تنازعہ کشمیر-بارود کا ڈھیر

مقبوضہ کشمیر کے عوام نے‘ بی جے پی کو حالیہ انتخابات کے دوران اور بعد‘ جس امتحان میں ڈال دیا ہے‘ وہ اس میں بری طرح سے پھنستی جا رہی ہے۔ بھارت میں شاندار انتخابی کامیابی کے بعد‘ بی جے پی نے یہ سوچ کر مقبوضہ کشمیر پر‘ سیاسی چڑھائی کی تھی کہ وہ بھارت کے باقی علاقوں کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہوئی‘ پہلی مرتبہ ایک بھارتی سیاسی پارٹی کی حکومت قائم کرے گی۔ جب مقبوضہ کشمیر کے تمام سیاسی اور جہادی عناصر نے‘ ماضی کی طرح انتخابات میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو بی جے پی کے قائدین مزید پراعتماد ہو گئے اور یہ سمجھا کہ کشمیریوں کی قوت مزاحمت جواب دے گئی ہے۔ اب وہ انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے اور بی جے پی کے لئے‘ راستہ پوری طرح صاف ہو گیا ہے۔ جب انتخابی نتائج آئے‘ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ‘بی جے پی کے قائدین حیرت زدہ رہ گئے۔ اس وقت تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھے‘ جب کشمیری عوام نے بتایا کہ انتخابات میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ‘ کشمیریوں کے تمام سیاسی طبقہ ہائے فکر کے لیڈروں نے سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بڑھ چڑھ کر مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں حصہ لیا اور نتائج سامنے آئے‘ تو بی جے پی کے حصے میں کل 25نشستیں آئی جبکہ کامیاب ہونے والی دیگر جماعتوں میں‘ کوئی بھی بی جے پی کے ساتھ جانے کو تیار نہ ہوئی۔ ان میں ایک کانگرس تھی اور دوسرے چند آزاد امیدوار۔ کانگرس کے ساتھ بی جے پی کا تعاون ممکن نہیں تھا۔ آزاد امیدوار ‘ بی جے پی کے ساتھ آ بھی جاتے‘ تو اسے حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ اکثریت نہیں مل رہی تھی اور کانگرس کسی قیمت پر بی جے پی کے ساتھ کولیشن میں آنے کو تیار نہیں تھی۔ بی جے پی نے گورنرراج نافذ کر کے‘ کوشش کی کہ پی ڈی پی کو کسی طرح اپنی شرائط پر مخلوط حکومت میں شامل ہونے پرآمادہ کر لے لیکن وہ اپنے مطالبات پر قائم رہی۔ 
دلّی کی حکومت نے سارا زور لگاکردیکھ لیا‘ اسے اپنی حکومت بنانے کے لئے کوئی راستہ نہ مل سکا۔ باخبر حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ سلامتی کونسل میں نشست حاصل کرنے اور اقتصادی طاقت بننے کا خواہش مند ہے‘ تو اسے کشمیر میں حالات درست کرنا ہوں گے۔ حالیہ انتخابات اسی دبائو کا نتیجہ تھے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو بھی مشورہ دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں‘ جو عناصر بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں‘ پاکستان اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے انہیں انتخابی عمل میںرکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکے۔ بی جے پی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جب مسلمان انتخابی عمل میں حصہ لیں گے‘ تو نتائج کیا آئیں گے؟ برآمد ہونے والے نتائج‘ بی جے پی کے لئے حیران کن تھے۔ جس طرح گورنرراج نافذ کر کے‘ بی جے پی کے بیشتر قائدین مصر تھے کہ مقبوضہ کشمیر پر ‘براہ راست حکومت کی جائے‘ اس کے نتائج مزید خطرناک ہو سکتے تھے اور ردعمل میں تحریک آزادی زیادہ زور پکڑ سکتی تھی اور بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعے ریاست پر جو ظالمانہ کنٹرول قائم کر رکھا تھا‘ اسے مزید جاری رکھنا دشوار ہوجاتا۔ انتخابات کے بعد منتخب عوامی نمائندوں کو‘ حکومت سے دور رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ جو کشمیری عوام ‘ انتخابی عمل کے ذریعے‘ ریاستی امور میں شرکت پر آمادہ تھے‘ و ہ بھی باغیوں کے ساتھ مل جاتے۔ شدید ردعمل کی یہی مجبوری تھی‘ جس کی وجہ سے بھا جپا کو پی ڈی پی کی شرائط پر مخلوط حکومت میں شریک ہونا پڑا۔ وزارت اعلیٰ کا منصب پی ڈی پی نے لیا اور بی جے پی کونائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر قناعت کرنا پڑی۔ اس پر بی جے پی کی صفوں میں بے چینی ضرور پیدا ہوئی۔ لیکن وزیراعظم مودی کو دبائو ڈال کر‘ مقبوضہ کشمیر کی بی جے پی کو‘ تعاون پر مجبور کرنا پڑا۔ 
جیسے ہی مخلوط حکومت قائم ہوئی‘ وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے وزیراعظم مودی سمیت بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے حیرت انگیز جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ وہ پُرامن انتخابات کے انعقاد میں حریت کانفرنس اور پار کے ملک (یعنی پاکستان) کے تعاون کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے‘ تو انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے‘ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس واضح اعلان نے بی جے پی کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ بھارت کی طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں‘ پاکستان کی مداخلت کو ناجائز تصور کرتا ہے اور وہ مجاہدین آزادی کے ساتھ کسی بھی طرح کے رابطے گوارا نہیں کرتا۔ کانگرسی حکومت تو حریت کانفرنس کے لیڈروں کے ساتھ پاکستان کے رابطوں پر معترض نہیں ہوتی تھی۔ لیکن بی جے پی کی حکومت نے پاکستانی ہائی کمشنر کے ‘حریت کانفرنس کے لیڈروں کے ساتھ رابطے پر‘ شدید ردعمل ظاہر کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکرٹریز کی سطح پر جو رابطہ طے تھا‘ اسے منسوخ کر دیا۔ گویا پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ توڑ دیا گیا۔ لیکن یہ فیصلہ بدحواسی پر مبنی تھا۔ پاکستان نے بھارت کے اس فیصلے پر غیرمعمولی ردعمل کا مظاہرہ کئے بغیر‘ مذاکرات کی بحالی پر اصرار جاری رکھا۔ آخرکار بی جے پی کی حکومت کو ازخود ہی دوبارہ مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑا۔ دوسری طرف مفتی سعید کے بیان نے بی جے پی کے اندر‘ شدید تنازعات کھڑے کر دیئے۔ پہلے تو‘ بی جے پی میں‘ اسی بات پر شدید اختلاف تھا کہ بھارت کی حکمران جماعت ہونے کی حیثیت میں‘ وہ مقبوضہ کشمیر میں مخلوط حکومت کی سربراہی ایک ایسے سیاستدان کے سپرد کیوں کر رہی ہے؟ جو مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کا دعویدار ہے۔ مفتی سعید نے مخلوط حکومت پر مذاکرات کے دوران اپنا‘ سیاسی موقف ترک کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے مودی سے صاف کہا تھا کہ ہم اپنا یہ موقف کہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت داخلی خودمختاری دی جائے‘ نہیں چھوڑیں گے۔ ہم بی جے پی سے یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمارا موقف تسلیم کرے۔ لیکن ہم بھی اپنا موقف ترک نہیں کریں گے۔مفتی سعید کا یہ موقف بی جے پی کو ہضم نہیں ہو رہا ۔ آخر کار وزیراعظم مودی کو ذاتی طور پر اپنا زور لگا کر‘ پارٹی کو خاموش کرنا پڑا۔ وزیراعلیٰ مفتی سعید کے پہلے ہی بیان پر‘ بی جے پی کے اندر سخت ردعمل پیدا ہوا اور بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں‘ مفتی سعید کے بیان کی زبردست مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ ایسے شخص کے ساتھ مخلوط حکومت ختم کر دی جائے‘ جو کشمیر کو بھارت کا حصہ ماننے پر تیار نہیں۔ لیکن مودی کو وزیراعظم بننے کے بعد‘ بعض ایسے حقائق معلوم ہوئے ہیں ‘ جن کی موجودگی میں بھارت‘ کشمیر کو بی جے پی کی پالیسی کے مطابق ہضم نہیں کر سکتا۔ یاد رہے‘ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ‘کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور بھارت‘ ریاست کو اپنے ملک کا حصہ قرار نہیں دے سکتا۔ بی جے پی نے انتخابی منشور میں دعویٰ کیا تھا کہ آئین کی یہ دفعہ ختم کر کے‘ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ لیکن جب انتخابی نتائج آئے اور بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر میں‘ اپنی جماعت کی حکومت قائم کرنے کی کوششیں کیں‘ تو مودی حکومت کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ چنانچہ بی جے پی کی حکومت اب سخت مشکل میں ہے۔ بی جے پی کی اپنی صفوں اور اپوزیشن کی طرف سے مسلسل مطالبہ ہو رہا ہے کہ مودی حکومت ‘ مفتی سعید کے موقف پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ حکومت کی طرف سے وزیرداخلہ نے‘ ایوان میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمارا مفتی سعید کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بیان وہ اپنے طور پر جاری کر رہے ہیں۔ ہم اپنی پارٹی کے موقف پر قائم ہیں۔ لیکن وزیرداخلہ کے اس بیان پربھی اعتراضات جاری رہے اور یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ وزیراعظم خود ایوان کے سامنے آ کر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ جس پر مودی کو ایوان کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا پڑا‘ جو حیرت انگیز طور پر غیرمتوقع تھا۔ مودی نے کہا کہ ہماری کولیشن انتہائی محدود ایجنڈے کی حدود میں ہے۔ اس سے زیادہ ہم نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ لیکن کولیشن ‘ ریاست میں امن و امان قائم رکھنے کی پابند ہے اور اس معاملے میں ہمارا تعاون جاری رہے گا اور ہم دوسروں کے ہر بیان پر جواب دینے کے پابند نہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب موقف تھا۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ مودی ‘ اپنی جماعت اور اپوزیشن دونوں کو مطمئن کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور وہ مفتی سعید کے بیانات کی مذمت بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے انہیں جواب دینے کے بجائے کہنا پڑا کہ ہم دوسروں کے بیانات پر وضاحتیں کرنے کے پابند نہیں۔ حالانکہ کولیشن حکومت میں شریک جماعتیں‘ حکومتی پالیسی سے اتفاق کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ اس صورتحال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بی جے پی اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے معاملات چلانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ ‘پاکستان اور چین کی رضامندی کے ساتھ حل نہیں کیا جاتا‘ بھارت کو یہ مسائل درپیش رہیں گے اور جیسے جیسے یہ تنازعہ طول پکڑ رہا ہے‘ دنیا کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ‘ اب برابر کی ایٹمی طاقتیں بن چکی ہیں‘ باہمی تنازعات حل نہ کر سکے‘ تو تصادم کو روکنا مشکل ہو جائے گا اور ایسا ہو گیا‘ تو ایٹمی طاقت کا استعمال دنیا کو ناقابل برداشت تباہی سے دوچار کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام بڑی طاقتوں کے تھنک ٹینکس ‘ ایٹمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے پر فکرمند ہیں۔ خود پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو بھی جلد مسئلے کی شدت کا احساس کرنا پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ عظیم انسانی تباہی کی ذمہ داری‘ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں پر آئے۔ لیکن میں یہ تصور کرنے سے بھی قاصر ہوں کہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑی اور کسی ایک فریق نے‘ ایٹمی طاقت استعمال کی‘ تو پھر نتائج دیکھنے کے لئے زندہ کون رہے گا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں