ایک طویل غیر حاضری کے بعد یہ کالم آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک چھوٹا سا حادثہ اس غیر حاضری کا سبب بنا۔ اس حادثے نے ہمارا اٹھنا بیٹھنا بھی مشکل بنا دیا تھا۔ خیر، اب ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ اپنے پڑھنے والوں سے بات کر سکیں۔ بھلا، اب آپ ہی بتائیے، آج کل ہمارے وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ آپ کی سمجھ میں آ رہا ہے؟ کم سے کم ہماری سمجھ میں تو نہیں آ رہا ہے۔ اچانک ایک شور اٹھتا ہے، اور لگتا ہے جیسے یہ شور انگیز طوفان سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ ایک جلسہ ہوتا ہے، دوسرا ہوتا ہے، تیسرا ہوتا ہے۔ پھر جنوری کی آخری تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے کہ اس تاریخ تک ہمارے وزیر اعظم استعفا دے دیں گے‘ اور پھر وہ تاریخ بھی گزر جاتی ہے اور حکومت کے چھتنار پیڑ کا ایک پتا تک نہیں گرتا۔ جنوری کی آخری شام ایک ٹیلی وژن اینکر اپوزیشن کے ایک لیڈر سے سوال کرتے ہیں کہ اب تو چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں، کیا آپ واقعی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان گھنٹوں میں کچھ نہ کچھ ہو جائے گا؟ تو ان کی جانب سے جو جواب موصول ہوتا ہے، اسے سن کر ہمارا تو ہنسی کے مارے برا حال ہو جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: اگر وزیر اعظم میں غیرت ہو گی تو وہ یقینا استعفا دے دیں گے۔ سبحان اللہ‘ اگر اتنی سی ہی بات تھی تو آپ نے یہ پورے ملک میں ہنگامہ کیوں مچا رکھا تھا؟ استعفے غیرت کے نام پر دیے جاتے ہیں؟
ادھر ایک تماشا اور ہوا۔ لندن سے ایک بیانیہ سامنے آیا کہ ہماری لڑائی اس حکومت سے نہیں ہے بلکہ اس حکومت کو برسرِ اقتدار لانے والوں سے ہے۔ اب اس پر بحث شروع ہو گئی۔ ایک گروہ اس بیانیے کے حق میں بڑھ چڑھ بیان دینے لگا، تو دوسرا گروہ اس سے اپنا دامن بچاتا رہا۔ یہ سلسلہ بھی خوب چلتا رہا۔ آخر جنوری کی آخری تاریخ آ گئی تو سب کچھ ہی الٹ پلٹ ہو گیا۔ اب لندن سے بھی یہ بیان آنے لگا کہ ہم تو یہ حکومت لانے والوں کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم تو بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ جو کچھ بھی اب تک ہو رہا تھا ان خوش فہمیوں کی وجہ سے ہو رہا تھا‘ جو کہیں نہ کہیں سے ہمارے دماغوں میں بھر دی گئی تھیں۔ یہ کہیں نہ کہیں ہم نے اس لئے کہا کہ ہمارے ہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا یا چھوٹا ہاتھ ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کے ہمدرد ایک کالم نگار کو تو اب بھی یقین ہے کہ جنوری کے آخر تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں مولانا سے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوئی ہو گی۔ کیا بات ہوئی ہو گی؟ اور کیوں یہ بات ہوئی ہو گی؟ اس کی وضاحت وہ نہیں فرماتے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ جسے پیا چاہیں وہی سہاگن۔
ہم نے عرض کیا نا کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر آپ کی سمجھ میں آتا ہو تو ہمیں بھی سمجھا دیجئے‘ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو شاید خود بھی علم نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونا چاہیے؟ اور کچھ نہیں تو بیٹھے بٹھائے انہیں خیال آیا کہ ملک کی ترقی کے لئے طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ اور چونکہ جمہوری حکومت ایک محدود مدت تک ہوتی ہے‘ اس لئے یہ عرصہ اس کے لئے کافی نہیں ہے۔
اس سے قبل بھی وہ اپنے ہاں رائج نظام پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کبھی انقلابِ ایران، کبھی ریاستِ مدینہ اور کبھی چینی ماڈل کی مثالیں دے چکے ہیں۔ ہر چند روز بعد وزیر اعظم صاحب کا ممدوح نظام تبدیل ہو جاتا ہے۔
ممکن ہے اس وقت ان کی نظر چین اور اس کے نظام پر ہو۔ بعد میں یار لوگوں نے سمجھایا ہو گا کہ یہ پارلیمانی جمہوریت ہی ہے جو دنیا کے اکثر ملکوں میں ترقی کا باعث بنی ہوئی ہے اور چین نے جس طرح ترقی کی وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اب یہاں عمران خاں صاحب کا قصور بھی نہیں ہے، ہر حکم راں یہی چا ہتا ہے کہ ساری عمر وہی حکم رانی کرتا رہے ۔تاج و تخت تاحیات اس کے نام لکھ دیا جائے ، ملک و قوم کا وہ واحد تخت نشین ہواور اس کے احکام کی بجا آوری ایسے ہو جیسے ایک فارسی محاورے میں عام لوگوں کو سمجھایا گیا ہے:
اگر شہ روز را گوید شب است ایں
بباید گفت 'اینک ماہ و پرویں‘
یعنی اگر بادشاہ اپنے عوام سے دن کے وقت کہے کہ یہ تو رات ہے تو فوراً ہاتھ باندھ کر عوام کو عرض کرنا چاہئے کہ آپ بجا فرما رہے ہیں‘ وہ دیکھئے سامنے چاند ستارے نظر آ رہے ہیں۔
اب رہی طویل منصوبہ بندی کی بات تو کیا یہ ضروری ہے کہ آپ کا منصوبہ ملک کے مفاد میں ہی ہو؟ اگر منصوبے کی ابتدا ہی غلط ہو گی تو وہ آخر تک غلط ہی رہے گا۔ آپ نے فارسی کی کہاوت نہیں سنی؟
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی اگر معمار کسی عمارت کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے گا تو وہ عمارت آسمان تک ہی کیوں نہ چلی جائے‘ ٹیڑھی ہی رہے گی۔
ہم نے جو منصوبے بنتے دیکھے ہیں ان کا ایسا نتیجہ تو اب تک ہمارے سامنے نہیں آیا جسے قوم اور ملک سے فائدہ پہنچ رہا ہو۔ زور اس بات پر ہے کہ ان شاء اللہ یہ ہو جائے گا‘ اور ان شاء اللہ یہ ہو جائے گا۔
اب آخر میں سرمد صہبائی کی نئی غزل کے چند شعر پڑھ لیجئے۔ یہ غزل انہوں نے ہمارے آج کے حالات کے مطابق ہی کہی ہے۔ پوری غزل اتنی خطرناک ہے کہ ہم یہاں نقل نہیں کر سکتے؛ البتہ چند شعر آ پ بھی پڑھ لیجئے:
کون رخ دیکھیں کہ ہے سیدھا غلط، الٹا غلط
محمل دیدار میں ہے جلوۂ لیلیٰ غلط
اب کسے خوفِ قیامت کس کو ہو فکرِ حساب
وعدۂ فردا غلط اندازۂ دنیا غلط
چل رہے ہیں ہم نہ جانے کب سے یونہی بے خبر
اور ہے منزل غلط‘ رہبر غلط‘ رستہ غلط
مکتب مہر و وفا میں تربیت پائی مگر
اس نے سمجھایا غلط اور ہم نے بھی سمجھا غلط
لگ چکا ہے اب ہمیں اپنے لہو کا ذائقہ
شہرِ مردم خور میں مردہ غلط‘ زندہ غلط
جانے سرمد کون لکھتا ہے کتابِ زندگی
خط غلط‘ انشا غلط‘ معنی غلط‘ املا غلط
اس آخری شعر سے اسی طرز کا ایک فارسی شعر یاد آ گیا ؎
نسخہ آشفتۂ دیوانِ عمر ما مپرس
خط غلط‘ معنی غلط‘ انشا غلط‘ املا غلط
مجھ سے میری آشفتہ کتابِ زیست کی بابت کچھ نہ پوچھو جس کی لکھائی، عبارت، انشا، معنی سب خراب ہیں۔
یا ایسا ہی ایک شعر کشن کمار وقارؔ کابھی ہے ؎
خود غلط وہ قول و فعل غلط
خط غلط‘ انشا غلط‘ املا غلط