جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے‘ پاکستان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ اس کی پالیسی کیا ہے؟ چھوٹی سی بات پر اس کی طرف سے اشتعال انگیزیاں ہونے لگتی ہیں اور پھر اچانک یوں لگتا ہے کہ اس کے رویے میں معقولیت آنے لگی ہے۔ اس کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو پھر ایک معمولی سا جھٹکا بھارتی رویے میں تبدیلی برپا کر دیتا ہے۔ ملکوں کے باہمی تعلقات میں اس طرح کا اتارچڑھائوبہت خطرناک ہوتا ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے‘ وزیراعظم پاکستان کو نئی حکومت کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کی دعوت دی‘ جس کا پاکستانی وزیراعظم نے خیرمقدم کیا اور بڑے اہتمام سے ان تقریبات میں شرکت کی۔ نتیجے میں بھارت کی طرف سے اچھی اچھی خبریں سننے کو ملیں اور یہ امید پیدا ہو گئی کہ بی جے پی کی انتہاپسند حکومت معقول رویہ اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ لیکن اچانک ہی اس نے مذاکرات کے طے شدہ پروگرام کو منسوخ کر کے‘ تعطل پیدا کر دیا اور پھر اچانک ہمیں اطلاع دی گئی کہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا جا رہا ہے۔ تعطل پیدا کرنے کی وجہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ پاکستانی سفارتخانے کا رابطہ تھا۔ یہ رابطہ ہو ا اورمذاکرات بھی ہو گئے۔ اسی طرح کٹھمنڈو میں سارک کانفرنس ہوئی‘ تو پہلے دو دن وزیراعظم مودی نے ہمارے وزیراعظم سے کسی قسم کی علیک سلیک تک نہ کی۔ اجلاسوں کے دوران ''اتفاقیہ‘‘ آمنا سامنا ہوا‘ تو مودی صاحب نے ہمارے وزیراعظم کو دانستہ نظرانداز کیااور پھر ایک آخری تقریب میں اچانک بڑھ کر ‘ ہمارے وزیراعظم سے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے گپ شپ لگانا شروع کر دی۔ حال ہی میں گورداسپور کا واقعہ ہوا تو بھارتی حکومت نے طوفان کھڑا کر دیا۔ اس کے سارے قابلِ ذکر وزراء‘ جو حکمران جماعت کے بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں‘ سب نے آگ اگلنا شروع کر دی اور یوں لگا جیسے اب سفارتی کشیدگی انتہا کو پہنچ جائے گی۔ پارلیمنٹ میں دھمکی آمیز بیانات جاری کئے گئے۔ ان کے وزیردفاع نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینا ہو گا۔ گورداسپور کے جس واقعے کو پاکستان کی دہشت گردی قرار دے کر طوفان کھڑا کیا گیا تھا‘ اس کے بارے میں خود ہی بھارتی طرزعمل میں تبدیلی آنے لگی۔ خود بھارتی انتظامیہ کے کئی ذمہ دار اراکین نے گورداسپور کے بارے میں بنائی ہوئی اپنی ہی کہانی میں عیب نکالنے شروع کر دیئے اور اب خود ہی اس کہانی کی سچائی میں طرح طرح کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے لگے ۔ گورداسپور کے واقعہ کے فوراً بعد کہا گیا تھا کہ اب پاک بھارت مذاکرات نہیں ہوں گے اور گزشتہ روز اچانک عندیہ دیا گیا کہ مذاکرات کا سلسلہ بحال ہونے والا ہے۔خارجہ امور میں اس طرح کی اچانک اور بلاوجہ اونچ نیچ کی بنیاد پر تعلقات کے تسلسل میں جو ناہمواری پیدا ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے دو ملکوں کے باہمی تعلقات میں بے یقینی بلکہ بدگمانی کا عنصر پیدا ہونے لگتا ہے۔ ایسا ماحول ہرگز قابل اعتبار نہیں ہوتا۔
خصوصاً ایسے ملکوں کے درمیان‘ جو دشمنی کی طویل تاریخ رکھتے ہوں۔ ان کے مابین جنگیں ہو چکی ہوں اور معمولی سے واقعات کی وجہ سے بھارت اپنی فوجوں کی بھاری تعداد سرحدوں پر لا کر ‘ حالات میں جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہو۔ گورداسپور کے واقعہ کے بعد ‘ بھارت کی حکمران جماعت کے لیڈروں نے جو اشتعال انگیز بیانات جاری کئے‘ وہ حددرجے کی اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتے ہیں اور پاکستان کو مشکل پیش آ رہی تھی کہ بھارتی حکمرانوں کے ان بیانات سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ بہتر ہوا کہ پاکستان نے ایسی ہنگامی تبدیلیوں اور دھمکی آمیز بیانات کے جواب میں تحمل سے کام لیا۔ اب بھارتی لیڈر خود ہی اپنے اختیار کردہ موقف سے پیچھے ہٹتے نظر آ رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ آنے والے چند روز میں باہمی رابطوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا۔ گورداسپور کے واقعہ پر کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ یہ لگتا تھا کہ حالات دونوں ملکوں کو تصادم کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بھارت کے حکومتی نمائندے ‘واقعے کی ذمہ داری ان دہشت گرد گروپوں پر ڈال رہے تھے‘ جو بھارتیوں کے بقول پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کی شہہ پر کام کرتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی نے‘ پاکستانی پالیسی سازوں کے لئے کرائسزسے نمٹنے میں مشکل پیدا کر دی اور دو ایٹمی ملکوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ ایسے حالات انتہائی اعصاب شکن ہوتے ہیں۔ ایک ہی لمحے میں دوطرفہ الزام تراشی اور جوابی کارروائیوں کی دھمکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ابھی پاکستان کے پالیسی ساز بھارتی دھمکیوں کی روشنی میں عملی اقدامات کی تیاریوں کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ایک دم ماحول کو معمول پر لانے کی نیم دلانہ کوششوں کا سلسلہ نظرآنے لگتا ہے۔ اس بار تو وزیراعظم مودی نے یہاں تک انتباہ کر دیا تھا کہ پاکستان کو مختلف محاذوں پر ہماری جوابی کارروائیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ ہمارا ردعمل لائن آف کنٹرول تک ہی محدود نہیں رہے گا اور دوسرے مقامات پر بھی اقدام کر سکتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں بھی مودی نے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت تبصرے کئے تھے اور سابق کانگریسی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے پاکستان کے سامنے کمزور پوزیشن اختیار کر رکھی تھی۔ مئی 2015ء میں بھارتی حکام پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اپنے وزیردفاع کے اس تبصرے کو سرکاری بیانات میں مرکزی اہمیت دینا شروع کر دیں کہ ہم دہشت گردی کا جواب‘ دہشت گردی سے دیں گے۔وزیردفاع ارون جیٹلی نے دھمکی دی کہ یہ کشیدگی پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی اور اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا ہو گا۔ وزیردفاع نے مزید کہا کہ اگر پاکستان نے اشتعال انگیزی کی ‘ تو بھارتی افواج کا ردعمل دوگنا طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اس بار ہمارا جواب فیصلہ کن ہو گااور پاکستان کی طرف سے جو تخریب کاری ہو گی‘ اس کا جواب کئی گنا طاقت کے ساتھ دیا جائے گا۔ 2013ء میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پر شدید حملے شروع کر دیئے۔ لائن آف کنٹرول پر حملوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ دونوں ملک جنگ کے کنارے تک پہنچ گئے تھے۔بھارت کے کم و بیش 10لاکھ فوجی حرکت میں لائے گئے اور2014ء سے 2015ء تک سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ اگر 2012ء کی سرحدی جھڑپوں سے موازنہ کیا جائے‘ تو 2014 ء اور 2015ء میں ہونے والی جھڑپیں کہیں زیادہ اور شدید تھیں۔ اس دور میں تجارتی اور سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں اور اس دوران باہمی تعلقات کا معاملہ کسی بھی سمت میں آگے نہ بڑھ سکا‘ نہ کشیدگی کی حالت میں تبدیلی آئی اور نہ تعلقات کی بہتری کی طرف پیش قدمی ہو سکی۔
پاکستان نے اب اقوام متحدہ کی طرف رجوع کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ وہ مودی حکومت سے ہماری مایوسی کا اظہار ہے۔ بے شک ہم ‘ بھارتی جارحیت کے مسئلے پر یو این کی جنرل اسمبلی میں معاملے کو اٹھانا چاہتے ہیں‘ لیکن مباحثے کے اس عالمی فورم پر کوئی ٹھوس اور سنجیدہ بات نہیں کی جا سکتی۔ خود بھارت نے دہشت گردی کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن اسے ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔ چین نے ویٹو کر کے اس کی شکایت کو غیرموثر کر دیا تھا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے متعدد معاملات‘ یو این میں لے جا کر مدد چاہی تھی‘ لیکن وہ بھی کچھ حاصل نہ کر سکا۔مودی حکومت اور ان کی جماعت سے کسی معقولیت اور عالمی اصولوں کی پابندی کی امید رکھنا لاحاصل ہے۔ اس کے ہر جارحانہ اقدام کا جواب‘ برابر کی سخت گیری سے دیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی انتہاپسند قیادت‘ جنگ کی طرف جا سکتی ہے۔ لیکن بھارتی سٹیٹسمین اور پالیسی سازی میں بااختیار ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ایٹمی ملکوں کی جنگ ممکن نہیں۔ مودی حکومت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ذخیروں کو حرکت میں لا سکے۔ ہمیں ڈپلومیسی کا جواب‘ ڈپلومیسی سے دینا ہو گا۔ ہم دونوں اسی کے پابند ہیں۔ مودی حکومت‘ پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں موجودہ زمینی حقائق میں کوئی ردوبدل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ سفارتی اتار چڑھائو جاری رہے گا۔ اس کا ہمیں بھی کوئی نقصان نہیں اور بھارت کو بھی۔ مودی حکومت کے اختیار میں صرف ایک ہی چیز ہے کہ وہ معاملات کو معمول پر لا کر‘ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے۔ مگر بی جے پی کی حکومت سے معقولیت کی امید رکھنا‘ تضیع اوقات کے مترادف ہو گا۔ غور سے دیکھا جائے تو پاک بھارت تعلقات کئی عشروں سے ایک ہی جگہ کھڑے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔