اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ یہ محاورہ ہے۔ معلوم نہیں پرانے زمانے میں یہ محاورہ کہاں اور کس موقع پر استعمال کیا جا تا ہو گا؟ اس وقت تو یہ محاورہ اس لئے یاد آیا ہے کہ ہمیں اپنی بھی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہمیں تو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ہمارا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ بیٹھے گا بھی یا نہیں؟ تو کیا ہم منیر نیازی کی زبان میں یہ کہہ دیں؟
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
مگر یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہمارا راستہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ وہ تو ان لوگوں اور جماعتوں نے ہمارا راستہ کھوٹا کیا ہے جنہوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے اس بد نصیب ملک کو اپنی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ آپ ذرا اپنی مختصر سی تاریخ پر غور کیجئے۔ پہلے تو ہر دوسرے مہینے ہماری حکومتیں بدلتی رہیں۔ ایک ذہنی طور پر بیمار گورنر جنرل کسی حکومت کو چلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ جب اس سے نجات ملی تو آمرانہ حکومتوں کا دور شروع ہو گیا۔ ہمیں جمہوریت اور عوام کی آزادی سے ایسا خوف آتا تھا کہ محض مشرقی پاکستان کی اکثریت ختم کرنے کے لئے ون یونٹ بنا دیا گیا۔ اور یہ ون یو نٹ اس وقت ختم ہوا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے در میان اتنی دوریاں پیدا ہو چکی تھیں کہ ہمارا ایک بازو ہی ہم سے الگ ہو گیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا‘ اور آج وہی بنگلہ دیش، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی غربت اور آبادی کی کثرت کی وجہ سے زیادہ دن نہیں نکال سکے گا اور ہمیشہ دوسروں کا محتاج رہے گا، آج سماجی اور معاشی طور پر ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ وہاں جمہوری ادارے اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ کسی آمر اور غاصب کی نظر اس کی طرف جا ہی نہیں سکتی۔ ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے مسلمان اپنے عقائد میں ہم سے زیادہ مضبوط و محفوظ ہیں۔ ہم نے اپنے تجربے کی بنیاد پر اس لئے کہا کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ہم نے اس وقت کے مشرقی پاکستان کو بہت قریب سے دیکھا تھا‘ اور اپنے ایک افسانے میں یہ بھی لکھا تھا کہ مغربی پاکستان کا مزدور جب کوئی بوجھ اٹھاتا ہے تو وہ مختلف قسم کی بے معنی آوازیں لگاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کا مزدور جب بوجھ اٹھاتا ہے تو اس کے منہ سے ''اللہ بولو‘‘ کی آوازیں نکلتی ہیں۔ ''اللہ بولو‘‘ کی یہ آوازیں ہم نے اپنے کانوں سے سنی تھیں، اور اس وقت کے مغربی پاکستان والوں کو بھی سنائی تھیں۔
یہاں یہ ساری کتھا سنانے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بنگلہ دیش جیسے مسلمان ملک میں نہ اسلام کو کوئی خطرہ ہے اور نہ وطن کی محبت کو کوئی خدشہ۔ اور یہاں اپنا حال یہ ہے کہ ہمیں بار بار ڈرایا جاتا ہے کہ ہمارا دین اور ہمارا ایمان خطرے میں ہے۔ اپنے وطن کے ساتھ ہماری وفاداری اور ہماری محبت پر بھی بار بار شک کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اسمبلیاں ایسے ایسے قانون بنا رہی ہیں جن کا سہارا لے کر کسی ایک شخص کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے ہیں کہ وہ بیک جنبش قلم ایک ایک سو کتابوں پر پابندی لگا دیتا ہے‘ اور یہ بھی خبردار کرتا ہے کہ ابھی اور کتابوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے‘ ان پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ہم تو صرف یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب ان کتابوں پر پابندی لگائی گئی تھی تو کیا ہمارے علمی اور تدریسی حلقوں میں کسی سے مشورہ بھی کیا گیا تھا یا پھر صرف ایک آدمی کے سنکی پن نے یہ خطرناک قدم اٹھایا ہے؟ معاف کیجئے ہم نے ایک بہت ہی سخت لفظ لکھ دیا ہے لیکن اس کے سوا اورکیا کہا جا سکتا ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ عمران خاں کی حکومت میں فواد چودھری جیسے جی دار وزیر بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کتابوں پر پابندی کو ناپسند کیا ہے؛ البتہ فواد چودھری تو اس کے علاوہ چند دوسرے اہم مسائل پر بھی اپنی آواز بلند کر چکے ہیں‘ مگر اب تک یہی ثابت ہوا ہے کہ ان کی بات کوئی بھی نہیں سنتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہم کس دنیا اور کس زمانے میں زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ علم تجسس اور سوال کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ علمی کتابیں طلبہ میں یہ تجسس پیدا کرتی ہیں۔ جب آپ اپنی نئی نسل سے سوال کرنے کا حق ہی چھین لیں گے تو ہمارا یہ بدقسمت ملک ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہو سکتا ہے؟ آپ اپنے ارد گرد ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے۔ اب آئی فون ہندوستان میں بننے لگا ہے۔ گوگل، ایمازون اپنے پلانٹ لگا کر وہاں سر مایہ کاری کر رہے ہیں۔ ادھر بنگلہ دیش اپنا موبائل فون بنانے کیلئے آسٹریلیا اور یورپ سے معاہدے کر چکا ہے اور ہم یہاں ان کتابوں پر پابندی لگا رہے ہیں جن کتابوں نے ہمارے عقیدے اور ہمارے حبِ وطن کو ابھی تک تو کو ئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ ہمارے سکولوں میں یہ کتابیں ایک عرصے سے پڑھائی جا رہی ہیں۔ کیا آج کتابوں پر پابندی لگانے والوں نے ان بچوں کے عقیدے اور ان کے حبِ وطن میں کوئی کمی محسوس کی ہے؟ کسی نے ہمارے بارے میں ٹھیک ہی کہا ہے کہ ہم گاڑی تو آگے کی طرف چلا رہے ہیں، لیکن دیکھ پیچھے کی طرف رہے ہیں۔ اسی لئے ہم ٹکر پر ٹکر مارتے چلے جا رہے ہیں۔
اردو ناول پر اکادمی ادبیات پاکستان کے خصوصی شمارے
کتابوں کا ذکر ہوا ہے تو ہم یہ خوشخبری بھی سنا دیں کہ اکادمی ادبیات پاکستان نے ساڑھے پانچ پانچ سو صفحے کی دو جلدوں میں اردو ناول پر اپنا خصوصی شمارہ شائع کیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اردو زبان میں جتنے بھی ناول شائع ہوئے‘ ان دو جلدوں میںان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس جانفشانی سے اردو کے جید نقادوں کے وہ مضامین یہاں جمع کئے گئے ہیں‘ جو مختلف اوقات میں انہوں نے ان ناولوں پر لکھے، اس کیلئے اس شمارے کے مدیر اختر رضا سلیمی اور نگراں ڈاکٹر یو سف خشک کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے صحیح کہا ہے کہ اردو ناول پر تخلیقی سطح پر تو بہت کام ہوا ہے لیکن تحقیقی اور تنقیدی سطح پر اتنا کام نہیں ہوسکا جتنا دوسری ادبی اصناف پرہوا ہے۔ اس اعتبار سے ہم اسے پہلا تحقیقی کام کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں لکھا جانے والا اردو کا کوئی ناول ایسا نہیں ہے جس پر ہمارے کسی نامور نقاد کا مضمون یہاں موجود نہ ہو۔ آپ ان مضامین کے ذریعے اس ناول تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کسی چھوٹے بڑے کی، اور مشہور اور غیر مشہور ناول نگار میں تمیز نہیں کی گئی ہے۔
یہاں ہم جب اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کی بات کرتے ہیں تو جہاں ہمیں وہ خوف زدہ لوگ نظر آتے ہیں جنہیں ہر جگہ اپنے عقیدے اور حبِ وطن پر خطرے نظر آتے ہیں وہاں ایسے بہادر اور جی دار لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں‘ جو نئے علوم اورکتابوں کے ذریعے اپنے وطن کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں ۔ یہ جو آج کتابوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے، یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے؛ البتہ ہمیں ایسے عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ہمیں مستقبل کے بجائے ماضی کے دھندلکوں میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست کے کھیل ہیں‘ لیکن ایسی سیاست زیادہ عرصے نہیں چل سکتی۔ ہمیں روشن مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے۔ اس طرح ہمارا سفر رائیگاں نہیں جائے گا۔