میں کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تین چار دن پہلے جس شخص سے ٹیلی فون پر میری بات ہو رہی تھی‘ اب وہ نہیں رہا۔ یہ دو ڈھائی ہفتے پہلے کی بات ہی تو ہے۔ اسلام آباد سے کشور ناہید کا فون آیا تھا ''آصف فرخی کی شوگر بگڑ گئی ہے‘ اس کا حال اچھا نہیں ہے‘‘۔ میں جانتا تھا کہ شوگر اس کی بہت ہی پرانی بیماری ہے۔ سوچا، بڑھ گئی ہو گی۔ فون کیا‘ تو بہت ہی نحیف آواز میں اس نے بتایا کہ اے گیسٹروانٹرائٹیٹس ہو گیا ہے۔ میں نے مذاق کیا ''کیا کھا گئے تھے؟‘‘ جواب ملا ''شاید باہر کچھ کھا لیا ہو گا‘‘۔ اس کے بعد میرا معمول ہو گیا کہ ہر دوسرے دن فون کر لیتا۔ جواب وہی ملتا کہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا ہوں‘ کمزوری بہت ہو گئی ہے۔ ایک دن میں نے مذاق میں کہہ دیا ''کل تم ٹھیک ہو جائو گے‘‘ اس پر وہ ہنسا ''اچھا! کل ٹھیک ہو جائوں گا؟‘‘ پھر میں نے تین چار دن فون نہیں کیا۔ خیال تھا کہ اب تک وہ مرض کم ہو گیا ہوگا۔ جہاں تک اس کے علاج کا تعلق ہے‘ اس بارے میں اس سے کبھی سوال ہی نہیں کیا کہ ایک تو خود ڈاکٹر تھا‘ دوسرے آغا خاں ہسپتال میں سب اس کے جاننے والے ہیں۔ وہ خود بھی وہاں کام کرتا رہا تھا۔ سوچا، وہ ٹھیک علاج ہی کر رہے ہو گے۔ دو دن فون بھی نہیں کیا اور آخر بدھ کی شام کو کشور پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ''آصف نہیں رہا‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ''یہ کیا ہوا؟ یہ کیسے ہوا؟‘‘ مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکاتھا۔ کہتے ہیں اسے دل کا دورہ پڑا‘ اور وہی اسے لے گیا۔ اب کشور اس کی کوئی اور ہی وجہ بتاتی ہے لیکن یہ ایک طولانی قصہ ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ جس شخص نے صرف ساٹھ سال کی عمر تک اردو اور انگریزی ادب کو اتنا کچھ دیا کہ ساٹھ ادیب مل کر بھی نہ دے سکتے ہوں وہ ہماری آنکھوں سے اچانک ایسے اوجھل ہو گیا کہ کسی کو یقین نہیں آرہا ہے۔
اب مجھے چالیس بیالیس سال پہلے کی بات یاد آ رہی ہے۔ ہماری معروف ناول نگار جمیلہ ہاشمی حیات تھیں اور ان کی شامِ افسانہ بھی خوب رونق لے رہی تھی۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ ہر سال بہترین نئے افسانہ نگاروں کو انعام دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ منصفین کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ انتظار حسین اور مجھے اس میں شامل کیا گیا۔ ہم نے سال بھر کے افسانوں کا جائزہ لیا‘ اور آصف فرخی کا افسانہ بہترین ٹھہرا۔ ایک دبلا پتلا سا لڑکا اپنے والد ڈاکٹر اسلم فرخی کے ساتھ لاہور آیا اور جمیلہ ہاشمی نے اسے انعام دیا۔ اس وقت وہ کراچی کے سینٹ پیٹرک کالج میں پڑھتا تھا۔ اتفاق سے اسی کالج میں میرے یارِ غار اور سلیم احمد کے دوست احمد علی سید بھی پڑھاتے تھے۔ میں کراچی جاتا تو احمد علی سید کے ساتھ آصف سے بھی ملاقات ہوتی۔ اس کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی کہ میری آمد کا سن کر وہ احمد علی سید کے گھر آتا تھا۔ احمد علی سید بھی اس سے بہت متاثر تھے۔ کہتے تھے‘ اتنا ذہین اور اتنا پڑھاکو لڑ کا میں نے نہیں دیکھا۔
اس کے بعد اس نے ڈائو میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا، پھرمزید تعلیم کیلئے ہارورڈ چلا گیا۔ برطانیہ سے بھی کوئی ڈگری لایا۔ کمیونٹی میڈیسن اس کا مضمون تھا۔ وہ کراچی آیا تو یونیسیف میں شامل ہو گیا‘ لیکن اصل اس کا شوق اور اس کا عشق تو ادب تھا۔ اردو اور انگریزی ادب۔ لکھنا لکھانا بھی طالب علمی کے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ اردو میں لکھتا اور انگریزی میں بھی۔ اس نے انگریزی میں مختلف ادیبوں اور شاعروں کے جو انٹرویو کئے وہ اخبار ڈان میں شائع ہوئے۔ اردو میں وہ افسانے بھی لکھ رہا تھا، تنقید بھی لکھ رہا تھا‘ ترجمے بھی کر رہا تھا‘ اور نئے نئے افسانہ نگاروں اور شاعروں کو متعارف بھی کرا رہا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے ''دنیا زاد‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا۔ یہ ایک منفرد قسم کا رسالہ ہے۔ ہر شمارے کیلئے اس کا ایک موضوع منتخب کیا جاتا‘ اور اس حوالے سے رسالہ مرتب کیا جاتا۔
پھر وہ ڈاکٹری چھوڑ چھاڑ حبیب یونیورسٹی میں ادب پڑھانے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سوتے جاگتے لکھتا ہی رہتا ہے۔ افسانے لکھے، تنقید لکھی، خاکے لکھے‘ اردو اور انگریزی میں کتابوں پر تبصرے لکھے۔ اچھے ادب کے ترجمے کئے۔ کراچی میں جب بوری بند لاشوں کی وبا پھیلی تو یہ آصف فرخی ہی تھا جس نے سب سے پہلے اس پر افسانے لکھے۔ یہ افسانے اس کے مجموعوں میں موجود ہیں۔ دنیا کی کسی زبان کا بھی ایسا ناول جو انگریزی میں ترجمہ ہو گیا ہو، اس کی نظر سے بچ کر نہیں جا سکتا تھا۔ اس معاملے بھی وہ خاصا فراخ دل واقع ہوا تھا۔ جو پڑھتا اس میں اپنے دوستوں اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی شریک کرتا۔ تھوڑی سی شہرت حاصل کر لینے والے ہمارے افسانہ نگار یا ناول نگار کسی کو خاطر میں نہیں لاتے‘ لیکن آصف کی خوبی یہ تھی کہ ہر نیا پرانا ادیب اس کا دوست تھا۔ نئے لکھنے والوں کی وہ ناصرف تحریروں کی تحسین کرتا بلکہ انہیں مشورے بھی دیتا۔ کراچی کا تو مجھے علم نہیں؛ البتہ جب بھی وہ لاہور آتا اس کے گرد نئے لکھنے والوں کا ایک جمگھٹا سا لگا رہتا۔ وہ انہی میں خوش رہتا۔ وہ سب کا محبوب تھا۔
انتظار حسین کے ساتھ اس کا جو تعلق تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جب انتظار حسین کو بکر پرائز میں شامل کیا گیا تو یہ آصف فرخی ہی تھا جو انتظار حسین کے ساتھ لندن گیا تھا۔ اس نے انتظار حسین پر جو کام کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کم سے کم مجھے اپنے ارد گرد آصف فرخی جیسی جامع کمالات شخصیت اور کوئی نظر نہیں آتی۔ لکھنے کا بھی دھنی اور بولنے کا بھی دھنی۔ ہر ادبی محفل اور ادبی جشن کی جان۔ امینہ سید کے ساتھ مل کر پاکستان میںاس نے جشن ادب کا جو ڈول ڈالا‘ اس کی مثال ہمیں پاکستان میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ پھر جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے، کچھ لوگ حسد کا شکار ہو گئے اور انہوں نے یہ جشن بند کرا دئیے۔ اس کے بعد، اس کے مقابلے میں جشن منانے کی کوشش کی گئی مگر وہ بات پیدا ہی نہیں ہو سکی۔ امینہ سید اور آصف فرخی نے بھی اپنے طور پر جش منانے کی سعی کی لیکن ایسے عالمی جشن کیلئے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کورونا وبا پھیلی تو آصف کو اپنے قاری سے مخاطب ہونے کا ایک اور موقع مل گیا۔ اب وہ کیمرہ سامنے رکھ کر بیٹھ جاتا اور عام سماجی حالات سے ادب تک ہر موضوع پر بات کرتا۔ یہ ویڈیوز ''ہم سب‘‘ میں موجود ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ادب پارے ہیں۔ اس نے کتنی طبع زاد کتابیں لکھیں؟ کتنی کتابیں مرتب کیں؟ کتنے مردوں کو زندہ کیا؟ ان کتابوں کی تعداد کتنی ہے؟ یہ اب ہمارے نقاد اور محقق اس کا احاطہ کریں گے۔ میں نے تو صرف اپنے دل کا غبار نکالا ہے۔ مجھے تو تین چار دن پہلے کا وہ آصف فرخی یاد آ رہا ہے جس نے بتایا تھا کہ اسے گیسٹرواینٹرائٹس ہو گیا ہے، اور میں اسے ایک معمولی بیماری سمجھا تھا۔ تو کیا اس کے گھر والوں نے بھی (جو بھی وہاں موجود تھے) یہی سمجھا تھا؟ آخر اس کے دل نے اس کے ساتھ جو دغا کیا، کیا وہ بھی اسی کا نتیجہ تھا؟ اس وقت کون تھا اس کے پاس؟ یہ سوال کشور ناہید بھی کر رہی ہیں۔ میں تو آصف جیسے انسان کی جوان موت پر یہی کہہ سکتا ہوں: کیا یہ اس کے جانے کے دن تھے؟ ہم کس جامع کمالات شخص سے محروم ہو گئے؟ اس کا اندازہ تو ابھی ہمیں ہو گا۔