میں نہیں جانتا قبلہ قبلی۔بات یہ ہے مرے بھائی شبلی۔اکبر الہ آبادی نے یہ مصرع علامہ شبلی نعمانی کو مخاطب کرتے ہو ئے لکھا تھا۔اس کے بعد کیا لکھا تھا؟ یہ ہمیں یاد نہیں۔اگر یہ معلوم کر نا ہو تواردو کے کسی استاد سے پوچھ لیجے۔ہمیں تویہ مصرع احمد فراز کے بارے میں سو چتے ہوئے یاد آیا ہے۔سنا ہے پرو فیسر فتح محمد ملک نے احمد فراز پر کتاب لکھی ہے۔ ہم نے وہ کتاب تو نہیں دیکھی لیکن ہمیں یقین ہے کہ ملک صاحب نے اس نڈ ر اوربہادر شاعر سے متعلق ساری باتیں ہی لکھ دی ہوں گی ۔وہ یاروں کا یار اور مطلق العنان آمروں اور ریاکاروں کا دشمن‘ جس نے اپنے اصولوں اور اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جواس کے دل میں ہواوہ کسی خوف و خطر کے بغیر اس نے صاف صاف کہہ دیا۔وہ منہ پھٹ انسان جس نے سر کاری ملازم ہوتے ہو ئے بھی اپنے وزیر کو شاعر ماننے سے انکار کر دیاتھا۔ کوثر نیازی نے اسے ڈرانے دھمکانے کے تمام حربے استعمال کئے لیکن اس نے ان کی کتاب پر ایک لفظ بھی لکھ کر نہیں دیا۔اس لئے کہ وہ جھوٹ لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے وقت اس نے جو نظم لکھی وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔اسے کال کوٹھری میں بند کر دیا گیالیکن اس نے معافی نہیں مانگی‘حکومت نے خود ہی اسے چھوڑا۔یہ قصہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔
آ مروں اور آمروں کے گماشتوں سے اسے جو نفرت تھی اس کا ایک نمونہ ہم نے اس وقت دیکھا جب ہم ایک بار اس کے ساتھ لا ہور کے نیشنل سنٹر گئے تھے۔ اب ہمیں سن اور تاریخ یاد نہیں لیکن یہ ایوب خاں کی حکومت کے بعد کی بات ہے ۔ہم فراز کے ساتھ لاہور کے نیشنل سنٹر میں کسی سے ملنے گئے تھے۔ہم دونوں وہاں پہنچے تو کو ئی جلسہ ہو رہاتھا۔ہم نے فراز سے کہا: تھوڑی دیر ہم یہاں بیٹھ جا تے ہیں۔ بعد میں ان صاحب سے مل لیں گے ‘لیکن فراز نے اندر جھانکا‘اور فوراً پلٹ آیا۔کہنے لگا: اس جلسے کی صدارت تو وہ شخص کر رہا ہے جو ایوب خاں کا وزیر قانون رہ چکا ہے‘ میں اس جلسے میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔ یہاں ہم ان وزیر قانون کا نام نہیں لکھ رہے ہیں۔ بس اتنا جان لیجے کہ ان صاحب کے صاحب زادے آج کی حکومت کے وزیر ہیں۔یہ تھا احمد فراز۔اس وقت ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر احمد فراز آج ہمارے درمیان ہو تا تو وہ کس کے ساتھ ہو تا؟ کرشن چندر کا وہ کونسا افسانہ ہے جس میں سوال کیا گیا ہے کہ تم مہا لکشمی کے پل کے اس طرف ہو یا اس طرف؟ آج بھی ہم سب کے سامنے یہی سوال ہے کہ ہم پل کے اس طرف ہیں یا اس طرف؟آج ہمارے ملک کے حالات کو جس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے و ہاں سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے یہی ایک سوال رہ گیا ہے۔آج ہمارے ارد گرد لمبی لمبی زبانیں منہ سے باہر نکل آئی ہیں ۔چور اچکے‘جیب کترے‘گرہ کٹ‘بلیک میلر ‘ملک دشمن‘بھارت کے ایجنٹ‘اور آ ستین کے سانپ جیسے القاب بلکہ سرٹیفکیٹ ہیں جوصبح شام بڑی فراخ دلی سے تقسیم کئے جا رہے ہیں۔کل کے بچے‘جن کی مسیں بھی اسی حکومت کے زمانے میں بھیگی ہیں‘اپنے بڑوں کو جن الفاظ میں یاد کر رہے ہیں‘انہیں سوچ کر ہی ہم جیسے پرانی ہڈیوں پر لرزہ طاری ہو جا تا ہے۔اس سے بڑی گالی اور اس سے بڑا الزام اور کیا ہو سکتا ہے کہ کسی شخص یا جماعت کو ملک دشمن اور دشمن کا ایجنٹ کہہ دیا جائے ۔وہ بھی ایک بار نہیں‘بلکہ ان کے سروں پر بار بار یہ ہتھوڑے بر سائے جائیں۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک وزیر کی لفظی جنگ کمزور پڑنے لگتی ہے۔یا اس کی لفاظی ایسے محسوس ہو نے لگتی ہے جیسے یہ بار بار کی سنی اور برتی ہوئی ہے تو فوراً اسے اس کے منصب سے ہٹا دیا جا تا ہے ۔اور ایک اور چہرہ سامنے لایا جا تا ہے‘چاہے وہ پہلے کا دیکھا بھالا ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں تو اس وقت فیاض الحسن چو ہان پر بڑا ترس آیا جب انہیں اطلاع دی گئی کہ اب آپ وہ وزیر نہیں رہے جن کا فرض تھا کہ اٹھتے بیٹھتے حکومت کے مخالفوں کے لتے لیتے رہیں۔جب کسی اخبار والے نے انہیں یہ خبر سنائی تو ان کا چہرہ دیکھنے کے لائق تھا۔ہوائیاں اڑنے لگی تھیں ان کے چہرے پر۔وہ غریب کیا جانتے تھے کہ ان کی دن رات کی محنت کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ وہ بھول گئے تھے کہ ان کی جگہ آنے والی شخصیت کوان سے بھی بڑی طاقت کی پشت پناہی حا صل ہے۔اب ہم صبح شام اس نئی شخصیت کے بھاشن سنیں گے اور یہ بھاشن اس بد نصیب ملک کا سیاسی ٹمپریچر کم کر نے کے بجا ئے ‘اسے اور بھی بڑھانے کی طرف ہی لے جائیں گے۔اور ہم بے چارے عوام ٹیلی وژن چینلزکے ٹاک شو دیکھ دیکھ کر اپنا بلڈ پریشر بڑھاتے رہیں گے۔ کسی نے کہا یہ ٹاک شو دیکھنا بند کردواور ٹیلی وژن کے ڈرامے دیکھا کرو‘لیکن یہ ڈرامے بھی تو گھسی پٹی کہانیوں سے آگے نہیں جا تے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کے سیاسی اور سماجی حالات نے ہمارے عام علمی اور ادبی ذوق کو بھی متاثر کیا ہے اور ہماری حکومت کی طرح ہر چیز پیوندی ہو گئی ہے۔خالص کو ئی چیز بھی نہیں رہی۔
اب کچھ سو چنے سمجھنے والے سمجھا رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان مکالمہ ہو نا چا ہیے ورنہ یہ تو تو میں میں کسی بڑے تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔لیکن یہ مکالمہ ہو تو کیسے؟ دونوں ہی اپنے مچان سے نیچے آنے کو تیار نہیں ہیں ۔ عام طور پر یہ حکمراں جماعت کا کام ہو تا ہے کہ وہ تھوڑی سی لچک دکھاتی ہے ۔اور اپنے مخالفوں کو بات چیت کی دعوت دیتی ہے لیکن یہاں تو گردن اتنی اکڑی ہو ئی ہے کہ اپنے سوا اور کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ان کے سامنے سب حقیر فقیر ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھنا کیسے گورا کریں گے۔اب جہاں تک دوسرے فریق کا تعلق ہے ‘جب وہ لمبی لمبی زبانوں سے اپنے بارے میں طرح طرح کی باتیں سنتے ہیں تو ان کا رویہ بھی سخت ہو تا جا تا ہے ۔ان کے منہ سے بھی ایسی ناگفتہ باتیں نکلنے لگی ہیں جو اگر منہ سے باہر نہ آئیں توخود ان کیلئے اور ملک کیلئے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ انسانی نفسیات کے بارے میں تھوڑا بہت علم بھی رکھتے ہوں تو خوب جانتے ہوں گے کہ آدمی جب غصے میں ہو تو اس کے منہ سے ایسی الٹی سیدھی باتیں نکل ہی جاتی ہیں جن پر اسے خود بھی شرمندہ ہو نا پڑ تا ہے۔
آج کل سیاسی اور تاریخی سوجھ بو جھ رکھنے والوں کی طرف سے جس خطرے کا اظہار کیا جا رہا ہے‘وہ یہ ہے کہ یہ زبانی مار دھاڑ کہیں جسمانی مار دھاڑ تک نہ پہنچ جا ئے۔خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تویہ پورے ملک کیلئے نہایت ہی خطر ناک ہو گا۔یہ دیکھ لیجے کہ حکمراں جماعت کے خلاف پاکستان کی تمام جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔وہ تین بڑے بڑے جلسے کر چکی ہیں۔ ابھی اور بھی شہروں میں جلسے ہوں گے ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ ایسے جلسوں سے حکومتیں نہیں جا یا کرتیں‘ لیکن ایسے جلسوں ‘جلوسوں اور دھرنوں سے حکومتیں کمزور تو ضرور ہو جا تی ہیں‘ اور جب ایسی حکومتیں کمزور ہونے لگتی ہیں تو وہ اپنی طاقت آزمانے پر تل جا تی ہیں ۔اب پی ڈی ایم کے جلسوں کے مقابلے میں حکمراں جماعت بھی اپنے جلسے کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے اور یہیں ہمیں خطرے کی گھنٹی سنائی دے رہی ہے۔
معاف کیجے ہم نے اپنی بات احمد فراز سے شروع کی تھی ‘اور پھر کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔یہ تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج اگر وہ ہمارے درمیان ہو تے تو کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہو تے۔ انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کر نا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔وہ جمہوریت پسند تھے۔ایسی جمہوریت جس میں کسی اور طاقت کا پیوند نہ لگا ہو۔