پاکستان کے لئے نئے مواقع

پاک امریکہ تعلقات‘ سردجنگ کے زمانے ہی سے دوطرفہ تحفظات کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ جب امریکہ اور پاکستان دونوں دفاعی معاہدوں میں شریک ہوئے‘ تودونوں کے مقاصد یکساں نہیں تھے۔ پاکستان بھارت کے خلاف اپنی دفاعی پوزیشن بہتر بنانے کی خاطر ‘ امریکی امداد کا ضرورت مند تھا۔ جبکہ امریکہ ‘ سوویت بلاک کے خلاف پاکستان کی جغرافیائی اور سٹریٹجک پوزیشن کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا خواہش مند تھا۔ گویا دونوں ملک ہی باہمی تعلقات سے متضاد مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ کی ضرورت تھی کہ پاکستان سرد جنگ میں اس کا اتحادی بن کر‘ روس کے خلاف محاذ آرائی اور بوقت ضرورت جنگ میں بھی امریکہ کا ساتھی بنے۔ جبکہ پاکستان کو سوویت یونین سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ امریکی اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کر کے‘ بھارت کے خلاف اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ جبکہ امریکہ کی بھارت سے کوئی مخالفت نہیں تھی۔ وہ غیرجانبدار بھارت کے خلاف پاکستان کی مدد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ متضاد مقاصد کے تحت استوار کئے گئے یہ تعلقات اس وقت شدید دبائو میں آئے‘ جب 1965ء کی جنگ میں پاکستان نے امریکی اسلحہ ‘بھارت کے خلاف استعمال کیا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ہی امریکہ نے بھارت کے خلاف اپنا اسلحہ استعمال ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے‘ پاکستان کو اسلحے اور سپیئرپارٹس کی سپلائی بند کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ سوویت یونین کے مخالف کیمپ کا حصہ بن کر ‘ اس کے دشمن کیمپ میں چلا گیا اور سچی بات ہے‘ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی کارروائیاں بھی کیں۔ہم تو صرف امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے سہولتیں مہیا کر سکتے تھے‘ لیکن سوویت یونین نے ہمیں جو نقصانات پہنچائے‘ ان کی تلافی شاید ہم کبھی نہ کر سکیں۔
سوویت یونین نے ایک ویٹو پاور کی حیثیت سے تنازعہ کشمیر پر بھارت کے حق میں فریق بن کرہماری پوزیشن انتہائی کمزور کر دی۔ ہم ابھی اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ دوبارہ نہیں اٹھا سکے۔ مشرقی پاکستان میں سوویت یونین نے بھارت کا ساتھ دے کر ہمیں بیرونی فوجی امداد سے محروم کر دیا‘ جبکہ ہمیں بھارت اور سوویت یونین کی مشترکہ طاقت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ نتیجہ ظاہر ہے وہی ہوا‘ جو توازنِ طاقت کی مناسبت سے ہو سکتا تھا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی اتحادی حکومت کی مدد کے لئے فوج بھیجی‘ تو ہمارے حکمران بلاجواز سوویت یونین کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد جو کچھ اب تک ہو رہا ہے‘ وہ ہماری تاریخ کا الم ناک باب ہے۔ ہمارے اس زمانے کے نااہل حکمران آج تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کو ہم نے شکست دی‘ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سوویت یونین ‘ امریکہ کے اس اقتصادی دبائو کا شکار ہو کر داخلی انتشار میں مبتلا ہوا‘ جو امریکہ اور اس کے حواریوں نے اس پر ڈالا تھا۔ افغانستان سے روسی افواج کی واپسی‘ پاکستان سے شکست کھا کر نہیں‘ داخلی تضادات اور اقتصادی بدحالی کے نتیجے میں ہوئی۔ اس کے برعکس سوویت افواج کے بغیر افغانستان میں جو خانہ جنگی ہوئی‘ اس کے اثرات براہ راست پاکستان پر پڑے اور ہم آج تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
سوویت یونین کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد‘ نئے روس کو استحکام حاصل کرنے میں طویل عرصہ لگا اور گزشتہ تین عشروں کے دوران روس ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ۔ سوویت یونین کی ساری فوجی طاقت جوں کی توں روس کے حصے میں آئی اور ساتھ ہی قدرتی وسائل سے مالامال روس نے ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے دوبارہ عالمی برادری میں اپنا مقام حاصل کر لیا۔
اس دوران امریکہ‘ افغانستان اور عراق کی جنگیں چھیڑ کر نہ صرف عالمی سطح پر مشکلات کا شکار ہوا بلکہ یورپ اور ایشیا کے جن ملکوں میں اسے اثرورسوخ حاصل تھا‘ وہ امریکی کنٹرول سے آزاد ہونے لگے۔ آج یورپ بھی امریکی غلبے سے نکل چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں میں خودمختار حکومتیں آتی جا رہی ہیں‘ حتیٰ کہ جاپان بھی اپنی آزادانہ قومی پالیسیاں بنانے لگا ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے‘ امریکہ کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو اتنا مجبور کر دیا کہ دوسرے ملکوں کی جنگوںمیں امریکی فوجیوں کو بھیجنامشکل ہو گیا۔ اب اسے پراکسی جنگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ جبکہ سپرپاور ہوتے ہوئے بھی امریکہ کا المیہ ہے کہ اب اسے اپنی عالمی پالیسیوں میں مدد کے لئے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں سے مدد لینا پڑتی ہے۔ امریکہ کی اس بیچارگی کا مشاہدہ کرنا ہو تو عراق‘ شام ‘ لبیا اور لبنان کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے‘ جہاں امریکہ بری طرح سے پھنس چکا ہے اور براہ راست فوجی کارروائی کرنا بھی اس کے اختیار میں نہیں رہ گیا۔
آج حالات نے امریکہ اور پاکستان کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے‘ جہاں ان دونوں میں نہ تو باہمی اعتماد باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی ان کے قومی مفادات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ امریکہ‘ عالمی برادری میں فوجی اور اقتصادی فوائد کے لئے بھارت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ بھارت اس صورتحال کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے‘ امریکہ کی مجبوریوں سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ امریکہ پرامن جوہری توانائی کی تجارت کاسب سے بڑا مخالف تھا۔ اب وہ اتنا مجبور ہو گیا ہے کہ اس نے نہ صرف بھارت کے ساتھ ایٹمی میٹریل کی تجارت شروع کر دی ہے بلکہ آسٹریلیا اور کینیڈا کو بھی اجازت دے دی ہے کہ وہ بھارت کو لامحدود یورینیم فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ آزادی اور سہولت دوسرے کسی ملک کو حاصل نہیں۔کیونکہ بھارت پر یورینیم کی افزودگی کی کوئی حد یا پابندی نہیں۔ بھارت یورینیم کو جس حد تک چاہے افزودہ کر سکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس وقت چاہے ایٹمی اسلحہ تیار کر لے۔ بھارت کے ساتھ تجارت میںامریکہ اپنے کاروباری اداروں کو کسادبازاری سے نکالنے کے لئے تجارتی سہولتیں حاصل کرنا چاہتا ہے‘ لیکن مودی حکومت تجارتی توازن اپنے حق میں بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات خود طے کرنا ہوں گے۔ ماضی میںہمارے حکمران‘ امریکہ سے مدد مانگ لیاکرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ نہ تو امریکہ پر ہمارا کامل انحصار ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے معاملے میں بھارت پر کوئی دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کا تجربہ ہم گزشتہ دس پندرہ سال سے کر رہے ہیں اور مزید تجربات بھی کر لیں گے۔
وقت نے ہمیں امریکہ کی مدد سے آزاد کر دیا ہے۔ اب بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں ہم خود پر انحصار کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ ایٹمی طاقت نے ہمیں بھارتی بلیک میلنگ کے دبائو سے نجات دلا دی ہے۔ روایتی اسلحہ اب بے معنی ہو چکا ہے۔ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی گنتی بھی بے معنی ہو چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کوئی بھی جنگ کا راستہ اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایٹمی اسلحہ نے جو نیا توازنِ طاقت پیدا کیا ہے‘ آئندہ ہمیں باہمی تعلقات کا تعین اسی کی روشنی میں کرنا ہو گا۔ چین نے 46بلین ڈالر کی خطیررقم سے پاکستان میں جو سرمایہ کاری شروع کی ہے‘ وہ ہمیں بہت جلد اقتصادی بحران سے نکال سکتی ہے۔ چند برسوں سے روس بھی ماضی کو فراموش کر کے پاکستان کے ساتھ فوجی اور اقتصادی تعاون کے راستے کھولنا چاہتا ہے۔ روس اور پاکستان دفاعی تعاون پر اتفاق کر چکے ہیں۔ ڈیفنس انڈسٹری میں ہمارے تعاون کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہم دونوں مل کر علاقائی معاملات میں باہمی تعاون کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ روس‘ پاکستان میں 2ارب ڈالر سے 1100 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کرنے والا ہے۔ گیس خودروس فراہم کرے گا۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ یہ فراہمی اگلے سال کے پہلے حصے میں شروع ہو جائے گی۔دفاعی سامان کی تجارت میں پاکستان کو ایم آئی 35 جنگی ہیلی کاپٹربھی فراہم کئے جائیں گے۔ طاقت کے جو نئے مراکز خطے میں ابھر رہے ہیں‘ ان میں چین اور روس کے ساتھ پاکستان بنیادی اہمیت کا حامل ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ میں روس نے بھرپور تعاون کی امید دلائی ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر چین‘ پاکستان اور روس‘ تینوں میں مفادات کی ہم آہنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر لازم ہے کہ مفادات کے محدوددائروں سے نکل کر ان مواقع سے پورا فائدہ اٹھائیں‘ جو پاکستان کے لئے دنیا میں عالمی اور علاقائی سطح پر وسیع کردار ادا کرنے کی راہیں کھول رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں