اس وقت جب ہم یہ سطریں لکھ رہے ہیں تو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ ہمارے سامنے آ گیا ہے۔ اس شخص کا چہرہ جو اب ہم میں نہیں رہا۔ وہ جب بھی ملتے ان کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی۔ ہونٹوں پر جمی ہوئی یہ مسکراہٹ اور سر جھٹک کر کچھ شرمیلے سے انداز میں بات کرنے کا لہجہ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ ہمیں یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ ان دنوں امریکہ میں Absurd ڈرامے کا چرچا تھا اور ساری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی علامتی اور استعاراتی افسانے لکھے جا رہے تھے۔ انہوں نے امریکہ کے مشہور و معروف ڈرامہ نگار ایڈورڈ ایلبی کے ایبسرڈ ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ ترجمہ کتابی شکل میں چھپنے سے پہلے انہوں نے ہمیں دکھایا تھا۔ وہ ترجمہ ہمیں اتنا اچھا لگا کہ ہم نے ان سے اصرار کیا تھا کہ اسے فوراً چھپنا چاہئے۔ اب جہاں تک ہمیں یاد ہے وہ ترجمہ کتابی صورت میں سامنے بھی آیا تھا لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اب ان کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اس کتاب کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ شاید وہ خود ہی ایسا نہ چاہتے ہوں۔ وہ فلسفے کے آدمی تھے‘ اس لئے ان کی زیادہ کتابیں فلسفے سے متعلق ہی ہیں۔ اب یہ برٹرینڈ رسل پر ان کی کتاب ہو یا وجودیت اور وجودی فلسفے پر سارتر سے متعلق ان کی کتاب یا پھر روسو اور والٹیئر پر ان کی چھوٹی چھوٹی کتابیں، ان سب کا تعلق فلسفے سے ہی ہے‘ لیکن انہوں نے صرف فلسفے پر ہی کتابیں نہیں لکھیں بلکہ علم و ادب کی دوسری اصناف پر بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا۔ پہلے وہ ادھر ادھر کام کرتے رہے۔ پھر لاہور میں اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر کا منصب سنبھالا۔ پھر کافی عرصے بعد انہوں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال لیا تھا‘ اور ہم نے ان سے کہا تھا: اب آپ اصل جگہ پر آ گئے ہیں‘ آپ کی جگہ یہی ہے... اور پھر وہ اچا نک ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔
یہ دو تین ہفتے پہلے کی بات ہی ہے۔ اکادمی ادبیات کے محمد جمیل نے فون کیا ''قاضی جاوید غسل خانے میں پھسل گئے تھے‘ ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے‘ اور اب وہ ہسپتال میں ہیں‘‘۔ ہمیں حیرت ہوئی۔ قاضی جاوید تو اتنی محتاط زندگی گزارتے تھے۔ وہ غسل خانے میں کیسے پھسل گئے؟ غسل خانے میں تو ہم پھسلے تھے‘ اور اپنے بائیں بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھے تھے کہ ہم ہمیشہ سے اپنے بارے میں لا پروا رہے ہیں۔ ادھر ہمارے ناول اور افسانہ نگار دوست اکرام اللہ پہلے ہی اپنی ٹانگ کا فریکچر لئے بیٹھے ہیں۔ ان کی ٹانگ کا فریکچر شام کے اس اندھیرے کی وجہ سے ہوا تھا جو اس جگہ چھایا ہوا تھا۔ وہ اندھیرے میں ایک دروازے سے اترتے ہوئے گر گئے تھے۔
محمد جمیل نے قاضی جاوید کے بارے میں اطلاع دی تو ہم نے ہسپتال فون کیا۔ ان کی صاحبزادی سے بات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ آپریشن تھیٹر میں ہیں۔ ان کا آپریشن ہو رہا تھا۔ دو دن بعد ہم نے پھر فون کیا تو قاضی جاوید اپنے خاص انداز اور خاص لہجے میں ہنس رہے تھے۔ ہم نے کہا: یہ آپ نے کیا کر لیا؟ وہ ہنسے ''ذرا دیکھئے تو، میں اتنا پیدل چلنے والا آدمی اپنے کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھا‘‘۔ ہم نے بھی مذاق کیا ''کوئی بات نہیں، اب آپ چھڑی لے کر چلا کریں گے۔ انتظار حسین بھی آخری عمر میں چھڑی لے کر ہی چلتے تھے۔ ان کی ٹانگ کی ہڈی تو چلتے چلتے ہی چٹخ گئی تھی‘‘۔ ہم انہیں یہ بھی بتانا چاہ رہے تھے کہ ہمارے بزرگ اس لئے چھڑی گھماتے ہوئے چلتے تھے کہ اس زمانے میں چھڑی لے کر چلنا عزت اور وقار کی نشانی تھی۔ قاضی جاوید ہماری باتیں سن رہے تھے اور ایسے ہنس رہے تھے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
لیکن، اس کے دو تین بعد صبح ہی صبح محمد جمیل کا فون آیا، ''قاضی صاحب گزر گئے‘‘ ہمیں ایسا زور کا جھٹکا لگا کہ سارا جسم لرز گیا۔ بالکل یقین نہیں آیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے سے کسی کا انتقال تو نہیں ہوتا؟! تو کیا کوئی اور پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں؟ یہ ہم کس سے پوچھیں؟ ہمارے اندر ہمت ہی نہیں ہے کسی سے بات کرنے کی۔ اب ہمیں وہ جھینپی جھینپی، شرمیلی شرمیلی سی مسکراہٹ یاد آ رہی ہے جو ہم اس منحوس کورونا وبا سے پہلے ہر مہینے کے آخری جمعہ کو نیر علی دادا کی نیرنگ گیلری میں دیکھا کرتے تھے‘ لیکن قاضی جاوید کی یہ مسکراہٹ ہی تو ان کا سرمایہ اور ان کی یادگار نہیں ہے۔ ان کا سرمایہ تو فلسفے سے لے کر علم و ادب کے موضوع پر ان کی طبع زاد اور ترجمہ کی ہوئی وہ کتابیں ہیں جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔
ادھر انہی دنوں اردو ادب کو ایک اور صدمہ بھی پہنچا۔ اسلام آباد سے خبر آئی کہ مسعود مفتی بھی ہم میں نہیں رہے۔ کہتے ہیں ان کا انتقال بھی اچانک ہی ہوا۔ ہمیں وہ دن یاد آیا جب مولانا صلاح الدین کے رسالے ''ادبی دنیا‘‘ میں ان کا افسانہ چھپا تھا، لیکن رسالے کے مضامین کی فہرست میں ان کی جگہ ہمارا نام چھپا ہوا تھا۔ یہ ہم دونوں کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اب معلوم نہیں اس وقت انہوں نے کیا محسوس کیا ہو گا لیکن ہم نے اسے اپنی عزت جانا تھا۔ یوں تو مسعود مفتی سرکاری افسر رہے تھے لیکن ان کی پہچان ان کی افسانہ نگاری تھی یا پھر ان دنوں کی یاد جب وہ سرکاری افسر کی حیثیت میں ہی مشرقی پاکستان میں رہے تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنگلہ دیش بنتے دیکھا۔ انہوں نے اس زمانے کی داستان بھی لکھی ہے۔ مسعود مفتی نے بہت لکھا اور مختلف موضوعات پر لکھا لیکن ہم تو انہیں نہایت ہی شریف النفس انسان کے طور پر جانتے ہیں۔ اب یہ ہمارے نقادوں کا کام ہے کہ وہ ان کے افسانوں اور ان کی باقی تحریروں کا جائزہ کس طرح لیتے ہیں۔
اور ابھی ہم یہ لکھ ہی رہے تھے کہ ایرج مبارک نے ایک اور افسوسناک خبر سنائی۔ اردو کے نہایت ہی با وقار نقاد، محقق اور ناول نگار شمس الرحمن فاروقی اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں جسے کورونا کہا جاتا ہے۔ یہ اطلاع الہ آباد سے ان کی صاحبزادی نے دی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ فاروقی صاحب ہسپتال میں ہیں۔ اردو ادب سے ذرا بھی مس رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک شخص کا نام نہیں ہے، وہ اردو ادب کا ایک سکول ہیں، ایک مکتب فکر ہیں۔ انہوں نے رسالہ ''شب خون‘‘ اور اپنی تحریروں کے ذریعے اردو ادب سے تعلق رکھنے والی صرف ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کی پرورش کی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو ادب کیلئے جتنا کام کیا، وہ کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان کا ناول ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ اردو کے ناولوں میں جدیدکلاسیک کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قدیم شاعروں کی زندگی پر جو افسانے لکھے وہ بھی اپنی جگہ ایک الگ ہی صنف میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم فاروقی صاحب کے بارے میں اور کچھ نہیں لکھنا چاہتے۔ اس وقت ہمیں اور آپ سب کو یہ دعا کرنا چاہئے کہ وہ جلد سے جلد صحت یاب ہو کر ہسپتال سے آ جائیں۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں کہ اس مرض میں مبتلا ہونے والے ہسپتال گئے اور علاج کرانے کے بعد صحت مند ہو کر گھر آ گئے۔ ہمیں یقین ہے کہ فاروقی صاحب کے بارے میں بھی جلد ہی ہمیں اچھی خبر ملے گی۔
اب ہم اور کیا کہیں؟ یہ ہمارے ساتھ، یا یہ کہہ لیجئے کہ اردو ادب کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آئیے، ایک بار پھر ہم شمس الرحمن فاروقی کے لئے دعا کریں کہ الٰہ آباد سے ہمیں اچھی خبر ہی سننے کو ملے۔