ہر سال جب نوبیل انعام دینے لینے کا موسم آتا ہے توصرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس پر بحث شروع ہو جا تی ہے کہ کسی شخصیت کو یہ انعام کیوں دیا گیا ہے؟اور کسی شعبے میں یہ بحث ہو نہ ہو‘ ادب کے انعام کے سلسلے میں یہ بحث ضرور شروع ہو جا تی ہے کہ جس شخصیت کو یہ انعام دیا گیا ہے ‘کیا وہ ادبی مقام میں ‘اس معیار پر پہنچتی بھی ہے؟باقی سائنس کے جو مضامین ہیں ان کے بارے میں ( ہماری معلو مات کے مطابق) کوئی بحث نہیں ہو تی‘ جیسے ساری دنیا انہیں خاموشی سے قبول کر لیتی ہے‘ کیونکہ وہاں سائنس کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی تھیوری یاکوئی نئی ایجاد دنیا کے سامنے لائی جا تی ہے ۔اب جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ‘ ہم حقیر فقیر تو سائنس کے کسی مضمون پر(اس میں آپ معاشیات بھی شامل کر لیجے) کسی انعام کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔اس لئے ہماری ساری توجہ ادب کے انعام پر ہی رہتی ہے۔اور ہر سال ہم بڑی توجہ سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس ادیب یا شاعر کو انعام دیا گیا ہے‘اسے ہم جانتے بھی ہیں یا نہیں۔ہم نے اسے پڑھا بھی ہے یا نہیں؟ظاہر ہے ‘زیادہ تر یہ مغربی ادیب ہی ہو تے ہیں۔اگرمشرقی ملکوں کے چند ادیبوں کو یہ انعام دیا بھی گیا ہے ‘تو ایسے جیسے ان پر احسان کیا گیا ہو۔یہاں ہم جاپان کو بھی مغربی ملکوں میں ہی شمار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہاں یہ انعام حاصل کر نے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔لیکن ابھی ابھی خیال آیا کہ یہ جو جاپان کے مقبول و معروف ناول نگار ہاروکی مورا کامی ہیں‘انہیں اب تک یہ انعام کیوں نہیں ملا؟ہم توہر سال ہی یہ امید لگائے بیٹھے ہو تے ہیں کہ کم سے کم اس سال تو یہ انعام انہی کو ملے گا۔لیکن ہر سال کسی رپورٹر تک کو تویہ انعام مل جا تا ہے‘انہیں نظر انداز کر دیا جا تا ہے۔
اب رہے ہم غریب‘بے چارے ‘تو ہمارے کئی ادیب تو اس انتظار میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے کہ وہ بھی اس انعام کے حق دار ہیں‘انہیں محض اس لئے نظر انداز کیا جا تا ہے کہ وہ پاکستان جیسے غریب ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ہم یہاں کس کس کا نام لیں جنہوں نے اس انعام کیلئے اپنی نظموں اور اپنے ناولوں کا انگریزی تر جمہ کرایا‘ اوربے شمار سفارشوں کے ساتھ سویڈش اکیڈمی کو بھیجا۔لیکن ڈھاک کے وہی تین پات‘سویڈش اکیڈمی میں شاید ان پر غور ہی نہیں کیا گیا۔بہر حال‘ آج بھی ہمارے ہاں ایسے ادیب و شاعر مو جود ہیں جو اپنی تحریروں کے ترجمے کرا کرا کے تھک گئے ہیں۔ادھر وہ اس محنت سے باز نہیں آتے۔اور ادھرسویڈش اکیڈمی والے اپنی روش نہیں بدلتے۔
اب یہاں ہمیں ایک اور ناول نگار یاد آ گئے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب یو گو سلاویہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا تھا۔ہم غیر جانب دار ملکوں کے ادیبوں کی کا نفرنس میں شر کت کرنے بلگریڈ گئے ہو ئے تھے۔ وہاں ہماری دوستی ایک نو جوان ادیب سے ہو گئی۔وہ بہت ہی کھلا ڈلا آدمی تھا۔دو چار ملاقاتوں کے بعد ہی اس نے بڑے فخر سے بتایا کہ وہ ایک ناول لکھ رہا ہے۔سویڈش اکیڈمی کے کئی ارکان سے اس کے بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس سال تمہارا ناول چھپے گا۔اس سال کا نوبیل انعام تمہارے حصے میں ہی آئے گا۔ یہاں یہ واقعہ ہم نے اس لئے لکھ دیا ہے کہ صرف ہمارے اپنے ملک میں ہی ایسے ادیب موجود نہیں ہیں جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ اس انعام کا مستحق خیال کرتے ہیں‘بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسے ادیبوں کی کمی نہیں ہے جوہر سال نو بیل انعام پانے والوں میں اپنا نام تلاش کرتے ہیں۔
اب آ جا ئیے اس سال کے ادبی انعام کی طرف۔ اس سال بھی سویڈش اکیڈمی نے امریکہ کی ایک شاعرہ کو یہ انعام دے کر ساری دنیا کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔اس خاتون کا نام لوئیزا گلک ہے‘اور وہ نیویارک کی رہنے والی ہیں۔ان کی شاعری اگر ہمارے ہاں کسی نے پڑھی ہے تو وہ ہیں ہمارے نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر ناصر عباس نیّر۔وہ اس کی نظموں کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔لیکن ہمارے ایک اور دوست سیسل شیراز راج نے صرف ا س خاتون کی نظموں کو سراہا ہی نہیں ہے ‘بلکہ انہوں نے ایک نظم کا اردو تر جمہ بھی کر دیا ہے۔سیسل شیراز راج یوں بھی بہت اچھا تر جمہ کر نے والے ہیں۔جس نظم کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے‘اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ نظم ان تین نظموں میں سے ایک ہے جو ایک کردار پرسی فونی پر بُنی گئی ہے۔اب آپ ان کا تر جمہ بھی پڑھ لیجے۔
بھولپن کی دیو مالا/ گر میوں کا ایک دن / وہ میدان میں جا تی ہے اور ہمیشہ کی طرح/ کچھ دیر کیلئے تالاب میں اپنا عکس دیکھتی ہے/ دیکھوں۔۔کوئی تبدیلی۔ کوئی فرق/ نہیں...اسے وہی کمسن لڑکی ملتی ہے/ جو دختریت کے مہیب چغے میں لپٹی ہے...ابھی تک/ پانی میں سورج بہت قریب نظر آتا ہے/ یہ میرا چچا ہے جو ہر وقت مجھ پرنظر رکھتا ہے/ قدرت کی ہر چیز دورو و نزدیک سے اس کی رشتے دار ہے/ میں کبھی تنہا نہیں ہوتی...وہ سوچتی ہے/ اور اس خیا ل کو دعا بنا لیتی ہے/ دعا مستجاب ہو تی ہے... اور موت جلوہ گر ہو تی ہے/ کسی کو کیا خبر کہ وہ کس قدرحسین تھا/ لیکن اسے آج بھی یاد ہے/ یہ بھی کہ اس نے کیسے اسے آغوش میں لیا تھا۔ہاں‘اسی جگہ/ یہ آخری منظر ہے جو اس کی یادوں میں باقی ہے/ اور پھر سیاہ دیوتا اسے بہا لے گیا / اسے وہ سن کر دینے والی کیفیت بھی دھندلی سی یاد ہے/ وہ احساس کہ اب اس سے بچھڑ کے زندہ رہنا ممکن نہ ہو گا/ وہ لڑ کی جوتا لاب میں گم ہو ئی اب کبھی نہیں لوٹے گی/ہاں ‘ ایک عورت واپس آئے گی خود کوڈھونڈتی ہوئی/ اس لڑکی کوڈھونڈتی جو کبھی وہ تھی/ سو اب گا ہے گاہے وہ تالاب پر آتی ہے/ میں اغوا کی گئی تھی...وہ سوچتی ہے/ لیکن نہیں... اس لمحے کا احساس یہ تو نہ تھا/ نہیں...میں اغوا نہیں ہو ئی تھی‘میں نے خود کو پیش کیا تھا/ میں اپنے جسم سے فرار چاہتی تھی/ اور کبھی کبھار تو گویا فیصلہ کرچکتی تھی/ لیکن نا سمجھی کبھی بصیرت کی خواہش نہیں کرتی/ اور ہمیشہ کوئی تصوراتی شے مانگتی ہے/ جو محض اس کے خیال میں وجود رکھتی ہے/ پھر وہ مختلف اسم ایک ترتیب میں...بار بار پکارتی ہے/ موت‘شوہر‘دیوتا‘ اجنبی/ ہر چیز بہت سادہ بہت روایتی سی لگتی ہے / میں ایک عام سی لڑ کی ہی ہوں/ وہ خود کو ...اس لڑکی کویاد نہیں کر پاتی / لیکن اسے لگتا ہے کہ تالاب کوضرور یاد ہو گا/ اور وہی بتائے گا کہ اس کی دعا کا مطلب کیا تھا/ تاکہ وہ ٹھیک طرح سمجھ سکے کہ وہ دعا قبول ہو ئی تھی... یا نہیں
یہ ترجمہ ہم نے یہاں اس لئے پیش کر دیا ہے تاکہ ہمارے شاعروں اور نقادوں کو بھی علم ہو جا ئے کہ نوبیل انعام دینے والے سوچے سمجھے بغیر انعام نہیں دیتے ۔ اور جو شاعر اس امید میں اپنی نظموں کے انگریزی ترجمے سویڈش اکیڈمی کو بھیجتے رہتے ہیں‘ انہیں بھی علم ہو جا ئے کہ انعام کیلئے کس طرز کی نظم ضروری ہے ۔ہمیں امید ہے کہ شیراز راج ‘اس نظم سے منسلک باقی نظموں کا اردو تر جمہ بھی کر دیں گے ۔اب معلوم نہیں‘ سیسل شیراز راج آج کل پاکستان میں ہیں یاباہر کسی اور ملک میں رہتے ہیں۔جب وہ لاہور میں تھے تو انہوں نے انگریزی والے خالد احمد کی اس کتاب کا ترجمہ کیا تھا جس میں مختلف الفاظ کے اصل مصدر بیان کئے گئے ہیں۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لفظ کس زبان میں کس طرح استعمال ہو تا ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے ''لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی ‘‘۔