میاں نواز شریف نے بھس میں چنگی (چنگاری) ڈال دی۔ یہ ہم برے معنے میں نہیں کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ آگ ہے جو برسہا برس سے اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔ آخر کبھی تو اسے باہر آنا تھا‘ اور وہ باہر آ گئی‘ اور ہر طرف آگ لگ گئی۔ کل جماعتی کانفرنس میں جب میاں نواز شریف یہ تقریر کر رہے تھے تو ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھاکہ یہ وہی نواز شریف ہیں جو برسوں سے یہ سب برداشت کرتے چلے آ رہے تھے۔ کئی ایسے مواقع آئے جب وہ سارا سچ اگل سکتے تھے‘ مگر وہ خاموش رہے۔ اب جو ان پر پڑی ہے تو انہیں یہ یاد آیا ہے کہ پاکستان میں ریاست کے اندر ہی ریاست نہیں ہے بلکہ ریاست سے بالا، اس سے اوپر بھی ایک اور ریاست ہے۔ اس کانفرنس کے بعد چھوٹے بھائی کا یہ انکشاف ہمارے لئے اور حیرت کا باعث بناکہ کانفرنس سے پہلے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے مقتدر حلقوں سے ملا قات بھی کی تھی۔ اب اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اس ملاقات میں گلگت بلتستان کے بارے میں بات ہوئی تھی تو ہم اسے بھی مانے لیتے ہیں؛ البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہیں گلگت بلتستان کے بارے میں بات کرنے کا یہی موقع کیوں ملا تھا؟ سوال بہت سے ہیں اور یقینا ان کے پاس ان کے جواب بھی ہوں گے لیکن میاں نواز شریف کی تقریر سے ثابت ہواکہ کانفرنس سے قبل مقتدر حلقوں سے ملنے والوں کو اس کا علم نہیں تھاکہ میاں نواز شریف اپنی تقریر میں کیا کہنے والے ہیں۔ اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنی تقریر سے بھڑوں کا چھتہ چھیڑ دیاہے۔ اس کے بعد سے اب تک اس تقریر پر جو لعن طعن کی جارہی ہے، یہ اسی کا ثبوت ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب نے یہ باتیں پہلے کیوں نہیں کی تھیں؟ اس کا ایک جواب تو یہ دیا جا رہا ہے کہ جس طرح انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے اس کے بعد وہ اپنے دل کی بھڑاس اسی طرح نکال سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہا جا سکتا۔
اس تقریر کے بعد ہمارے حکمراں حلقوں کا جو رد عمل سامنے آیا‘ وہ بھی کمال کی چیز ہے۔ انہیں ایک تو نواز شریف کی ملک دشمنی یاد آ گئی ہے، اور دوسرے ہندوستان کی خوشی۔ ہمارے ایک وزیر صاحب تو بھارت کے تمام ہی اخبار لے کر بیٹھ گئے اور ایک ایک صفحہ الٹ کر دکھانے لگے کہ ان اخباروں نے نواز شریف کی تقریر پر کتنی بغلیں بجائی ہیں۔ اب اس پر اگر کوئی تبصرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ ہمارا واسطہ تو میاں نواز شریف کی تقریر سے ہے۔ یہ تو ان کے دشمن بھی مانیں گے کہ وہ تقریر نہایت مدلل اور انتہائی مدبرانہ تھی۔ ہم بلاشبہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تقریر میاں صاحب کی پوری سیاسی زندگی کا حاصل تھی۔
انہوں نے یہی تو کہا ہے کہ ہر ادارے کو اپنے قانونی اور آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور یہ یاد دلایا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی منتخب سیاسی حکومت کو دو سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا۔ اب آپ خود ہی اپنی بہتّر تہتر سال کی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے۔ پہلے یہ کام ہماری نوکر شاہی اور سیاسی جغادری کرتے تھے۔ ایوب خاں کے بعد یہ ڈنڈا کسی اور کے ہاتھ میں چلا گیا۔ خواجہ ناظم الدین انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ ان کے زمانے میں ایک تو اینٹی قادیانی مہم چلائی گئی‘ اس کے بعد انہیں قائد قلت کا خطاب دے کر مطعون کیا گیا۔ وہ زمانہ ہم نے بھی دیکھا ہے۔ ان دنوں آٹا یا گندم آٹھ روپے من ہو گئی تھی‘ اسی لئے خواجہ ناظم الدین قائد قلت کہہ کر حکومت سے نکالے گئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نام نہاد سیاسی دور تھا‘ لیکن ہمارا گورنر جنرل ذہنی طور پر قریب قریب معذور ہی تھا۔ ان کی زبان ہمارے افسانہ اور سوانح نگار محترم قدرت اللہ شہاب کے سوا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اب ذرا سوچئے اس بد قسمت ملک کو کیسے کیسے حکمراں نصیب ہوئے۔ ایک اور سرکاری افسر اسکندر مرزا کو جو ترنگ آئی تو اس نے ملک میں مارشل لگوا دیا‘ لیکن یہ بھول گیا کہ یہ مارشل لا زیادہ دیر اس کے ہاتھ میں نہیں رہے گا؛ چنانچہ جس کا حق تھا اس نے اس مارشل لا پر قبضہ کر لیا اور ایسا قبضہ کیاکہ ہمارے بہت سے جغادری ادیب بھی اس کے جھانسے میں آ گئے۔ اب ہم کس کس کا نام لیں۔ وہ سب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں‘ لیکن ایوب خاں کے زمانے میں قدرت اللہ شہاب نے جو پاکستان رائٹرز گلڈ بنائی تھی‘ وہ کیا تھی؟ ایوب خاں کا ایک کارنامہ اور تھا‘ انہوں نے میاں افتخارالدین کے آزاد اور بے باک اخباروں کے ادارے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اس ادارے کا جو حشر ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے‘ لیکن پاکستان میں آزاد صحافت اور آزاد رائے عامہ کا دور ختم ہو گیا۔ ایک تاریخی حقیقت کو بھی فراموش نہ کیجئے۔ جب تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا‘ آزاد صحافت اور آزاد رائے عامہ کی جدوجہد کو بھی تقویت ملتی رہتی تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو ہم بے شمار پابندیوں کے قعر مذلت میں گرگئے۔ اندازہ لگانے کی خاطر اتنا کیجئے کہ آج کے بنگلہ دیش کا اپنی ملک سے مقابلہ کر لیجئے یا بنظر غائر اس حقیقت کا جائزہ لیجئے کہ وہاں ہر ادارہ اپنے اپنے قانونی اور آئینی دائرے میں کام کر رہاہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس نے آج ہمارے زمانے کے بھوکے ننگے مشرقی پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔
اسی تناظر میں آپ میاں نواز شریف کی تقریر پر بھی غور کر لیجئے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ افواج پاکستان کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے محاورے پر عمل کرنا چاہئے لیکن پھر ہمیں اپنے سیاستداں یاد آ گئے۔ وہ سیاستداں جو کل جماعتی کانفرنس سے پہلے کہیں اور جاکر اشیرباد حاصل کرتے ہیں۔ اسی لئے اب اس کانفرنس میں جو فیصلہ کیا گیا ہے کہ اکتو بر سے مرحلہ وار تحریک شروع کی جائے گی تو خاکم بدہن ہمیں اس پر زیادہ یقین نہیں آ رہا۔ دیکھ لیجئے احتساب والوں نے مولانا صاحب کو بھی اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ ان کے بعد دوسروں کی باری بھی آئے گی۔ میاں نواز شریف کے وارنٹ بھی لندن پہنچ چکے ہیں۔
معاف کیجئے، اب ہم انگریزی محاورے کے مطابق sublime سے rediculous کی طرف آتے ہیں۔ اب ہمیں شہباز شریف یاد آ رہے ہیں۔ ہمارے راستے میں فردوس مارکیٹ کے سامنے ایک انڈر پاس بن رہا ہے۔ ہمیں یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ اس انڈرپاس کے بعد ہمارا راستہ سیدھا ہو جائے گا یعنی وہ جو کہتے ہیں راستہ سگنل فری ہو جائے گا۔ اب تو کئی مہینے ہو گئے ہیں‘ ہم ایک طویل فاصلہ طے کرکے اپنے دفتر جاتے ہیں۔ پہلے ہمارے وزیراعظم نے حکم دیا تھاکہ 5 ستمبر تک اسے مکمل کرلیا جائے لیکن ان سے دس دن کی اور مہلت مانگ لی گئی۔ اور کہا گیاکہ 15 ستمبر تک اسے کھول دیا جائیگا۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے، اس تاریخ کو گزرے بھی کتنے دن ہو چکے ہیں۔ اسی لئے تو ہمیں شہباز شریف یاد آتے ہیں۔ اگر آج وہ ہوتے تو اب تک یہ انڈر پاس کب کا بن گیا ہوتا۔