1955ء میں‘ سوویت یونین کی ساری اعلیٰ قیادت نے بھارت کا حیرت انگیز دورہ کیا۔ ماسکو سے دہلی جانے کا راستہ‘ پاکستان کے اوپر سے گزرتا ہے لیکن سوویت حکمران ٹیم‘ مقبوضہ کشمیر کی فضائوں سے گزر کے دہلی پہنچی۔یہ وہ صلہ تھا‘ جو ہم نے سرد جنگ میں‘ امریکہ کا فوجی اتحادی بن کر حاصل کیا۔ آج تک اس کا ٹھوس اور مدلل جواب سامنے نہیں آسکا کہ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف کشیدگی اور محاذآرائی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ سوویت یونین کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ ہم بلاجواز اس کے خلاف فوجی معاہدوں کا حصہ بن گئے اور پاکستانی علاقے سے روس کی سرزمین کی جاسوسی کے لئے ‘امریکیوں کو پشاور میں اڈہ فراہم کر دیا‘ جہاں سے امریکہ کے جاسوس طیارے پرواز کر کے روس کے حساس مقامات کی تصویر کشی کے ذریعے‘ امریکہ کو سٹریٹجک نوعیت کی معلومات فراہم کیا کرتے۔ اس کی نہ تو پاکستانی عوام کو اطلاع دی گئی اور نہ ہی باقی دنیا کو۔ امریکیوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ اس اڈے پر‘ پاکستان کے حکام بھی امریکیوں کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتے‘ یہاں تک کہ ہمارے ایک وفاقی وزیر کو‘ اپنی ہی سرزمین پر موجود اس اڈے کے اندر جانے سے روک دیا گیاتھا۔ دھماکہ اس وقت ہوا‘ جب سوویت یونین نے امریکہ کا یو2طیارہ گرانے کا اچانک اعلان کر دیا۔ پہلے تو امریکیوں نے بوکھلاہٹ میں جواب دیا کہ یہ جھوٹی تہمت ہے‘ ہمارا کوئی طیارہ گرایا ہی نہیں گیا۔اگلے روزماسکو سے اعلان آیا کہ طیارے کا پائلٹ بھی پکڑا گیا ہے۔ اس پر امریکیوں کو اعتراف کرنا پڑا۔ بعد میں خروشیف نے پوری تفصیل بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ طیارہ پشاور کے قریب‘پاکستان کے ایک اڈے سے اڑا تھا‘ جہاں سے جاسوسی کرنے والی پروازیں‘ مسلسل اڑتی ہیں۔ہم نے نقشے میں پشاور پرسرخ دائرہ لگا دیا ہے۔
سوویت یونین اور بعد میں روس کے ساتھ‘ پاکستان کی کشیدگی کی داستان بڑی طویل ہے۔ ہم نے کیوں اپنے وقت کی ایک سپرپاور کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کیا؟ اس کا کوئی معقول جواز آج تک نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ سب سے پہلے تو یہی کہ ہم نے سوویت یونین کی ایک مخالف طاقت کو‘ اپنی سرزمین پر جاسوسی پروازوں کی سہولت فراہم کی‘ جو صریحاً جارحیت تھی۔پاکستان کا روس کے خلاف فوجی معاہدوں میں شریک ہونا بھی بلاجواز تھا۔ سوویت یونین کے خلاف فوجی معاہدوں میں شرکت کر کے‘ ہم نے جو سب سے بڑا نقصان اٹھایا‘ وہ تنازعہ کشمیر پر سوویت یونین کا موقف تھا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں سے روس نے بھی اتفاق کیا تھا۔ اگر ہم روس کے خلاف جارحانہ اقدامات میں مددگار نہ ہوتے‘ تو آج بھی وہ قراردادیں موثر ہو سکتی تھیں‘ لیکن ماضی میں ہمارے متعدد فیصلوں کے نتیجے میں سوویت یونین نے‘ اپنا موقف تبدیل کر کے بھارت کی حمایت کر دی۔ اب کشمیر پر پاس کی گئی قراردادیں قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ دنیا کی کوئی ویٹو پاور ان قراردادوں کو بحال کرنے پر آمادہ نہیں۔ہم نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں سوائے اسلحہ کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ اس وقت کے لیڈر کہا کرتے تھے کہ ہم بھارت کے خلاف فوجی صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ لیکن امریکی اسلحہ‘ بھارت کے خلاف کبھی ہمارے کام نہیں آ سکا۔ 65ء میں تو امریکہ نے اس واضح اعتراض کے ساتھ ہماری فوجی اور اقتصادی امداد بند کر دی تھی کہ ہم نے سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے تحت حاصل کیا گیا اسلحہ‘ بھارت کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان میں جب اقتدار کی داخلی کشمکش ہو رہی تھی‘ تو سوویت یونین نے افغانستان میں حکمران پارٹی کے ساتھ معاہدے کے تحت‘ باغیوں کے خلاف کارروائی کے لئے اپنی فوجیں بھیج دیں۔ ہمارا ان معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ لیکن امریکیوں کو خوش کرنے کے لئے ہم نے افغان حکومت کے باغیوں کو اسلحہ اور تربیت دے کر‘ بھیجنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے‘ ہماری یہ کارروائی سوویت افواج کے خلاف جنگ کے مترادف تھی۔ ہمارے حکمرانوں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے افغانستان آیا ہے اور اب وہ پاکستان پر حملہ کرے گا۔ روسیوں نے آج تک ایسا اقدام نہیں کیا‘ جس سے گرم پانیوں کے تصور کی تصدیق ہو۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ایک عالمی طاقت کو بزعم خود گرم پانیوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لئے‘ ایک طویل جنگ لڑی۔ آج ہم ان گرم پانیوں میں خود ایک بندرگاہ بنا کر چین کے حوالے کر چکے ہیں اور اس پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ظاہر ہو گیا کہ مسئلہ‘ گرم پانی کے تحفظ کا نہیں‘ ہمارے حکمرانوں کے لالچ کا تھا۔ تب انہوں نے امریکیوں سے پیسہ لے کر روس کے خلاف جنگ لڑی اور اب ہم چین سے پیسہ لے کر انہی گرم پانیوں کی سب سے بڑی بندرگاہ چین کے سپرد کرچکے ہیں۔ روس بھی ایک عالمی طاقت تھا۔ چین بھی ایک عالمی طاقت ہے۔ افغانستان میں روسی فوج سے جنگ لڑ کے ہم نے کیا حاصل کیا؟
انتہائی تلخ واقعات کے اس طویل سلسلے کے بعد‘ پاکستانی معاشرے کو تباہی کے منہ میں دھکیل کر‘اب ہم روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جب ہمارا معاشرہ بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ہماری طویل سفارتی جدو جہد کے بعد‘ روس کے صدر پوٹن نے دورۂ پاکستان کا فیصلہ کیا۔ دونوں ملکوں کے مابین‘معاملات طے ہو چکے تھے۔اچانک ماسکو سے اطلاع آئی کہ صدر پوٹن نے اپنا دورۂ اسلام آباد ملتوی کر دیا ہے۔ملتوی کا لفظ محض ایک بہانہ تھا۔ اصل میں دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔اس دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں تیز رفتاری سے تبدیلی آنے لگی اور یہ دونوں سٹرٹیجک اتحادی بن گئے۔بھارت نے امریکہ سے جدید ترین اسلحے کی فراہمی کے بڑے بڑے معاہدے کر لئے۔ کئی عالمی امور میں بھارت نے امریکہ کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔بظاہر آج ہم امریکہ کے ساتھ
معمول کے تعلقات کی بحالی کا دعویٰ کرتے ہیں‘ حقیقت یہ نہیں۔ان دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد ختم ہو چکا ہے۔امریکہ ہم پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور ہم امریکہ پر‘ لیکن دہشت گردوں کی سرگرمیوں نے‘ ہم دونوں کو باہمی تعاون پر مجبور کررکھا ہے۔ہماری طرف سے زورشور سے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ضربِ عضب کے نتیجے میں پاکستان سے دہشت گردوں کے مراکز ختم کئے جا چکے ہیں۔حقیقت میں صورت حال یہ نہیں۔دہشت گرد‘پاکستان سے بھاگ کر افغان سرحدوں کے اندر اپنے مراکزبنا رہے ہیں اور امکان یہ ہے کہ اگلے چند روز میں پھر سے پاکستان کے اندر وہ‘کارروائیاں شروع کرنے والے ہیں۔امریکہ کو ابھی تک شکوہ ہے کہ پاکستان نے''گڈ طالبان ‘‘ کے ساتھ اپنے تعلقات پوری طرح سے ختم نہیں کئے۔یہ ہے وہ صورت حال جس میں متعدد ناکام کوششوں کے بعد‘پاکستان اور روس قریب آنے کے لئے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔فوجی تعاون کے فریم ورک کا ایک معاہدہ کرنے پر‘ قریباً اتفاق رائے ہو چکا ہے۔دونوں ملک اس معاہدے کو تعلقات کے نئے عہد میں‘ سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو روس‘ پاکستان میں دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس کے تحت ‘پاکستان میں گیارہ سو کلو میٹر گیس پائپ لائن تعمیر کی جائے گی ‘ جو کراچی سے لاہور تک جائے گی۔روس نے پاکستان کو گیس کی فروخت کی پیش کش بھی کی ہے۔ اگرروس سے گیس کی سپلائی شروع ہو گئی توپاکستان کو2016ء میں گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔گزشتہ جون میں روس‘پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ختم کر چکا ہے۔ انرجی ڈیل کے بعد‘ ہماری معیشت میں چین کے بعد‘روس کا حصہ بڑھنے لگے گا۔پچھلے عرصے میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ پاکستان اور روس تعاون کو عملی شکل دینے کے قریب پہنچے تھے کہ بھارت نے دبائو ڈال کر‘روس کو واپسی پر مجبور کر دیا۔صدر پوٹن کا مجوزہ دورہ اسلام آباد بھی‘بھارت کے دبائو پرہی منسوخ ہوا تھا لیکن اس مرتبہ روس کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان‘تجارتی اور مالیاتی تعاون کے جو سمجھوتے طے پا رہے ہیں‘ انہیں تمام تر رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔چین کی بھاری سرمایہ کاری کے بعد‘پاکستان میں روس کی دلچسپی ایک نئے عہد کی نوید ثابت ہو گی۔یہ دونوں عالمی طاقتیں جب پاکستانی معیشت کی تعمیر و ترقی میں بھاری حصہ لیں گی‘ تو یورپ اور امریکہ پر ہمارا انحصار ‘ ازخود کم ہوتا چلا جائے گا۔شنید ہے کہ روس نے 50ء کے عشرے میں پاکستان میں جوزیر زمین سرویز کئے تھے‘ ان میں تیل‘گیس اور معدنی ذخائر کی نشاندہی موجود ہے۔ تعاون کا نیا دور شروع ہونے پر‘ اگر روس سے ان خزانوں کے استعمال پر بھی سمجھوتے کر لئے جائیں‘تو ہمارے عوام پر خوشحالی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ دنیا میں ایک نئی طرح کی صف بندیاں شروع ہو چکی ہیں۔ امید کرنا چاہئے‘ اس بار پاکستان خسارے کا سودا نہیں کرے گا اور جو تبدیلیاں رونماہونے جا رہی ہیں‘ان میں ہماراکردار تماشائی کا نہیں‘ایک اہم حصے دار کا ہو گا۔تاریخ ہمیں ایک بار پھر مواقع فراہم کر نے جا رہی ہے۔ دعا ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت‘ماضی کی طرح یہ مواقع ضائع نہ کر دے۔