشے ہمارے ہاں نہیں ہو تے۔ یہاں ہم گھرمیں بند ہو کر زیادہ خوش رہتے ہیں۔ اس طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا زیادہ موقع مل جا تا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ زیادہ قریب رہنے سے محبت بڑ ھتی ہے۔ اب معلوم نہیں محبت بڑھتی ہے یا نہیں لیکن ہمارے خیال میں صبح شام گھر میں رہنے سے ہمارے ہاں میاں بیوی میں جھگڑے نہیں ہو تے ۔ زندگی معمول کے مطا بق چلتی رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں سے تو ایسی خبریں آ رہی ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں ایسی کو ئی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ادھرمغرب کے ادیبوں نے پہلے ہی اس کا ایک بہت اچھا حل نکال لیا ہے۔ وہ گھر میں بیٹھ کر نہیں لکھتے بلکہ وہ گھر سے باہرایک سٹودیو ( ایک کمرے کا اپارٹمنٹ ) لے لیتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر لکھتے ہیں‘ لیکن یہ نخرے انہی ملکوں میں چل سکتے ہیں جہاں کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فرخت ہو تی ہیں اور ادبیوں کو اپنی ایک کتاب کا اتنا معقول معاوضہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنا گھر بار بھی چلاتے ہیں اور گھر سے باہر سٹوڈیو کا کرایہ بھی آرام سے بھرتے رہتے ہیں۔
اب یہاں ہم اپنی اس خوشی اور مسرت کا اظہار بھی کر دیں‘جوہمیں ایک معروف سیاست داں کی تحریر پڑھ کر ہو ئی ہے ۔ہمیں اپنے سیاست دانوں سے یہی شکایت رہی ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے۔ فکشن کو تو جیسے وہ ہاتھ ہی نہیں لگا تے ۔میاں رضا ربانی نے انگریزی میں ناول لکھا تو ہم نے اسے ہا تھوں ہاتھ لیا‘ اس کی تعریف کے پل باندھ دیئے اور یہ امید لگا کر بیٹھ گئے کہ وہ اور بھی ناول لکھیں گے۔ وہاں سے تو ابھی تک ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہو ئی لیکن ایک اور سیاست داں نے اپنی تحریر سے ہمارا منوں خون بڑھا دیا ہے۔ خرم دستگیر خاں سیاسی لیڈر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ ہم انہیں ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں دیکھتے تھے اور سو چتے تھے کہ دوسرے سیاست دانوں کی طرح یہ بھی ایک سیاست داں ہی ہیں ۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ سیاست کے علاوہ دنیا بھر کی فکشن بھی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں دو بار بکر پرائز حاصل کر نے والی برطانوی ناول نگار ہیلری منٹیل کے ان ناولوں کا ذکر کیا ہے جوہماری کئی بار کی کوششوں کے باوجود ہم سے نہیں پڑھے گئے ۔ہم نے سو چا کہ یہ ناول چو نکہ بر طانیہ کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس لئے خرم دستگیر خاں نے ایک سیاست داں کے طور پر انہیں پڑھ ڈالا ہو گا‘ لیکن اسی تحریر میں انہوں نے تولاطینی امریکہ کے ناول نگار یوسا اور دوسرے مغربی ناول نگاروں کا بھی ایسے ذکر کیا ہے جیسے وہ دنیا بھر کے ناول نگاروں اور ان کی تحریروں سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ دنیا بھر کا ادب پڑھتے ہیں۔ ان کی اپنی تحریر بھی ادبی چاشنی لئے ہو ئے ہے۔ کاش دوسرے سیاست داں بھی ایسے ہی کتابیں پڑھیں ۔
اب ہم پھر دعائوں کی طرف آ تے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ ہم روزہ با قاعدگی سے رکھتے ہیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جا ئے کہ جس طرح ہم باقاعدگی سے روزہ رکھتے ہیں‘ اسی طرح رمضان کا مہینہ شروع ہو تے ہی اسی با قاعدگی سے روزمرہ ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ وہ کیا فلم تھی جس میں ایک چور کسی گھر میں چوری کیلئے گھستا ہے۔ اسی دوران نماز کا وقت ہو جا تا ہے‘ اور وہ وہیں نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔جب اس سے پو چھا جا تا ہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ بڑے فخر سے کہتا ہے: نمازمیرا فرض ہے اور چوری میرا پیشہ ۔
لیکن یہاں ہمیں ان کاری گروں کو بھی نہیں بھولنا چا ہیے جو اس بلا ئے نا گہانی کی وجہ سے بے کار ہو گئے ہیں۔ حکومت ان دیہاڑی دار مزدوروں کو تو معاوضہ دے رہی ہے جنہیں کام نہیں مل رہا ہے‘ لیکن ان کاری گروں کی طرف کسی کا دھیان نہیں جا تا جو اس موذی بلا کی وجہ سے اپنی دکان بند کر کے بیٹھ رہے ہیں ۔یہاں آپ الیکٹریشنز‘پلمبر اور اسی قسم کے کا ری گروں کو دیکھیے۔ یہ تین مہینے سے گھر میں بیٹھے ہیں۔ ان کے پاس کو ئی کام نہیں ہے۔ہم تو اپنے گھر کے قریب کام کر نے والے حجام یا ہیئر ڈریسر کو جا نتے ہیں۔ دکان کا مالک تو شاید اتنے دن اپنی دکان بند رکھنے کی صعوبت برداشت کر لے لیکن اس کی دکان پر کام کر نے والے دوسرے کاری گر کیا کریں؟ وہ تو کسی سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے ۔ اس لئے‘ آئیے ہم ایک بار پھر دعا مانگیں کہ یہ ہولناک وبا جلد سے جلدہمارا پیچھا چھوڑ دے۔