کیا آپ یقین کریں گے کہ جب سے یہ منحوس کورونا ساری دنیا کی گردن پر سوار ہوا ہے اس وقت سے اب تک ہم نے اپنے گھر کے دروازے سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالا ہے۔ ہم ہیں اور ہمارے گھر کی دیواریں یا یوں کہہ لیجئے کہ ہمارے کمروں کی دیواریں۔ انہیں دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو باہر لان میں نکل آتے ہیں۔ یہ لان میں نکلنا اور پیڑوں پودوں سے نظروں کو طراوٹ پہنچانا بھی ہفتے، ڈیڑھ ہفتے ہی رہا۔ اس کے بعد سے جو تراْقے کی دھوپ اور دماغ پگھلانے والی گرمی شروع ہوئی ہے، اس نے ہم سے یہ عیش بھی چھین لیا ہے۔ کل سے ٹھنڈی ہوا شروع ہوئی ہے لیکن گرمی میں، تھوڑے بہت سائے کی تلاش میں ہم پھر چہاردیواری میں بند ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں رمضان بھی آیا، روزے بھی آئے اور پھر عید بھی آ گئی۔ ہم نے اپنے تمام عزیزوں اور رشتے داروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ جو ملنا ملانا اور مبارک سلامت کہنا ہے وہ دور سے ہی اچھا۔ آپ کے پاس بھی فون ہے اور ہمارے پاس بھی۔ پیار محبت زیادہ جوش مارے تو اٹھائو فون اور کر لو بات۔ اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری اس ہدایت پر سب نے عمل کیا۔ ایک آدھ بھولا بسرا اگر کوئی ہمارے گھر کی طرف آ نکلا تو ہمارے گھر والوں نے پہلے تو پانی سے اس کے ہاتھ پائوں اچھی طرح دھلوائے۔ پھر ہاتھوں پر سینی ٹائزر خوب چھڑکا، اس کے بعد اس کے اپنے جوتے اتروا کر دوسرے جوتے دئیے کہ لائونج کی دہلیز تک انہیں پہن کر آئو، اور اندر داخل ہونے سے پہلے انہیں بھی اتار دو۔ ظاہر ہے اس آزمائش کے بعد ہمارے گھر کوئی کیوں آتا۔ اب یہاں ہمیں یاد آیا کہ ساری مہذب دنیا میں قاعدہ ہے کہ آپ کسی کے گھر جاتے ہیں تو اندر داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے ڈیوڑھی میں ہی اتار دیتے ہیں۔ یہ قاعدہ ہم نے پاکستان کے چند گھروں میں بھی دیکھا ہے۔ توکیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ہاں بھی ہر گھر میں یہی قاعدہ اپنا لیا جائے۔ بلاشبہ، چند نک چڑھے احباب اس کا برا تو مانیں گے، لیکن اس سے باہر سڑک کی دھول، مٹی اور گندگی گھر کے اندر نہیں آئے گی، گھر صاف ستھرے رہیں گے اور بیماریوں سے محفوظ بھی رہیں گے۔
یہ ساری رام کہانی ہم آپ کو اس لئے سنا رہے ہیں کہ ان تمام کڑی مشقتوں کے بعد ہمیں ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں واقعی اپنے لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی ہمیں عادت ہی نہ پڑ جائے اور ہم مردم بیزار ہو کر ہی نہ رہ جائیں۔ ہم اپنے بچپن میں کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ایک خونخوار دیو نے ایک شہزادی کو اپنی قید میں ڈال رکھا تھا۔ کوئی محبت کا مارا ایک شہزادہ بھی کسی طرح وہاں جاکر چھپ گیا تھا مگر رات کو جونہی وہ جن وہاں آتا تو شور مچا دیتا ''مانس گندھ، مانس گندھ‘‘ یعنی یہاں انسان کی بو آ رہی ہے۔ انتظار حسین نے اپنے افسانے میں ہمارے بچپن کی اسی کہانی کو نئے معنی پہنا دئیے ہیں۔ تو ہمیں ڈر لگنے لگا ہے کہ اگر اسی طرح چند مہینے، بلکہ چند سال کورونا جیسی موذی وبا ہمارے سروں پر سوار رہی تو کہیں ہم بھی اس بھیانک دیو کی طرح کسی دوسرے انسان کے قریب آتے ہی ''مانس گندھ، مانس گندھ‘‘ نہ پکارنے لگیں اور آ خر ہم خود ہی انتظار حسین کی مکھی بن کر نہ رہ جائیں۔ ہمارے ہاں ہر اس آدمی کو ''اکیل مار‘‘ کہا جاتا تھا جو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہ رہتا ہو، بلکہ اکیلا ہی پڑا رہتا ہوا۔ اس ناگہانی وبا نے ہمیں بھی ''اکیل مار‘‘ بنا دیا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یہ ہمارا ''اکیل مار‘‘ فارغ نہیں بیٹھتا۔ وہ دعا دیتا ہے آن لائن کام کو‘ جس نے اسے مصروف رکھا ہوا ہے۔ رہتا تو وہ اکیلا ہے لیکن آن لائن کام اس کا ساتھی بن گیا ہے۔ کسی انسان کے بجائے آن لائن کام۔
لیکن یہ جو آن لائن کام ہیں، اب ہمیں ان سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ انہوں نے ہمارے آنے جانے پر ہی پابندی نہیں لگائی ہے بلکہ دفتروں کے خرچ بھی کم کر دئیے ہیں۔ اس کے علاوہ آمدورفت میں جو خرچ آتا تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ آپ کا کام آپ کے گھر ہی آ جاتا ہے۔ آپ وہ کام پورا کرتے ہیں اور اسی طرح آن لائن اسے واپس کر دیتے ہیں۔ یہاں ہمارا ڈر اور ہمارا خوف یہ ہے کہ کہیں یہ آن لائن کام ہماری زندگی کا حصہ ہی نہ بن جائے اور ہم بھول جائیں کہ کبھی ہم دفتر بھی جایا کرتے تھے اور وہاں بیٹھ کر کام بھی کیا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں اور ہمکاروں کے ساتھ گپ شپ بھی کیا کرتے تھے۔ اس طرح پرانی دوستیاں بھی رہتی تھیں اور نئی دوستیاں پیدا بھی ہوتی تھیں‘ لیکن اب ہم ''اکیل مار‘‘ بننے کے عمل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اکیل مار بہت خطرناک انسان ہوتا ہے‘ اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔
مگر اس سے کچھ اور بھیانک قسم کے خطرے بھی تو پیدا ہونے لگے ہیں۔ اور یہ خطرے ہیں بیروزگاری اور بیکاری کے۔ دنیا بھر سے خبریں آ رہی ہیں کہ بڑے بڑے ادارے بند ہو رہے ہیں۔ جب کاروبار ہی نہ ہو گا تو یہ ادارے آخر کیا کریں گے؟ چلئے، ان عالمی کاروباری اداروں کو بھی بھول جائیے‘ ذرا سوچئے، آج کل یہ جو عرب ملکوں اور دوسرے علاقوں سے پاکستانی باشندوں کے غول کے غول اپنے ملک بھاگے چلے آ رہے ہیں، ان کے روزگار کا کیا ہو گا؟ ابھی تو ہم بڑے زور شور سے اپنی حکومت کو مجبور کر رہے ہیں کہ باہر کے ملکوں میں موجود (انہیں ہم وہاں پھنسے ہوئے پاکستانی کہتے ہیں) پاکستانیوں کو جلد سے جلد اپنے ملک واپس لایا جائے۔ اس کے بعد ہم کس سے کہیں گے کہ انہیں روزگار بھی دلایا جائے؟ ہم اپنی نحیف و نزار معیشت کو خوب جانتے ہیں۔ آخر وہ اور کتنا بوجھ برداشت کر لے گی؟ اب ایک تو نحوست کی ماری کورونا وبا، دوسرے ہماری اپنی بیمار معیشت۔ تو صاحب، تیار ہو جائیے ایک اور مصیبت کیلئے۔ کمر کس لیجئے۔ یہ چینی اور آٹے کا بحران بھی آپ بھول جائیں گے اور بٹر بٹر دیکھیں گے ان غریبوں کو جو بیٹھے بٹھائے بیروگار ہو چکے ہیں۔ بیروزگاروں اور بیکاروں کی تعداد دنیا بھر میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ امریکہ جیسے ملکوں میں اب ان بھوکوں ننگوں کی مالی امداد شروع کردی گئی ہے۔ کہتے ہیں وہاں شہروں شہروں ایسے لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ امریکہ کو چھوڑئیے، اپنے ملک میں آ جائیے، سوائے چند بڑے شاپنگ پلازوں کے باقی دکاندار ہاتھ ہر ہاتھ ر کھے بیٹھے ہیں۔ گاہک ہی نہیں ہیں۔ چیزیں مہنگی بھی ہو رہی ہیں اور خریدار غائب بھی ہو رہے ہیں۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں سے قریب ہی قالینوں اور پردوں وغیرہ کی دکانیں ہیں۔ اول تو کوئی خریدار آتا نہیں‘ جو قسمت کا مارا آ جاتا ہے وہ لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے ان ضرورت مندوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا جو ہمارے وزیر اعظم کی امدادی سکیم میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ سارے بازار کی رونق ہی اجڑ گئی ہے۔ اب ہم سے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وبا کے ساتھ ہی جینا سیکھو۔ یہ منحوس وبا آسانی سے ہمارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہے۔ اس کی مدت کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ہر روز یہ بری خبر سنائی جاتی ہے کہ آئندہ اس بلائے ناگہانی میں اضافہ ہی ہو گا۔ ہم یہ سنتے ہیں اور بقول کسے اپنے بل (اپنے گھر) میں پھر چھپ جاتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچئے، ہم جیسے کتنے ہیں جو یہ تنہائی برداشت کر سکتے ہیں؟ اور ابھی ابھی کسی نے یاد دلایا کہ اس طرح اپنے عزیزواقارب سے الگ رہنے سے ڈپریشن کا بھی خطرہ ہے۔ اکیلا آدمی ڈپریشن کا ہی شکار ہوتا ہے۔ ذرا تحقیق کیجئے کہ اس عرصے میں کتنے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں؟ اسی لئے ہم تو کہتے ہیں کہ اس موذی وبا نے ہم جیسے لوگوں کو دو گونہ عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں تو بیزاری اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ سب کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو کورونا کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ اس لئے ہم نے گھر کے اندر رہنے کو ہی ترجیح دی ہے۔ ڈپریشن کا مقابلہ تو کیا جا سکتا ہے کورونا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، سلامت رہے آن لائن کام۔ وہ تو ملتا ہی رہے گا۔