چین نے میرین سلک رو ڈکے پاکستانی حصے کو اقتصادی راہداری قرار دیا ہے۔ یہ اصطلاح اس سڑک کے غیرفوجی مقاصد کی نشاندہی کرتی ہے۔ بھارت کا جنگی ذہن‘ اسے روایتی زاویوں سے دیکھتے ہوئے مقابلے کے پہلو ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اسی بنا پر وہ مختلف حیلے بہانوں سے اس راہداری میں ‘محاذآرائی کے امکانات ڈھونڈنے یا پیدا کرنے کی وجہ سے ‘تحفظات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ جہاں تک چین اور پاکستان کا تعلق ہے‘ ان دونوں ملکوں نے اسے جنگی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوتی جائے گی ۔ البتہ پاکستان کی بعض چھوٹی قومیتوں‘ جن کی سیاست کا انحصار ہی بلیک میلنگ پر رہتا ہے‘ کے لیڈر ایک بار پھر اس میں تصادم اور محاذ آرائی کے پہلو ڈھونڈنے میں لگے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بروقت دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے جن شکوک و شبہات کی بنا پر اقتصادی راہداری کے روٹ پر اعتراضات کئے گئے تھے‘ انہیں فوراً ہی دور کر دیا۔ کیونکہ یہ منصوبہ حقیقت میں تجارتی مقاصد کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین مستقبل میں روایتی محاذآرائی کے اثرات سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان میں جن داخلی قوتوں نے اقتصادی راہداری کی بنیاد پر فساد کھڑا کرنے کی کوشش کی‘ اسے ابتدا میں ہی ناکام بنا کر تعمیروترقی کے عمل میں خلل پڑنے کی راہیں بند کر دی گئیں۔ بھارتی اہل سیاست بھی وزیراعظم مودی کو اعلیٰ پائے کا دانشور نہیں سمجھتے۔ وہ انتظامی ذہن رکھنے والے سیاستدان ہیں‘ جنہیں مستقبل بعید کے منصوبوں کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ جہاں تک چینی قیادت کا تعلق ہے‘ وہ میرین سلک روڈ کو امن کا عظیم منصوبہ سمجھتی ہے۔ جس میں آخر کار دنیا کی تمام طاقتیںبتدریج حصے دار بنتی چلی جائیں گی اور اس طرح تاریخ جنگوں کے ذریعے آگے بڑھنے کی بجائے‘ امن کے نئے ماحول میں ارتقا پذیر ہو گی۔ چین‘ بھارت کے خدشات اور تصورات کو جنگی مقابلہ آرائی کے روایتی سانچے سے نکال کر‘ تجارت اور تعاون کی نئی راہیں دریافت کرنے کی طرف مائل کر رہا ہے۔ چونکہ یہ عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے‘ اس لئے سب کچھ درون پردہ ہے۔ وقت آنے پر اس کی تفصیل منظرعام پر آنا شروع ہو گی۔ اس کے لئے زیادہ عرصہ درکار نہیں ہو گا‘ کیونکہ بھارت کے تحفظات دور کرنے کے لئے چین کے پاس ٹھوس دلائل اور یقین دہانیاں موجود ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے طور پر بھارتی لیڈروں کی ان کوششوں میں ساتھ نہیں دے رہے‘ جن کے تحت وہ محاذآرائی کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ چین کی سیاسی قیادت تاریخی عمل کا شعور رکھتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عظیم سلک روڈ ‘ تاریخی طور پر امن کا راستہ ہے‘ جو صدیوں تک تجارتی مصنوعات اور ثقافت کو مشرق سے مغرب تک منتقل کرنے کا ذریعہ بنی رہی ہے۔ یہ چین‘ بھارت اور پاکستان کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے۔ قوموں کے باہمی اختلاط کے دو ہی طریقے رائج رہے ہیں۔ ایک حکمرانوں کا اور دوسرا تاجروں کا۔ حکمران فتوحات کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرتے تھے۔ فوج کشی کر کے علاقوں پر قبضے کرتے اور عوام کو غلام یا رعایا بنا کر ان پر حکمرانی کرتے اور جبر کے اس رشتے میں حاکموں کے طور طریقے اور رہن سہن غالب رہتے جبکہ محکوموں کا تمدن کمزور پڑتا۔ دوسرا طریقہ تاجروں کا تھا۔ وہ تجارتی رشتوں کے ذریعے دو مختلف تہذیبوں کو ملاتے اور اس طرح امن اور لین دین کے نتیجے میں دونوں تہذیبوں کی خوبصورتی نکھر کے سامنے آتی۔ چینی قوم کا مزاج ‘ جنگ کی بجائے امن کی طرف مائل رہا۔ یہ چین ہی ہے‘ جس نے حملہ آوروں کو روکنے کے لئے دیوار چین تعمیر کی تاکہ جنگوں سے محفوظ رہا جا سکے‘ لیکن تاریخ کے جبر نے چینی قوم کو بھی جنگوں میں دھکیلا‘ مگر جیسے ہی وہ جدید دور کی جنگی صلاحیتوں سے لیس ہو کر ناقابلِ تسخیر ہوئی‘ اس نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے امن کا راستہ اختیار کیا۔ میرین سلک روڈ درحقیقت چین کے اسی اسلوب کا عملی مظاہرہ ہے۔ یہ خیال ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی سے متعدد طاقتیں اس منصوبے سے منسلک ہونا چاہتی ہیں۔ اس بڑے اور عظیم منصوبے کے تحت‘ علاقائی ممالک کو سڑک‘ ریل‘ بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا۔ ایران ابھی سے اس منصوبے میں شریک ہونے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔ ایرانیوں کا اندازہ ہے کہ وہ اس کے ذریعے ایک کروڑ 20لاکھ مصنوعات کا لین دین کر سکتے ہیں۔ بھارت ہرچند ابتدائی طور پر پاکستان کی اقتصادی راہداری سے الگ تھلگ ہے‘ لیکن جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے‘ بھارت کے مفادات بھی اسے مجبور کریں گے کہ اس عظیم منصوبے کا حصے دار بنے‘ کیونکہ آخر میں میرین سلک روڈ کی منزل بھارت میں ہو گی۔ فی الحال وہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں دلچسپی لے رہا ہے اور چین بھی ایران کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ بھارت کو فی الحال دور کے راستوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اپنی جنوبی بندرگاہوں کو ایران کی شمالی سرحد کے قریب ترکمانستان سے ملا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایران نے ''جنوبی شمالی راہداری‘‘ بنانے کی تجویز بھی دی تھی تاکہ ایرانی بندرگاہ کے ذریعے بھارت کو شرق اوسط کے ممالک سے ملایا جا سکے۔ چونکہ بھارت ابھی تک خطے کو پاکستان دشمنی کی نظر سے دیکھ رہا ہے‘ اس لئے وہ شرق اوسط کے ساتھ رابطوں کے لئے پاکستان کے بغیر ہی کام چلانا چاہتا ہے‘ لیکن جب گوادر کی بندرگاہ تعمیروترقی کے منصوبے کے مطابق وسیع تر خدمات اور سہولتیں مہیا کر نے لگے گی اور شرق اوسط اور یورپ کے ملک براستہ پاکستان ‘ چین کی وسیع منڈی میں رسائی حاصل کریں گے‘ تو ظاہر ہے کہ امن کے ثمرات فراواں اور ارزاں ہو جائیں گے اور حتمی نتیجے میں بھارت کومحسوس ہو گا کہ وہ پرامن اور سستا انفراسٹرکچر دستیاب ہونے کے بعد بھی‘ دور کے راستوں کے اخراجات کیوں برداشت کر رہا ہے۔ اسے بھی بہرطور بچت کے راستے اختیار کرنا پڑیں گے۔ اس طرح ایران اور پاکستان کے ذریعے مشرق و مغرب کے درمیان خشکی کے مختصر راستے زیراستعمال آئے‘ تو وقت خودبخود پاک بھارت محاذآرائی کے اس حصے کو کشیدگی سے خارج کر دے گا۔ یہی چینیوں کی دانائی ہے کہ وہ عالمی رابطوں کا ایک نیا نظام آہستہ آہستہ تعمیر کرتے ہوئے‘ دنیا کی ساخت کو بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
فی الحال ہم اقتصادی راہداری کے ایک چھوٹے حصے پر توجہ دے رہے ہیں‘ لیکن جیسے جیسے اس کی علاقائی اور عالمی اہمیت بڑھتی جائے گی‘ ہمیں اندازہ ہوتا جائے گا کہ درحقیقت ہم نے وسیع ترین عالمی منڈی میں جا کر اپنے لئے خوشحالی اور وسعت کے کتنے نئے نئے راستے دریافت کر لئے ہیں؟ خصوصاً گلگت بلتستان اوراس کے ساتھ منسلک راستوں پر دنیا کی بلند ترین تجارتی منڈی معرض وجود میں آئے گی‘ جہاں برصغیر‘ چین اور وسطی ایشیا کی طرف سے آنے والے زمینی اور ہوائی راستوں کا اتصال ہو گا‘ تو دنیا کو پہلی مرتبہ اس خطہ جنت نظیرکے حسن سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا اور ایسے سیاحتی مناظر ان برفانی بلندیوں پر نمودار ہوں گے‘ جن کے سامنے سوئٹزرلینڈ کے نظارے ماند پڑ جائیں گے۔ فی الحال ہم صرف چین کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقتصادی راہداری کی افادیت کو دیکھ رہے ہیں‘ لیکن جب یہ میرین سلک روڈ کا حصہ بن کر ایک نئی دنیا کے دروازے کھولے گی‘ تو پھر ہمیں اندازہ ہو گا کہ پاکستان کس طرح ایک نئی عالمی منڈی کا جنکشن بن کر ابھرے گا۔ یہاں سے ایران ‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا اور پاکستان کی گیس کے ذخیروں سے نکلنے والی پائپ لائنیں چین اور بھارت کی طرف جائیں گی‘ جبکہ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں شمالی بھارت پر نزدیکی تجارتی راستے کھول دیں گی اور شمالی بھارت کے جو صنعتی مراکز بھارتی بندرگاہوں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہیں‘ پاکستان کی یہ دو بندرگاہیں نزدیکی راستے فراہم کریں گی۔ یادرہے‘ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں‘ شمالی بھارت کے صنعتی مراکز سے صرف گیارہ بارہ سو میل دور ہیں اور جب چین کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی سڑکیں اور ریلوے لائنیں تعمیر ہوگئیں‘ تو یہ ہزار میل کا راستہ چند گھنٹوں کا فاصلہ بن کر رہ جائے گا۔ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی ہے کہ انہوں نے اپنے ان دونوں ملکوں کو امن کے ثمرات سے محروم رکھا‘ جبکہ ان ملکوں میں محاذآرائی سراسر نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ اس کے برعکس پرامن راستوں کی فراہمی محض پاکستان نہیں‘ شمالی بھارت پر بھی خوشحالی کی نئی راہیں کھولے گی۔