نئی جنگیں‘ نئے ہتھیار

پہلے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ان سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دہشت گردی کے خلاف‘ امریکی جنگ کافیصلہ کن مرحلہ ابھی نہیں آیااور نہ ہی پاکستان اس جنگ سے نکل سکا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جس جنگ کی امریکہ تیاریاں کر رہا ہے ‘وہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ پہلے اقتباس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔''ہر نئی امریکی حکومت‘ جنوبی ایشیا کی اگلی جنگ پر فکر مند ہوتی ہے جو پاکستان کی مدد سے بھارت پر دہشت گردوں کے حملے کے ساتھ شروع ہو گی۔وہ حقیقی طور پر اس منظر نامے سے پریشان ہوتی ہے۔پھر امریکہ کیوں ایسی پالیسیوں پر گامزن ہے؟ جو مندرجہ بالا امکانات میں کمی کے بجائے اضافہ کرتی ہیں‘‘۔مناسب ہو گا کہ اصل الفاظ بھی نقل کر دئیے جائیں۔
Successive U.S administrations have worried about the next war in South Asia, arguing that the most likely precipitant of that war will be a Pakistan-backed terrorist attack on India. If the United States is truly worried about this scenario, why is it prosecuting policies that make this outcome more likely----not less?
دوسرا اقتباس یہ ہے۔''خوف یہ ہے کہ پاکستان ناکام ریاست کے طور پر زیادہ خطرناک ہے۔کانگرس کے کم حوصلہ اراکین ‘ وائٹ ہائوس ‘ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ اینڈ ڈیفنس کے سٹیٹس کو سے ادھراُدھر ہونے سے گھبرانے والے حکام اور غیر یقینی مستقبل جو ممکنہ نتیجے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے‘ گھبرا رہے ہیں۔ایک بات یقینی ہے‘ ان کی ناکامی ابھی سے حرکت میں ہے اور مزید دہشت گردی اور اموات کو مستقبل میں یقینی بناتی ہے ۔ اس کے لئے انہیں اپنے آپ کو الزام دینا ہو گا‘‘۔ اصل الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
Fearing that Pakistan is too dangerous to fail, pusillanimous members of Congress, as well as officials in the White House and the Departments of State and Defense, are wary of moving away from the status quo and the uncertain future that may ensue. One thing is certain: their failure to act now will ensure more terrorism and more death in the future. And they will have only themselves to blame.
یہ معروف سکالر سی کرسٹائن فیئر کے مضمون"America's Pakistan policy is ..sheer madness"امریکہ کی پاکستان پالیسی مکمل پاگل پن ہے۔ جب میں پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کی تیاریوں اور دعووں کی طرف دیکھتا ہوں اور دوسری طرف مستقبل میں اپنے خطے کے بارے میں‘ امریکی منصوبوں اور پالیسیوں کا جائزہ لیتا ہوں‘ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خطرات کی اصل نوعیت کی طرف ہم یا توجہ نہیں دے رہے یا اس سے غافل ہیں۔
امریکی تیاریوں کا اندازہ کرنا ہوتو زیادہ تجسس کی ضرورت نہیں‘بہت سے آثار واضح ہو کر سامنے آچکے ہیں۔شرق اوسط میں دہشت گردوں کی بھرتی کے جو نئے نئے مراکز کھل رہے ہیں‘ وہ کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔ شام اور عراق کے وہ علاقے‘ جہاں دولت اسلامیہ کے نام سے ایک نام نہا دخلافت قائم ہو چکی ہے‘وہاں دنیا بھر سے دہشت گردوں کی بھرتی ہو رہی ہے۔ان دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد جو شمالی وزیرستان میں جمع ہو گئی تھی‘اب باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت‘ داعش کی طرف منتقل ہور ہی ہے۔ان میں ازبک‘ پختون‘چینی‘چیچن‘جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لشکر جھنگوی اور جند اللہ جیسی متعدد تنظیمیں شامل ہیں اوران بھرتیوں کا یہ دائرہ بہت دور تک پھیلا ہوا ہے اور پھیلتا جا رہا ہے۔مثلاً ان میں بنگالی بھی آرہے ہیں۔بھارت کے باغی مسلمان بھی۔ عرب دنیا کے باغی بھی۔برمی بھی۔ فلپائنی بھی ۔ انڈونیشین بھی اور دنیا بھر کے دیگر انتہا پسند بھی شامل ہیں۔داعش کی زیادہ توجہ بھارت‘ برما اور سنکیانگ پر مرکوز ہے۔ ان کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں مردو زن ‘داعش میں بھرتی ہونے جا رہے ہیں۔داعش کے وسائل عراق اور شام کے مقبوضہ علاقوں سے باہر پراپیگنڈے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔یہ پیغام دنیا کے کونے کونے میں کون پہنچا سکتا ہے؟ کون ان کی بین الاقوامی آمدورفت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ذرا غور کریں تو آسانی سے بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اتنا ہمہ گیر نیٹ ورک‘ صرف انہی طاقتوں کا ہوسکتا ہے ‘ جن کے وسائل غیر محدود ہیں اور وہ طاقتیں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ہیں۔ہم موجودہ افغان حکومت پر بے تابی سے نچھاور ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اشرف غنی کی حکومت کی جڑیں کتنی گہری ہیں؟ طالبان کے ساتھ اس حکومت کو مفاہمت کی کوششوں میں ذرا بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس‘انہوں نے چھاپہ مار کارروائیوں کی انتہا کر دی ہے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ‘اضافہ ہو گا اور آپ اسے بے شک دور کی کوڑی سمجھئے‘ لیکن میری چھٹی حِس کہہ رہی ہے کہ آگے چل کر عبداللہ عبداللہ اور اس کے اتحادی پختون طالبان کے ساتھ مفاہمت کریں گے اور اس مفاہمت کے پیچھے امریکہ ہو گا۔
میرے سامنے ان ہتھیاروں کی لمبی چوڑی فہرست بھی پڑی ہے‘ جو پاکستان کو دینے کے لئے پینٹاگون اور سی آئی اے نے منظور کر کے‘اوباما انتظامیہ کے سپرد کی۔ان میں خصوصی احتیاط رکھی گئی ہے کہ ایسے تمام آلات ‘ ہتھیار اور حکمت عملی کے وہ حصے‘پاکستان کو منتقل نہ کئے جائیں ‘جو امریکہ نے اپنے ملک میں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے‘ چار پانچ سال سے استعمال میں لا رکھے ہیں۔اگر امریکہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے تو خیر سگالی اور انسانیت کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان کو بھی یہ وسائل اور ٹیکنالوجی مہیا کئے جاتے۔بظاہر امریکی دعوے یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی کا مخالف ہے اور یہ کہ بھارت میں بیرونی دہشت گردی کی مخالفت میں بھارت کا ہم خیال ہے لیکن اگر اس کے عمل کو دیکھا جائے تواس کے مقاصد‘ اعلان کردہ پالیسیوں کے برعکس نظر آتے ہیں۔میں نے اوپر جو اقتباس پیش کئے ہیں‘ ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے اعلانات کچھ اور ہیں اور ارادے ان کے برعکس۔
اسلامی دنیا نامی چیز‘خیر کوئی نہیں۔ مسلمان ملکوں کی طرف دیکھا جائے تو ان سب کو مختلف سطحوں پر امریکہ نے ایک دوسرے کے خلاف‘ محاذآرائی کے لئے تقسیم کر رکھا ہے۔ آپ کو صدر اوباما کاحالیہ بیان ضرور یاد ہو گا‘ جو انہوں نے دو دن پہلے دیا تھا کہ ایران سے پابندیاں ہٹنے کے بعد‘ وہ اپنے پڑوس میں جو جارحانہ پالیسیاں اختیار کرے گا‘ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم ‘ایران کا ہدف بننے والوں کو ہر طرح کا اسلحہ مہیا کریں گے۔یہ امریکی پالیسی کے عین مطابق ہے۔ جس جس کے پاس دولت ہے‘انہیں آپس میں کسی نہ کسی طرح سے لڑا دیا جائے اور اپنے ہتھیارو ں کی منڈی گرم کی جائے۔ اس منڈی کو گرم کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔یمن‘شام اور عراق تازہ مثالیں ہیں۔ایران پر ایٹمی ہتھیاربنانے کی پابندی لگا کر امریکہ ‘اسرائیل کی طرف سے مطمئن ہو چکا ہے۔ اسرائیل کا واحد خوف یہی تھا کہ ایران کی ایٹمی تیاریاں جاری رہیں توا یک دن وہ‘ اسرائیل کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کر گزرے گا۔ یہ خطرہ اب پوری طرح سے ختم کیا جا چکا ہے۔آخر میں بھارت کی طرف دیکھیں ‘تو دہشت گردی کو استعمال کرنے کی امریکی پالیسی کا فائنل نشانہ بھارت ہو گا۔ امریکی سٹریٹجی کو سمجھنے والے ماہرین میں‘ اس موضوع پر کھل کر بحث ہو رہی ہے۔ میں نے اسی بحث میں شریک ایک سکالر کی تازہ تحریر سے‘امریکی عزائم کی ایک جھلک دیکھی ہے‘ جو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔اس پس منظر کے ساتھ‘ یہ سمجھنے میں ذرا سی غلطی کی بھی گنجائش نہیں کہ بھارت
اور مسلم دنیا میں مستقل محاذآرائی کی کیفیت پیدا کی جائے‘ تاکہ آنے والے دو تین عشروں کے لئے‘ امریکہ کی سکڑتی ہوئی منڈیوں میں توسیع کے لئے بھارت جیسے بڑے ملک کو شامل کر دیا جائے۔چین نے اس منصوبے کو پوری طرح سمجھ لیا ہے اور وہ چینیوں کی روایتی دانائی اور تدبر کے ساتھ‘امریکہ کے تباہ کن عزائم کی مزاحمت کے لئے ‘اپنے مخصوص انداز میں سرحدوں سے باہر نکل رہا ہے لیکن چینی توسیع پسندی کا انداز‘ مغرب کے جنگی طور طریقوں سے مختلف ہے۔ آنے والے دور میں دو بڑی طاقتوں کے درمیان جو مقابلہ آرائی شروع ہو چکی ہے‘ اس میں دونوں طرف ‘ایک ایک چیز کی کمی ہے۔امریکہ ‘دانائی کا استعمال نہیں کر سکتا اور چین ہتھیاروں کے استعمال پر یقین نہیں رکھتا۔چین نے ہمیں اپنے کیمپ میں شامل ہونے کی دعوت ہی نہیں دی‘عملی اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ یقیناً امریکہ ہمیں اس راستے سے بھٹکانے کی سازشیں کرے گا۔ بنیادی سازش کا ذکر‘ میں اس مضمون کی ابتدا میں کر چکا ہوں۔ہمیں اپنی قیادت سے کیا توقعات رکھنا چاہئیں؟ یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں