کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وطن عزیز میں کیا ہو رہاہے؟ ایک انتشار، ایک خلفشار ہے جس نے اس ملک کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ جو بھی ٹی وی چینل کھولو اس پر سندھی کشتی ملاکھڑا دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ جانتے ہیں نا کہ ملاکھڑا میں ہاتھ پائوں کے دائو پیچ نہیں ہوتے بلکہ شلوار کے نیفے اور ازار بند پر ہاتھ ڈال کر اپنے مخالف کو اوپر اٹھایا جاتا ہے اور یہی فتح و شکست کہلاتی ہے۔ ان دنوں اگر ہمارے اوپر سوگواری کی کیفیت طاری نہ ہوتی تو ہم اس بات کو اور آگے بڑھاتے؛ البتہ، اگر آپ برا نہ مانیں تو عرض کر دیا جائے کہ آج کل ہماری سیاست میں بھی حامیوں اور مخالفوں کے ملاکھڑے والے ہاتھ دوسروں کی شلواروں کے ازاربند تک پہنچ رہے ہیں۔ مزے ہیں ٹیلی وژن چینلز کے۔ انہیں ہر شام پکی پکائی مل جاتی ہے۔ ٹاک شو کے لئے کوئی موضوع ڈھونڈنا ہی نہیں پڑتا۔ ادھر ادھر سے دو تین سیانوں کو پکڑا اور ان کا کرا دیا ملاکھڑا۔ اب یہی دیکھیے کہ کچھ نہیں تو جھگڑا جے آئی ٹی پر ہی ہو گیا ہے۔ ایک کہتا ہے میری جے آئی ٹی صحیح ہے، دوسرا کہہ رہا ہے میری جے آئی ٹی صحیح ہے۔ کوئی کہتا ہے میری جے آئی ٹی پر اتنے دستخط ہیں،دوسرا کہہ رہا ہے میری جے آئی ٹی پر اتنے دستخط ہیں۔ ایک وزیر صاحب بڑے زوروشور سے قومی اسمبلی میں وہ کاغذ لہرا رہے تھے جو کوئی نامعلوم شخص ان کے گھر پھینک گیا تھا۔ کہتے ہیں وہ شخص موٹر سائیکل پر آیا اور کاغذ ان کے گھر میں پھینک کر بھاگ گیا۔ اب ایسے نامعلوم شخص کے کاغذ کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ اس کا فیصلہ قانون اور عدالت ہی کر سکتے ہیں مگر ہر بات میں عدالتوں کو لانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ اب اس مارا ماری سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ وہ ملزم جنہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اتنے انسان قتل کئے‘ اتنے گھر اجاڑے اور اتنے بچے یتیم کئے۔ یہ ملاکھڑا کھیلنے والے ان سینکڑوں انسانوں کو بھی بھول بیٹھے ہیں جنہیں بھتہ وصول کرنے کے نام پر جلا کے خاکستر کر دیا گیا تھا۔ یہاں جیتے جاگتے انسان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے۔ اصل حیثیت یہ ہے کہ جے آ ئی ٹی کس کی سچی ہے۔ پیپلز پارٹی والے کہہ رہے ہیں کہ یہ جھگڑا صرف اس لئے کھڑا کیا گیا ہے کہ حکومت کے اصل مسائل کی طرف سے توجہ ہٹائی جائے۔ بات دل کو لگتی ہے۔ اگر صرف جے آئی ٹی کا مسئلہ ہی ہوتا تو اتنی چیخم دھاڑ کی کیا ضرورت تھی؟ دونوں جے آئی ٹی سامنے رکھ کر کسی قانون داں سے فیصلہ کرا لیا جاتا‘ اور اس طرح بقول کسے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔
یہ جھگڑا یہیں ختم نہیں ہو رہا ہے۔ حکومت کے اپنے میدان میں بھی تو کئی گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ عمران خاں صاحب نے اگر مائنس ون کی بات کی تھی تو وہ یونہی نہیں کی تھی۔ کوئی تو بھنک پڑی تھی ان کے کان میں۔ مولانا اسماعیل میرٹھی نے اس قسم کی گھڑ دوڑ کے بارے میں ہی تو کہا تھا:
تازی پہ‘ کوئی ترکی پہ اپنے سوار تھا
جو ہچکچا کے رہ گیا سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا
تازی اور ترکی گھوڑوں کی نسلیں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہر نسل کا گھوڑا اس دوڑ میں شریک ہے۔ یہ انسانی گھوڑے ہیں اور ادھر ادھر دوڑ لگا رہے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کو ایک زمانے میں گھوڑے پالنے کا شوق ہوا تھا۔ انہوں نے گھوڑے پالے تو ان گھوڑوں کی نسلوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی ضروری تھا۔ اس لئے ان کی لائبریری میں گھوڑوں کی نسلوں کے بارے میں کتابیں بھی پہنچ گئی تھیں۔ اب یہاں اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کی معلومات کے لئے ہم عرض کر دیں کہ غالب کے محقق اور عالم امتیاز علی خاں عرشی کے والد مویشیوں کے ڈاکٹر تھے‘ اور ہمارے والد کے نانا تھے۔ اس طرح عرشی صاحب ہمارے والد کے ماموں تھے حالانکہ وہ ان سے عمر میں چھوٹے تھے۔ اپنے والد صاحب کی کتابیں ہمیں بھی پڑھنے کا موقع ملا تھا‘ بلکہ لڑکپن میں ہم نے ایک گھوڑے کی لات بھی کھائی تھی۔ معاف کیجئے، یہاں سیاست کے گھوڑوں پر بات کرتے کرتے ہم کہاں پہنچ گئے۔ آئیے، اب اپنے گھوڑوں کی بات کریں۔
آج کل ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اسے ہماری ایک ممتاز شاعر عشرت آفریں نے نہایت درد مندی کے ساتھ اپنی ایک نظم نما غزل میں بیان کر دیا ہے۔
یہ کیسی مارا ماری کا ہے موسم
بڑی بے اعتباری کا ہے موسم
سوائے صبر چارہ کچھ نہیں ہے
عجب بے اختیاری کا ہے موسم
چلی آتی ہیں پے در پے گھٹائیں
مسلسل اشک باری کا ہے موسم
یہاں الفاظ معنی کھو چکے ہیں
اک ایسی بے قراری کا ہے موسم
کھلے ہیں گل فقط قبروں کی خاطر
یہ کس بادِ بہاری کا ہے موسم
لیکن اسی صورت حال میں ہمارے ہاں ایسے معقول اور صائب الرائے افراد بھی موجود ہیں‘ جو اس صورت حال پر بہت رنجیدہ ہیں‘ اور چاہتے ہیں کہ اس بدنصیب ملک سے یہ مارا ماری کا موسم جتنا جلد ختم ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ چودھری شجاعت حسین انہی جہاں دیدہ شخصیتوں میں سے ہیں۔ انہوں نے انتہائی درد مندی کے ساتھ ہمارے وزیر اعظم عمران خاں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنی انا کو ایک طرف رکھیں اور اپنے مخالفوں کے خلاف لہرائی جانے والی تلواریں نیام میں ڈال لیں۔ اس وقت اس ملک کو اسی صلح جوئی کی ضرورت ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ چودھری شجاعت نے یہ مشورہ عمران خاں کو دیا ہے‘ اس کا مطلب آپ خوب سمجھتے ہیں‘ یعنی وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابتدا کس طرف سے ہوتی ہے۔ چھیڑ خانی کون شروع کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ مارا ماری ختم ہو جائے تو مخالف بھی خاموش ہو جائیں گے۔ ادھر وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ معیشت کی دگرگوں صورت حال میں ملک کے حالات موجودہ حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ پہلے مخالف جماعتوں کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ وہ عمران خاں کی حکومت گرانا نہیں چاہتے‘ بلکہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پانچ سال پورے کریں‘ لیکن اب حالات نے انہیں اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چودھری شجاعت جانتے ہیں کہ حکومت کے کاموں پر رائے زنی کرنا یا ان کی مخالفت کرنا حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے۔ عمران خاں کے وزیروں کی طرح اس پر آپے سے باہر ہو جانا بالکل مناسب نہیں ہے۔ حکومت اور ان کے وزیروں کو ان کا جواب اپنی کارکردگی سے دینا چاہئے۔ اس ملک کا اصل مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ اس پر توجہ دینا ضروری ہے لیکن یہاں پھر ایک تلخ سوال سامنے آ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خاں صاحب چودھری شجاعت حسین جیسے بزرگ اور تجربہ کار سیاست داں کی بات مان جائیں گے؟ یہ بہت ہی ٹیڑھا سوال ہے اور ہمارے سیاسی مدبروں کو ایسا نہیں لگتا کہ عمران خاں کسی کی بات مان لیں گے۔ اسی لئے ہم نے شروع میں ہی عرض کیا ہے کہ کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ ایک شور ہے جس میں کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ ہم تو یہی سوچ رہے ہیں کہ یہ بے اعتباری اور یہ مارا ماری کبھی ختم بھی ہو گی یا نہیں؟ اور کیا اس بدنصیب ملک کو کبھی چین اور سکون بھی میسر ہو گا یا نہیں؟ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ باقی سیاسی مدبروں کے ساتھ ہمارے شاعر بھی اپنی نظموں اور غزلوں میں کہہ رہے ہیں کہ کیا وہ اسی طرح اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہیں گے؟