"MAC" (space) message & send to 7575

اکادمی ادبیات کے نئے منصوبے

پچھلے دو سوا دو سالوں میں علمی،ادبی اور ثقافتی شعبے میں جوکارنامے انجام دیئے گئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ علمی‘ ادبی اداروں کو دربدر کر دیا گیا ہے۔ ہم لاہور کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں اب نہ اکادمی ادبیات کا اپنا کوئی دفتر ہے اور نہ نیشنل بک فائونڈیشن کا۔ اس لئے کہ حکومت ان کے دفتروں کا کرایہ نہیں دے سکتی۔ نیشنل بک فائونڈیشن کو ایوان اقبال میں پھینک دیا گیا ہے، اور اکادمی ادبیات پاکستان کو اردو سائنس بورڈ کے دفتر میں۔ گزشتہ ہفتے اکادمی ادبیات کے نئے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک لاہور آئے تو مقامی ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے ان کی ملاقات اکادمی کے دفتر میں نہیں، بلکہ اردو سائنس بورڈ کے دفتر میں ہوئی کہ اس دفتر کا ایک گوشہ اکادمی کو بھی دے دیا گیا ہے۔ ہم وہاں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اشفاق احمد کی روح کیسے تڑپ رہی ہو گی۔ اشفاق احمد نے حکومت کی گرانٹ سے نہیں بلکہ اردو بورڈ کی کتابوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے یہ عمارت کھڑی کی تھی‘ اور انہوں نے کیسی کیسی کتابیں چھاپی تھیں۔ اب تو یہ سائنس بورڈ بھی یتیم ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے بعد اسے کوئی سربراہ ہی نصیب نہیں ہوا۔ اب یہ بورڈ کسی سربراہ کے بغیر ہی گزارہ کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کوئی سربراہ آئے گا تو اسے تنخواہ دینا پڑے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کو علمی، ادبی اور سائنسی کتابوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ پہلے ہی کم کر دی گئی ہے۔ اب ذہین و فطین طلبہ کو ملنے والے وظیفوں کا کیا ہوا؟ یہ آپ کسی کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے پوچھ لیجئے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے نئے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار لاہور آئے تھے‘ اور وہ یہاں سب سے ملنا چاہتے تھے۔ اردو سائنس بورڈ کے ہال میں یہ اجتماع ہو رہا تھا۔ پورا ہال بھرا ہوا تھا بلکہ بعد میں آنے والوں کو تو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی۔ ڈاکٹر یوسف اردو ادب کے استاد ہیں۔ خیرپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں وہاں یونیورسٹی کا اردو میں جو تحقیقی مجلہ''الماس‘‘ شائع ہوتا تھا، ہم تو اس حوالے سے انہیں جانتے ہیں‘ اور بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ ایسا علمی اور ادبی مجلہ ہمیں کسی اور یونیورسٹی کا نظر نہیں آیا۔ اب تک اکادمی ادبیات کو جو سربراہ ملتے رہے ہیں وہ یا تو شاعر اور ناول نگار ہوتے تھے یا علم لسانیات کے ماہر۔ فخر زماں ناول نگار ہیں، افتخار عارف شاعر اور ڈاکٹر قاسم بگھیو لسانیات کے ماہر۔ گویا پہلی بار اردو ادب کا ایک استاد اس اکادمی کے حصے میں آیا ہے۔ اب یہ بتانے کی تو ضروت ہی نہیں کہ کسی بھی ادارے کی سربراہ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اسی حوالے سے اس ادارے میں کام ہوتا ہے۔ فخر زماں کی ترجیح قومی اور بین الاقوامی سیمینار اور اجتماع تھے۔ ان کے زمانے میں کتابیں بھی شائع ہوئیں، لیکن انہوں نے مختلف موضوعات پر جو قومی اور بین الاقوامی سیمینار کرائے وہ ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ اسی قسم کے ایک بین الاقوامی سیمینار میں بنگلہ دیش کے مندوبین نے بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر بنگلہ دیش کے ایک ادیب نے پاکستان سے شکایت کی کہ ان کے ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر آج تک پاکستان میں سے کسی نے بھی معذرت نہیں کی ہے۔ تب طاہرہ مظہر علی خاں نے ان کی دلجوئی کی۔ فخر زماں نے اس قسم کے کئی مذاکرے کرائے تھے۔ افتخار عارف کی ترجیح پاکستانی ادیبوں کی امداد اور کتابوں کی اشاعت رہی۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے ادبی کانفرنسیں بھی کرائیں لیکن ان کی ساری توجہ عالمی ادب کو اردو میں منتقل کرنے پر رہی۔ ان کے دور میں نوبیل انعام پانے والے ناول نگاروں کی تحریروں کا اردو ترجمہ ہوا اور دوسری کتابیں شائع ہوتی رہیں۔
اکادمی کے نئے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک نے لاہور کے اجتماع میں اپنی جن ترجیحات کی طرف ہماری توجہ دلائی وہ جدید زمانے کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی ادب کی تشکیل نو ہے۔ پاکستانی ادب ہم نے اس لئے کہا کہ وہ صرف اردو زبان اور اس کے ادب کی بات ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کی بات بھی کر رہے تھے۔ وہ اکادمی ادبیات کی شائع کی ہوئی تمام کتابوں کو ڈیجیٹلائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح یہ کتابیں محفوظ بھی ہو جائیں گی اور عام قاری کی دسترس میں بھی رہیں گی۔ اب زمانہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ہے تو کیا اس طرح ہماری کتابیں کنڈل پر بھی دستیاب ہو سکیں گی؟ یہ ڈاکٹر یوسف خشک کے سوچنے کی بات ہے۔ یہاں زبان کا فرق سامنے آ جاتا ہے۔ اب تک کنڈل کی زبان انگریزی ہے۔ بہرحال، ان کی توجہ پاکستان کی تمام زبانوں کی ترقی پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ہر صوبے سے اس کی اپنی زبان میں رسالہ شائع کیا جائے گا‘ جیسے پنجاب کا رسالہ پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری زبان میں ہو گا، پختونخوا کا رسالہ پشتو اور ہندکو میں ہو گا، بلو چستان کا رسالہ بلوچی اور براہوی وغیرہ میں ہو گا۔ اسی طرح سندھ میں رسالہ سندھی زبان کا ہو گا۔ آج کل ادبیات کے نام سے اکادمی کا جو رسالہ شائع ہوتا ہے، وہ اردو میں ہی ہو گا۔ اب یہ رسالہ کیسا ہوتا ہے؟ ہم نے تو آج تک اسے دیکھا ہی نہیں۔ اگر وہ اردو کے دوسرے ادبی جرائد کی طرح ہی ہوتا ہے تو پھر اس کا کیا فائدہ؟ ہم تو کہتے ہیں اسے پاکستان کی تمام زبانوں کے تراجم تک ہی محدود رکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح ایک رسالے میں تمام زبانوں کی نمائندگی بھی ہو جائے گی۔
لاہور کے اجتماع میں جو سفارشات منظور کی گئیں، وہ یہ تھیں: کلاسیکی ادب کو بچوں کے لئے آسان زبان میں از سر نو لکھا جائے۔ اہل قلم کے بین الصوبائی دوروں کا اہتمام کیا جائے۔ مطبوعات کو ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ کانفرنسوں اور دیگر سرگرمیوں میں اہل قلم کی نمائندگی کا معیار بدلا جائے‘ اور زیادہ سے زیادہ اہل قلم کی شرکت یقینی بنائی جائے۔ ایک سفارش یہ بھی کی گئی ہے کہ ادبی رسالوں اور کتابوں کی اشاعت اور ترسیل وغیرہ کے حوالے سے اکادمی کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی جائے‘ اور اکادمی کے لاہور دفتر کے لئے مستقل عمارت کا بندوبست کیا جائے۔ یہ سفارشات بلا شبہ بہت اچھی ہیں‘ لیکن اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں بھی ہیں۔ اب ادبی رسالوں کو ہی لے لیجئے۔ یہاں تو ہر لکھنے والا اپنا ادبی رسالہ نکالتا ہے۔ آپ ایک رسالے کو مالی امداد دیں گے تو باقی سینکڑوں رسالے اس پر اپنا حق بھی جتائیں گے۔ کتابوں کا مسئلہ اور بھی ٹیڑھا ہے۔ ہمیں تو رائٹرز گلڈ یاد آ تا ہے۔ ایوب خاں کے زمانے میں اس گلڈ نے ایک دو ادیبوں کی کتابیں چھاپیں تو باقی پاکستان بھر کے ادیب کھڑے ہو گئے کہ ہماری کتابیں بھی چھاپو۔ اب رہی لاہور میں کادمی ادبیات کے لئے مستقل دفتر لینے کی بات تو کیا حکومت اس کے لئے بھاری بھرکم رقم خرچ کر نے پر تیار ہو جائے گی؟ جس حکومت نے پہلے ہی ان اداروں کو در بدر کر دیا ہے، وہ کہاں سے اتنی رقم لائے گی کہ ان کے لئے مستقل عمارت کا بندوبست ہو جائے۔ رائٹرز گلڈ کی عمارت پر خدا جانے کس کس نے قبضہ کر رکھا ہے۔ وہاں اتنے مقدمے چل رہے ہیں کہ اگر اکادمی نے ادھر توجہ کی تو پھر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکے گی‘ اس لئے حکومت سے ہی لاہور میں اکادمی دبیات کے لئے کرائے پر ایک معقول عمارت حاصل کرنے کی اجازت لی جائے۔ ویسے اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنے ادارے کی اس در بدری میں ہی اپنا کام جاری رکھیں۔ ان کے منصوبے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ آج ہمیں ان کی ہی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں