نوم چومسکی ہمارے اتنے ہی جا نے پہچانے ہیں جیسے ہمارا کوئی بہت ہی پاپولرا ورمشہور و معروف ادیب۔جہاں تک ہماری معلومات ہیں ‘ان کی تمام کتابوں کا ہی اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ امریکہ کی عالمی پالیسیوں کے سخت نقاد ہیں۔امریکہ کے ساتھ وہ ان بین الاقوامی کارپوریٹ (سرمایہ دارانہ)کمپنیوںکی بھی خوب خبر لیتے ہیں جنہوں نے اس دنیا پر قبضہ جما رکھا ہے ۔آج کل وہ ماحولیاتی آلودگی اور ہمارے کرۂ ارض پر بڑھتی ہوئی حدت‘حرارت یا گرمی سے اس پر بسنے والے انسانوں کو خبر دار کر رہے کہ ہوش کے ناخن لو‘ورنہ یومِ حشر قریب ہے ۔ ادارہ مشعل کی دعوت پر نوم چومسکی اپنی بیگم کے ساتھ پاکستان بھی آ چکے ہیں۔یہاں لاہور میں انہوں نے تقریر کی تھی۔ اس وقت ان کی داڑھی مونچھیںصفا چٹ تھیں‘ لیکن آج کل انہوں نے داڑھی اور مو نچھوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ یوں تو وہ دنیا کے تمام ملکوں کے بارے میں ہی خاصی جانکاری رکھتے ہیں ‘لیکن پاکستان اور اس کے معاشرے کو وہ کچھ زیادہ ہی جانتے ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے کراچی کی ایک یو نیورسٹی میں جو تقریر کی ‘اور اس میں انہوں نے جو باتیں کیں‘ ہم ان کے بارے میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک کا عقل و ہوش رکھنے والا ہر انسان سالہا سال سے یہی کہتا چلا آرہاہے‘لیکن چو نکہ یہ بات چو مسکی جیسے عالمی دانشور نے کی ہے اس لئے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جا تی ہے۔اس تقریر میں چو مسکی نے کہا ہے کہ پاکستان سائنس اور سائنسی فکرسے دور ہٹتا جا رہا ہے اور وہ توہمات کی زد میںآ چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان ہی تھا جہاں نو بیل انعام پا نے والے سائنس داں پیدا ہو رہے تھے‘ اوراب ان کی جگہ توہمات نے لے لی ہے ۔ ان کی پوری تقریر آپ اخبار (خاص طور سے کسی انگریزی اخبار ) میں پڑھ لیجے۔ اب آپ ذرا ٹھنڈے دل سے سو چئے‘کیا چومسکی نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ نہیں رکھ دیا ہے؟ہم دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ترقی بھی کر نا چا ہتے ہیں‘اور سائنس اور سائنسی فکرکو اپنے قریب بھی نہیں آ نے دینا چا ہتے ۔
ہمارے ممتاز افسانہ نگار اور نقاد ناصر عباس نیر جب اردو سائنس بورڈ کے سر براہ تھے تو انہوں نے ''سائنسی فکر ‘‘ کے مو ضوع پرایک چھوٹا سا مذاکرہ کرا یا تھا۔وہاں ہمارے معروف شاعر اور استاد تبسم کا شمیری نے دکھے دل کے ساتھ جو بات کی تھی اصل میں ہمارے پورے معاشرے کی وہی پہچان ہے۔ انہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ کلاس روم میں کسی استاد سے کو ئی چبھتا ہوا سوال کیا جا تا تو اس کا جواب ملنے کے بجا ئے الٹی ڈانٹ پڑ جا تی تھی ۔ یہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔اب تو کوئی ایسے سوال کر نے والا بھی نہیں رہا۔ہمارے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نے ہمارے بچوں کے ذہن و دماغ بند کر دیئے ہیں ۔ہم جسے تنقیدی فکر کہتے ہیں وہ اس معاشرے میں مفقود ہو چکی ہے۔آپ یہ دیکھ لیجے کہ ہمارے ہاں کس قسم کی کتابیں زیادہ پڑھی جا تی ہیں؟دور کیوں جا ئیے‘آپ اپنے ٹیلی وژن ڈراموں کو ہی دیکھ لیجے۔دیکھئے ‘سب سے زیادہ مقبول کیسے ڈرامے ہوتے ہیں‘انہی سے آپ کواندازہ ہو جا ئے گا۔اب اس کے بعد سائنسی ترقی کا سو چنا بھی ایک خواب نہیں تو اور کیا ہے۔
یہ باتیں ہم اپنے ملک اور اپنے معاشرے کے عام لو گوں کے بارے میں کر رہے ہیں۔ان میں ہمارے سیاسی حکمراں بھی شامل ہیں۔ بس‘تھوڑی بہت تسلی ہو تی ہے توان معدودے چند دانشوروں ‘ادیبوں اور استادوں کی تحریروں سے ہو تی ہے جنہوں نے اس قیامت خیز زمانے میں بھی اپنے قلم کی حرمت برقرار رکھی ہے۔اور وہ اپنے مضامین اور اپنی کتابوں کے ذریعے سائنسی اور تنقیدی فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔لیکن ایک دو کے سوا باقی یہ سب لکھنے والے اس زبان میں نہیں لکھ رہے ہیں ‘جس کی وساطت سے وہ عام آدمی تک پہنچ سکتے ہوں۔وہ انگریزی زبان میں لکھتے ہیں ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ انگریزی زبان میں جو سچی اور کھری باتیں برداشت کر لی جاتی ہیں وہ اردو میں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ یہاں فوراً فتوے لگ جاتے ہیں۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ اردو میں بھی سائنسی فکر رکھنے والے دانشور اور مصنف مو جود ہیں‘لیکن ان کی تعداد اتنی ہی ہے کہ صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ یہ گنتی کے لکھنے اور بولنے والے پورے معاشرے کی ذہنی ساخت کیسے بدل سکتے ہیں؟ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔حالت یہ ہے کہ امریکہ سے آنے والا چو مسکی ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ سائنس اورسائنسی فکر سے بہت دور چلا گیا ہے اور ہم توہمات کی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ خیر‘ہم نے چو مسکی کی بات بھی سن لی‘ اور حسبِ معمول اسے بھی ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے کہ یہی ہمارا مقدر بن چکا ہے۔
ہم سائنسی فکر کو تو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے لیکن سائنسی ایجادوں سے فائدہ اٹھانے میں ہم کسی سے پیچھے بھی نہیں رہتے۔اب یہی دیکھ لیجے کہ جدید ٹیکنا لو جی سے ہم کتنے فائدے اٹھا رہے ہیں ۔کراچی کی یونیورسٹی میں چو مسکی نے ویڈیو لنک پر تقریر کی۔یہ ویڈیو لنک ہم نے ایجاد نہیں کیا ہے۔اسے ہم نے ان ملکوں اور ان معاشروں سے لیا ہے جو سائنس اور سائنسی فکرپر عمل پیرا ہیں۔ہماری ہر چیز مستعار لی ہو ئی ہے‘لیکن وہ ہمارے کام آ رہی ہے۔آپZOOM کو ہی لے لیجے۔ جب سے کورونا کی وباہمارے سروں پر سوار ہو ئی ہے اور یہ خطرہ پیدا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے قریب جانے سے یہ بیماری لگ جا ئے گی ‘اس وقت سے ہماری ادبی اور ثقافتی تقریبیں بھی زوم پر ہی ہو رہی ہیں۔ اس تقریب میں ہر شر کت کر نے والا اپنے گھر میں اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ہو تا ہے۔دوسرے شرکا اسے دیکھ رہے ہو تے ہیں‘اور وہ دوسروں کو دیکھ رہا ہو تا ہے۔اس طرح آپس میں علمی ‘ادبی اور ثقافتی مسائل پرگفتگو ہو تی ہے ۔فیصل آبادلٹریچر فیسٹیول ہر سال اپنے شہر میں ہی ہو تا تھا‘ لیکن اس سال یہ فیسٹیول ZOOM پر برپا ہوا۔ڈاکٹر شیبا عالم اپنے گھر میں بیٹھی ہر اجلاس کی ایسے میز بانی کر رہی تھیں جیسے وہ سامنے ہی بیٹھی ہوں۔اردو فکشن پر جو بات ہو ئی اس کی میزبان ڈاکٹرنجیبہ عارف تھیں ۔اس میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ہمارے ساتھ ناصر عباس نیر اور امریکہ میں بیٹھے ہو ئے سعید نقوی تھے۔اس اجلاس میں نجیبہ عارف کے سوالوں نے جان ڈالی۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اصل حقیقت سوال ہوتے ہیں ۔ سوال ہی توصحیح جواب پیدا کرتے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس زوم میں وہ مزہ نہیں آتا جو ایک سٹیج پر آمنے سامنے بیٹھ کرباتیں کرنے میں آ تا ہے ۔اس کی تھوڑی بہت کسر ویڈیو لنک میں نکل جا تی ہے‘ لیکن شاید وہ خاصا مہنگا سودا ہے۔ ہاں‘کراچی میں احمد شاہ نے جو تیرہویں اردو کانفرنس کی اس میں انہوں نے دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھایا۔ اول تو پاکستان کے مختلف شہروں سے ان کے مہمان کراچی ہی پہنچ گئے تھے‘ جو وہاں نہیں پہنچ سکے انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے انہیںاس میں شامل کر لیا‘ لیکن احمد شاہ تو یہ کام شروع سے ہی کر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان میں بیٹھے ہو ئے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو کئی باراس کانفرنس میں شریک کر چکے ہیں۔ اس بار چو نکہ شمیم حنفی بھی پاکستان نہیں آ سکے تھے اس لئے انہیں بھی اسی طرح شامل کیا گیا۔
بہر حال‘یہ سب باتیں نوم چو مسکی کی تقریر سے ہی یاد آ ئی ہیں ۔تو کیا ہم کبھی پوری سنجیدگی کے ساتھ چو مسکی کی باتوں پر سوچ بچار کریں گے؟ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ البتہ جو معدودے چند دل جلے دانشورپہلے ہی ہماری اس بیماری کا ذکر کرتے رہتے ہیں وہ اسی طرح اپنا دل جلاتے رہیں گے ۔