ذرا تھوڑی دیر کے لئے ناصر کاظمی کو یاد کر لیجئے اور اس کی آواز میں اپنی آواز ملا کر یہ شعر پڑھ لیجئے
ہم اور آپ تو زمیں کا بوجھ ہیں
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی نے غلط تو نہیں کہا تھا۔ کہاں گئے وہ فراخ دل اور کشادہ دماغ رکھنے والے، جن کے اندر برداشت کا مادہ تھا اور جن کے لئے سیاست ذاتی دشمنی نہیں بنی تھی‘ اور وہ بچوں کی کہانی کا وہ شیر نہیں بنے تھے جو دریا کنارے بکری کے میمنے کو ہڑپ کرنے کے لئے نئے سے نئے بہانے تراش رہا تھا۔ اس وقت جب ایک موذی وبا نے ساری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے‘ ہمارے ملک میں بھی اس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے‘ کاروبار تباہ ہو رہے ہیں‘ بیروزگاری بڑھ رہی ہے‘ غریب آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘ اس وقت ہمارے حکمرانوں کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ پوری قوم کو یک جا اور یک سو کرنے کی پالیسی اپنانا چاہئے تھی اور سیاسی مخالفوں کو اپنا ذاتی دشمن نہیں سمجھنا چاہئے تھا‘ لیکن یہاں اس کے بالکل ہی برعکس کیا جا رہا ہے۔ تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، صرف ایک صوبہ ایسا ہے جس پر ایک اور جماعت کی حکومت ہے۔ اس دوسری جماعت کی حکومت نے تحریکِ انصاف والوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ شاید انہیں یہ غم ہے کہ اس صوبے میں ان کی حکومت کیوں نہیں ہے‘ اسی لئے صبح شام اس صوبائی حکومت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اگر بدعنوانی ہے تو اس صوبے میں۔ اگر کرپشن ہے تو اس صوبے میں۔ اگر مہنگا ئی بڑھی ہے تو اس صوبے کی و جہ سے۔ اب یہ حکومت کا کوئی وزیر ہو یا حکمراں جماعت کا کوئی چھوٹا بڑا کارکن، اس کا کھانا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا جب تک اس صوبے کی حکومت میں دو چار کیڑے نہ ڈال دیئے جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے وہاں کی حکومت کا تیاپانچا کر دیا جا ئے اور وہاں بھی اپنی حکومت بنا لی جائے۔ اور تو اور ہمارے وزیر اطلاعات، جو اتفاق سے ہمارے دوست اور جمہوریت پسند شاعر احمد فراز کے فرزند بھی ہیں، یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اس صوبے میں گورنر راج لگا دیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ملک کا آئین اس کی اجازت بھی دیتا ہے یا نہیں۔ وہ دن ہوا ہوئے جب کسی نہ کسی بہانے کسی ایک صوبے کی منتخب حکومت ختم کر کے وہاں گورنر راج لگا دیا جاتا تھا۔ ان دنوں تو مرکز میں بھی صدر کو یہ اختیار تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی جھوٹا سچا الزام لگا کر عوام کی منتخب حکومت بر طرف کر سکتا تھا۔ یہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہی تھی جس نے صدر کے یہ غیر جمہوری اور آمرانہ اختیارات ختم کر دیئے اور صوبوں کو وہ اختیارات دے دئیے جن کے لئے جمہوری قوتیں ایک زمانے سے آواز اٹھا رہی تھیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے تحریکِ انصاف کے حکمرانوں کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ انہیں یہ اختیار کیوں حاصل نہیں ہے۔
اب یہاں کسی نے ایک اور شوشا چھوڑا اور کہہ دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ فیض صاحب کے کوئی لڑکا نہیں ہوا۔ یہ بات کہتے ہوئے ان صاحب کے سامنے ہمارے وزیر اطلاعات تھے۔ خیر، کوئی اور یہ بات کہتا تو ہم اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے‘ لیکن کشور ناہید کے قلم سے یہ بات نکلی تو ہمیں حیرت ہوئی۔ انہوں نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ اگر سلیمہ ہاشمی کا کوئی بھائی ہوتا تو وہ فیض کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے ہمارے وزیر اطلاعات کے نقش قدم پر چل پڑتا؟ ہو سکتا ہے وہ فیض اور فراز سے بھی زیادہ انقلابی ہوتا۔ ہمیشہ اچھی بات سوچنا چاہئے۔
اب جہاں تک سندھ کی حکومت کا تعلق ہے‘ وہ بھی ایسے دھوبی کے دھلے نہیں ہیں کہ ان کی بدنظمی کو معاف کر دیا جائے۔ پچھلے دنوں کی بارشوں نے اس حکومت کے انتظام و انصرام کا پول بھی کھول دیا۔ ہم تو کراچی کا تماشہ اپنے ٹیلی وژن پر ہی دیکھ رہے تھے۔ بڑی بڑی سڑکیںطوفانی موجوں میں گھرے دریائوں کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ یہ ہم نے کراچی کی سڑکوں پر ہی دیکھا کہ بڑی بڑی موٹر کاریں کاغذ کی کشتیوں کی طرح پانی میں بہی چلی جا رہی تھیں۔ یہ درست ہے کہ اس موسم میں اتنی شدید بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی لیکن اگر اس شہر کی سڑکیں اور گلیاں صاف ہوتیں اور پانی کے نکاس کا بہتر انتظام ہوتا تو یہ تباہی و بربادی نظر نہ آتی۔ اگر لوگوں نے برساتی نالوں اور تنگ گلیوں پر قبضہ کر کے اپنے مکان نہ بنا لئے ہوتے تو بارش کے پانی کے لئے راستے کھلے ہوتے‘ اور آج ہم اس حکومت کی بد انتظامی کا رونا نہ رو رہے ہوتے اور مرکزی حکومت کو اس شہر کی صفائی کا انتظام فوج کے سپرد نہ کرنا پڑتا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس صوبے کی منتخب حکومت کو ہی ختم کر دیا جائے اور دنیا بھر کی جتنی خرابیاں اور برائیاں ہیں اس حکومت کی جھولی میں ڈال دی جائیں۔ جہاں تک ہماری سمجھ میں آیا ہے کراچی شہر کی سب سے بڑی بیماری اس کے انتظام و انصرام کی دو عملی ہے۔ صوبائی حکومت اور شہری حکومت ایک دوسرے پر بد نظمی کا الزام لگاتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں اختیارات کی تقسیم درست طریقے پر نہیں ہوئی ہے اور یہ صرف اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے‘ پورے ملک میں بلدیاتی نظام آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا ہوا ہے۔ بلدیاتی ادارے پوری طرح با اختیار نہیں ہیں۔ صوبائی حکومتیں بھی ان میں دخل دیتی ہیں۔ خاص طور سے مالی امور میں بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہم پہلے بھی عمران خاں صاحب کو یاد دلاتے رہے ہیں، اور ایک بار پھر یاد دلاتے ہیں کہ انہوں نے بلدیاتی نظام کو با اختیار بنانے کا جو وعدہ کیا تھا‘ اسے پورا کر کے دکھائیں۔ اس طرح صوبوں اور بلدیاتی اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا‘ لیکن یہ کہہ تو دیا ہے‘ مگر ہمیں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسمبلیوں کے ارکان اپنے آپ کو صرف قانون سازی تک محدود کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ ترقیاتی کاموں کے لئے انہیں جو فنڈز ملتے ہیں بھلا وہ انہیں کیسے چھوڑ دیں گے؟ اور حکومت انہی کے بل بوتے پر تو چل رہی ہے۔
اب آخر میں اپنا ایک ذاتی مسئلہ بھی پیش کر دیں۔ جب تک لاہور کی فردوس مارکیٹ کے سامنے انڈر پاس بننا شروع نہیں ہوا تھا‘ اس وقت تک ہم زیادہ سے زیادہ دس بارہ منٹ میں اپنے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے۔ ادھر انڈر پاس بننا شروع ہوا اور ہماری مسافت بیس پچیس منٹ تک بڑھ گئی۔ آج کل ہم پہلے مشرق کی طرف جاتے ہیں پھر مغرب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ہم تو دعا کر رہے ہیں کہ یہ انڈر پاس جلد سے جلد مکمل ہو جائے اور ہماری مسافت پہلے سے بھی کم ہو جائے‘ لیکن ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر یہ خبر دے کر ہمیں ڈرا دیا ہے کہ جو ادارہ یہ انڈر پاس بنا رہا ہے‘ اس نے ہی پشاور کی بس سروس بھی بنائی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پشاور کا جو حال ہوا ہے وہی حال ہمارے انڈر پاس کا بھی ہو جائے۔ بہرحال ہم اس وقت کا انتظار کر رہے جب یہ انڈر پاس ہمارے لئے کھول دیا جائے گا۔ اور وہ وقت بھی آ جائے گا جب تین صوبوں کے حکمراں صرف ایک صوبے کی حکمرانی نہ ملنے پر اتنے پریشان نہ ہوں گے۔