ہماری بدنصیبی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین کے مالک ہونے کے باوجود‘ ہم روزبروز پستی اور پسماندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ قدرت نے ہمیں جتنے بھی مواقع دیئے‘ ہم ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے‘ نقصان پر نقصان اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ہم خود اور ہماری قیادت ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد‘ پاکستان میں قیادت کے جو بحران پیدا ہوئے‘ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدت اور وسعت پیدا ہوتی گئی۔ قیادت کا یہی بحران ہمیں 1970ء کے بحرانی دور تک لایا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کے مابین مفاہمت کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ ہمارے اسی اندرونی انتشار کا بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ نتیجے میں ہم ایک ایسی جنگ میں الجھ گئے‘ جس میں فتح حاصل کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کوئی قوم جو داخلی انتشار کا شکار اورکئی گنا بڑے دشمن کے جارحانہ عزائم کی زد پر ہو‘ وہ بیرونی فوج کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟ مشکل یہ ہے کہ آج 44 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود‘ ہم یہ بھی طے نہیں کر پائے کہ 1970ء کے حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ جب بھی ہم تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں‘ باہمی الزام تراشی کے شور میں حقائق کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جو قوم تباہ کن انجام سے دوچار ہونے کے قریباً نصف صدی بعد بھی‘ اپنی تباہی کے اسباب سمجھنے میں ناکام رہی ہو‘ وہ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کی امید کیسے کر سکتی ہے؟ ہمارے پاس پانی کی کمی نہیں، لیکن ہم ابھی تک قدرت کی اس نعمت سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا الزام بھارت کو دے کر ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے بچائو کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ ناسمجھی اور بزدلی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی قوم اپنی ناکامیوں کی وجوہ‘ اپنے اندر تلاش کرنے کے بجائے‘ آسانی سے دشمن کو مورد الزام ٹھہرا کر‘ اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہے، ورنہ خون کے جس دریا سے گزر کے ہم نے آزادی کی دہلیز پر قدم رکھا‘ ہمیں اچھی طرح علم تھا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرے گا۔ ہم روزاول ہی سے بھارتی خطرے کا شور مچاتے آ رہے ہیں، لیکن اس سے بچنے کی تدبیر کبھی نہیں کی۔
بیرونی اسلحہ‘ بیرونی قرضے اور بیرونی جنگی حکمت عملی پر انحصار کرتے ہوئے‘ ہم اپنے دفاع کی راہیں تلاش کرتے رہے۔ ہم نے یہ نہ سوچا کہ امریکہ ہمارے دفاع کے لئے کیوں آئے گا؟ نام نہاد اسلامی بلاک ہمیںبھارتی سازشوں سے بچانے کی کوشش کیوں کرے گا؟ ہم میں ایسی کونسی خوبی یا خصوصیت تھی کہ کوئی دوسرا ملک یا بلاک‘ ہمارے دشمن سے مقابلہ کر کے ہمیں تحفظ دے؟ مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اپنے دفاع پر انحصار کرنے کی بجائے‘ ادھر ادھر کے سہارے تلاش کئے اور سمجھتے رہے کہ فلاں ملک کے اتحادی بن کر ہم محفوظ ہو جائیں گے یا فلاں بلاک میں شامل ہو کر ہم اپنے آپ کو محفوظ کر لیں گے۔ بانی پاکستان نے توایسی کوئی توقع نہیں کی تھی۔ انہوں نے توہمیشہ کہا تھا کہ آزادی کے بعد ہمیں خود اس کا تحفظ کرنا ہو گا۔ دوسروں کی مدد پر بھروسہ کر کے‘ ہم اپنی آزادی کا تحفظ نہیں کر پائیں گے۔ خصوصاً اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے بچنے کے لئے دوسروں کے سہارے ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ قائداعظمؒ کے تصور میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان تھا، جس کی تعمیر اور دفاع کی ذمہ داریاں ہمیں خود پورا کرنا تھیں۔ قائداعظمؒ کے فرمودات کو یاد کریں‘ تو انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بنانے کے بعد ہمیں امریکہ سے مدد لینی ہو گی یا بڑی طاقتوں کی کشمکش میں ہم کسی ایک کے حواری بن کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیں گے۔ قائد اعظمؒ عالمی سیاست کو خوب سمجھتے تھے۔ اگر ان کے چند ابتدائی فیصلوں ہی کو دیکھ لیں‘ تو
ہمیں پتہ چلے گا کہ عالمی سیاست کی کشمکش میں پاکستان کو کیا طرزعمل اختیار کرنا چاہیے تھا؟ پاکستانی عوام اور افواج سے انہوں نے دوران حیات جتنے خطاب کئے اور بطور ایک حقیقی رہنما کے انہوں نے ہماری جو رہنمائی کی‘آج ان کے الفاظ کو دوبارہ نکال کر پڑھیں‘ تو سرندامت سے جھک جاتا ہے کہ بانی پاکستان کی نظر میں ایک آزاد پاکستان کیسا ہونا چاہیے تھا؟ اور ہم نے کیا بنا دیا؟ انہوں نے پاکستان بنانے کے فوراً ہی بعد مسلم لیگ کی قیادت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ درحقیقت یہ ہمارے لئے سبق تھا کہ سیاسی اور حکومتی عہدے یکجا نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم نے کیا کیا؟ جو بھی حکمران بنا‘ اس نے سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں بھی اپنے ہی پاس رکھیں۔ اس طرح نئی ریاست کی بنیادیں ہی تضادات پر کھڑی کر لیں۔ جمہوریت جو پاکستان کی بنیاد تھی‘ اس سے ابتدائی برسوں میں ہی‘ اجتناب کرتے ہوئے‘ مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین اتحاد کا رشتہ ہی کھوکھلا کر دیا۔ ملک کی حکمرانی‘ پر مغربی پاکستان کے بااثر طبقے قابض ہو گئے اورانصاف کی بنیاد پر آئین سازی ناممکن بنا کر رکھ دی۔پاکستان کی بنیاد جمہوریت پر رکھی گئی تھی۔ ایک نیا ملک ہونے کی حیثیت میں لازم تھا کہ ہم سب سے پہلے‘ اپنے ملک کو آئینی بنیاد فراہم کرتے۔ بھارت کے پاس ریاستی ڈھانچہ موجود تھا۔ بیوروکریسی موجود تھی۔ نظام حکومت موجود تھا۔ ہمیں یہ سب کچھ ازسر نو بنانا تھا۔ ایک ایسا ملک جس کے دونوں حصوں میں ہزار میل کا فاصلہ تھا‘اسے یکجہتی اور واحد ریاست کی شکل دینے کے لئے‘ اس بنیاد کی ضرورت تھی‘ جسے آئین کہا جاتا ہے۔نئی ریاست کی تعمیر اس کے بعد ممکن تھی مگر ہماری بدنصیبی کہ افراد کا جو گروہ اقتدار پر
قابض ہو گیا تھا‘ اس نے ملک کی بنیاد رکھنے کے بجائے‘اقتدار پر قبضے کو فوقیت دی اور ایسا آئین بنانے کے لئے کوشاں رہے‘ جس کی آڑ میں اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں۔مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کی خواہش تھی کہ نئے ملک کا آئین جمہوری ہونا چاہئے جبکہ اقتدار پر مسلط چھوٹا سا گروہ‘ مختلف حیلے بہانوں سے اپنا تسلط برقرار رکھنے پر بضد تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے طرح طرح کے عذر ‘بہانے اور دلائل گھڑے۔ہر ایک کا مقصد یہ تھا کہ جمہوریت کے بنیادی اصول‘ یعنی ایک فرد ایک ووٹ کو نظر انداز کر کے‘ کوئی ایسی حجت نکالی کی جائے‘ جس میں اکثریت کو حقِ حکمرانی سے محروم کر کے اقلیتی اقتدار کا راستہ نکالا جائے۔اگر آپ اس زمانے میں آئینی سازی کے عمل پر چھیڑے گئے مباحث کو نکال کر دیکھیں‘تو تعجب ہوتا ہے کہ اقتدار کے بھوکوں نے‘ اس نوزائیدہ مملکت کے ساتھ‘ کیا کیا زیادتیاں کیں؟ کبھی کہا گیا کہ اسلامی نظام ہونا چاہئے۔ اس کے لئے مذہبی رہنمائوں کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ اکثریت کا حقِ حکمرانی ختم کر کے‘ مختلف شرعی حیلے ڈھونڈے جائیں‘ جن کی آڑ میں اقلیت اقتدار پر قابض رہ سکے۔ مشرقی پاکستانی اکثریت نے بہت ہاتھ پائوں مارے کہ جمہوریت کے سیدھے سے اصول کی بنیاد پر‘ فیصلے کرنے کا حق اکثریت کو دیا جائے مگر بدنیت حکمرانوں نے طرح طرح کے مسائل کھڑے کر کے آئین سازی کو مشکل تر بنا دیا۔ آخر کار یہ بے ہودہ بہانہ نکالا گیا کہ یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہے‘ اس لئے مناسب ہوگا کہ دونوں کو برابر کا درجہ دے کر‘آئین سازی کی جائے۔ اس مقصد کے لئے مغربی پاکستان کے چاروں صوبے توڑ کر‘ ا نہیں ون یونٹ میں بدل دیا جائے اور پورے ملک کے دو یونٹ بنا کر‘ مساوی بنیادوں پرشراکت اقتدار کی جائے لیکن یہ فارمولا مغربی پاکستان کے عوام نے قبول نہیں کیا۔ طویل جدوجہد کے بعد‘ صوبے بحال کرائے گئے اور جمہوری اصولوں کے تحت‘ پہلی بار آبادی کی بنیاد پر‘حلقہ بندیاں کر کے عام انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ فیصلہ کن اکثریت لے کر کامیاب ہو گئی۔قبل اس کے کہ ملک میں پہلی بار حقیقی نمائندے‘ملک کا دستور بنا کر جمہوری طرزِ حکومت کی بنیاد رکھتے‘ حکمران ٹولے نے تباہی پھیلا دی اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ بھارت کو مداخلت کا موقع مل گیا‘ جس کا اعتراف بھارتی وزیراعظم‘نریندر مودی نے گزشتہ روز ڈھاکہ میں خود کیا کہ مکتی باہنی کے ساتھ مل کر‘ پاکستان کے خلاف جنگ لڑی۔برصغیر کے مسلمانوں کا دیرینہ خواب ٹوٹ گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے تمام مواقع ضائع کئے ۔ پاکستانی عوام کی خوش قسمتی ہے کہ تاریخ ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے‘ جہاں سے ہم ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔قدرت نے اقتصادی راہداری کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔پہلا موقع ملا تو ہمارے سامنے ممکنات کی بے پناہ وسعتیں تھیں۔ اب مشکلات کے طوفانوں کا سامنا ہے۔ کیا ہم یہ امتحان‘ پاس کر سکیں گے؟(جاری)