ہم یہ تو جا نتے ہیں کہ ضیا محی الدین ہر سال دسمبر کی آ خری شام کو لاہور کے علی آ ڈیٹوریم میں اپنے ایجاد کردہ فن '' پڑھنت ‘‘ کا مظا ہرہ کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ یہ پڑھنت اتنی مقبول ہو چکی ہے کہ پاکستان میں ادب و فن کے جو بھی جشن منائے جا تے ہیں وہ ضیا محی الدین کی اس پڑھنت کے بغیر مکمل نہیں ہو تے۔ ہماری شاعری میں ترنم سے یا تحت اللفظ شعر پڑھنے کا رواج تو صدیوں سے چلا آ رہا ہے لیکن یہ'' پڑھنت‘‘ نئی چیز ہے۔یوں کہہ لیجے کہ یہ انگریزی لہجے سے اردو میں آ ئی ہے۔ داستان گوئی کا ایک انداز بھی ہماری روایت کا حصہ رہا ہے۔ اس انداز کو بھی ہمارے چند فن کا روں نے دو بارہ زندہ کر نے کی کوشش کی ہے۔یہ کوشش ہندوستان سے شروع ہو ئی تھی اور اب پاکستان میں بھی خوب مقبول ہو گئی ہے ‘ لیکن اردو اور انگریزی نظم و نثر پڑھنے کا جو انداز ہمارے ضیا محی الدین نے اپنایا ہے وہ بالکل ہی منفرد ہے۔ اسے وہ ''پڑھنت ‘‘ کہتے ہیں۔ اب تک ضیا محی الدین پر جو فلمیں بنا ئی گئی ہیں وہ ان کی اس ''پڑھنت ‘‘ سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔لیکن کیا آ پ کو معلوم ہے کہ ضیا محی الدین کی اپنی زندگی پر بھی ایک فلم بنائی گئی ہے ؟بھلا ہمیں یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟یہ فلم پاکستان میں ابھی تک تو دکھائی ہی نہیں گئی ہے۔یہ فلم دکھائی گئی ہے ہندوستان کے جشنِ ریختہ کی تقریبوں میں لیکن ہمارے پاکستانی شائقین کو اب تک یہ فلم دیکھنا نصیب نہیں ہو ئی اور آئندہ بھی شاید نصیب ہو نہ ہو۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں ٹیلی وژن والے تو اس کی ہمت نہیں کر سکتے۔خیر‘ یہ فلم بنائی ہے ہمارے زمانے کے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں کے نہایت ہی منفرد اور مہذب فن کا رنوید ریاض کے صاحبزادے عمر ریاض نے۔اب اگر ہم ضیا محی الدین کی اکانوے سالہ زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی شخصیت کی تصویر ابھرتی جس نے اپنی زندگی کے ہر پہلو سے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور اسے اپنے دیکھنے اور سننے والوں تک بھر پور انداز میں پیش کر نے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے فلموں میں کام کیا‘تھیٹر میں کام کیا‘ریڈیو اور ٹیلی وژن میں کام کیا‘ہالی ووڈ کی جن فلموں میں کام کیا ان میں ہمیں لارنس آف عریبیا کا نام تو یاد ہے لیکن انہوں نے اس کے علاوہ بھی کئی فلموں میں کام کیا ہے۔جہاں تک پاکستانی فلموں میں کام کر نے کا تعلق ہے‘یہان ان کا یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا۔یہ ہم ان کے آغاز کی بات کر رہے ہیں۔ان کی پہلی پاکستانی فلم ہم نے بھی دیکھی تھی۔وہ فلم بری طرح نا کام ہو گئی تھی۔
بعد میں انہوں نے سلمان پیرزادہ کی جن فلموں میں کام کیاوہ فلمیں اپنے مو ضوع اوراپنی تکنیک کے اعتبار سے کامیاب فلمیں تھیں۔تھیٹر میں انہوںنے A Passage to Indiaمیں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے انگریز ی ڈرامے میں ہمیشہ کیلئے اپنا نام منقش کرا لیا۔انگلستان میں تو کافی عرصے وہ ڈاکٹر عزیز کی حیثیت سے ہی جانے جاتے تھے۔پاکستان میں چو نکہ ڈرامے کی روایت نہیں تھی اس لئے یہاں وہ کہیں بھی نمایاں نظر نہیں آ تے۔یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے سٹیج ڈرامے اور ٹیلی وژن ڈرامے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ٹیلی وژن ڈرامہ فلموں کی طرح کہانی پیش کرتا ہے جبکہ سٹیج ڈرامہ اپنے دیکھنے والوں سے رابطہ رکھتا ہے۔وہ اپنے سامنے بیٹھے تماشائیوں سے مخاطب ہو تا ہے۔ جیسے وہ سٹیج پر بھی مو جود ہوں اور سٹیج سے باہر بھی۔ یہاں بات کرنے اور بو لنے کا انداز بھی مختلف ہو تاہے۔ضیا محی الدین چو نکہ سٹیج ڈرامے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ ٹیلی وژن ڈراموں میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی اور یہ انہوں نے اچھا ہی کیا۔
اب جہاں تک عمر ریاض کی فلم کا تعلق ہے ‘تو انہوں نے ضیا محی الدین کے ڈرامائی کردار پر زیادہ تو جہ مر کوز رکھی ہے اور ان کی نظر زیادہ تر ضیا محی الدین کی زندگی کے آخری دور پر رہی ہے۔اس دور پر جب ضیا کراچی میں ڈرامہ اکیڈیمی قائم کرتے ہیں اور پاکستان کے نو جوانوں کو ڈرامے کی تکنیک سکھا تے ہیں۔چند سال کے عرصے میں انہوں نے پاکستانی سٹیج کو ایسے ایسے اداکار دیے ہیں جو کسی اعتبار سے بھی بڑے فن کاروں میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ان میں سے چند فن کار ٹیلی وژن ڈراموں میں بھی نظر آ جا تے ہیں۔ ان کے ادارے '' ناپا‘‘ نے کئی ڈرامے بھی پرو ڈیوس کئے ہیں ‘ ان میں چند تو انگریزی کے مشہور ڈرامے ہیں اورچند اردو کے اوریجنل ڈرامے بھی ہیں۔البتہ عمر ریاض نے اس فلم میں ضیا محی الدین کی زندگی کے اس دور پر اتنی زیادہ توجہ دے دی ہے کہ اس کی وجہ سے ان کی ابتدائی زندگی ہماری نظروں سے اوجھل ہو جا تی ہے اور فلم دیکھنے والا ایک ایسے استاد کے آگے پیچھے ہی چلتا رہتا ہے جو اپنے ادارے میں نئے فن کا روں کی تر بیت کر رہا ہے۔فلم میں یہ کردار بار بار پیش کیا گیا ہے‘جو بعض جگہ مناسب معلوم بھی نہیں ہوتا۔
اب چو نکہ عمر ریاض کو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی فلم بنانا تھی اس لئے انہیں فلم میں ضیا محی الدین کے ساتھ دائود رہبر کا کردار بھی پیش کرنا پڑ گیا۔دائود رہبر اپنی جگہ ایک بہت ہی بلند و بالا کردار تھے۔وہ علم وفن اور فلسفے کے استاد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سنگیت کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔وہ موسیقی کا علم جاننے کے علاوہ خود گاتے بھی تھے۔اردو زبان ایسی لکھتے کہ غالب کے بعد سادہ‘سلیس اور عام بول چال کی زبان جیسے انہی پر ختم ہوگئی ہو۔ہم تو کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اردو زبان پڑھنا اور سیکھنا ہو تو وہ دائود رہبرکو پڑھے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے مکتوب کئی مجموعوں کی شکل میں یہاں مو جود ہیں لیکن یہاں ان کی ایسی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے عرض کیا نا کہ ضیا محی الدین کی فلم میں دائود رہبر کی مو جود گی عجیب سی لگتی ہے۔لیکن یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جہاں ضیا محی الدین کا ذکر آتا ہے تو وہاں ان کے ان رشتے داروں کا حوالہ بھی ضروری ہو جا تا ہے جنہوں نے ضیا کہ زندگی پر بھی اثر ڈالا۔لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ دائود رہبر نے جس انداز کی زندگی گزاری وہ اپنی جگہ ایک پوری فلم کا تقاضا کر تی ہے۔ لیکن ذرا غور کیا جائے تو یہاں معاملہ ہی مختلف نظر آ تا ہے۔ ضیا محی الدین اور دائود رہبر جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ پورا خاندان ہی عام خاندا نوں سے مختلف ہے۔یہاںایک سے ایک پڑھا لکھااور علم وفن میں اپنا منفرد مقام رکھنے والا نظر آتا ہے۔اس پورے خاندان نے اردو زبان و ادب کی وہ خدمت کی ہے جو بہت سے دلی اور لکھنؤ والوں نے بھی نہ کی ہو۔ یوں تو قصور کے بارے میں مذاق کیا جا تاہے کہ ''قصور ‘‘پٹھانوں کا ہے لیکن یہ قصور بڑے غلام علی خاں اور نو رجہاں کا بھی ہے۔اور ہم جب ضیا محی الدین اور دائود رہبر کے حوالے سے سوچتے ہیں تو یہ شہر ان نابغۂ روز گار لو گوں کا شہر بھی معلوم ہو تا ہے۔ اردو زبان و ادب کو اس شہر پر ناز کرنا چاہیے۔ عمر ریاض نے ضیا محی الدین کی زندگی پر فلم بنا کر بڑے حوصلے کا ثبوت دیا ہے۔ ایسے ہر فن مولا قسم کے انسانوں پر فلم بنانا خاصا مشکل کام ہے۔ لیکن یہ کام کسی کو تو کرنا ہی تھا۔