افغان خانہ جنگی کے خطرات

بھارت کے یوم آزادی پر لال قلعے کی روایتی تقریر میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے انتہائی اہم موضوع یعنی امور خارجہ پر اظہارخیال کرنے سے مکمل گریز کیا ہے۔ پاکستان ‘ ہر بھارتی وزیراعظم کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور اس بارجب نریندر مودی تقریر کر رہے تھے‘ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں جاری تھیں اور 14اگست کی شام کو بھی کشمیری مجاہدین آزادی اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ دیر تک دونوں طرف سے مقابلہ ہوتا رہا اور آخر میں مجاہدین نکل جانے میں کامیاب رہے۔ جب سے مودی حکومت آئی ہے‘ بھارت ‘ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ یوم آزادی کی تقریب میں بھارت کا ہر وزیراعظم اہتمام سے خارجہ پالیسی اور خصوصاً پاکستان کے بارے میں اظہارخیال ضرور کرتا ہے۔ مودی نے اس پورے موضوع ہی کو یکسر نظرانداز کر کے‘ دنیا اور بھارتی عوام کو آخر کیا پیغام دیا ہے؟ اس پر ہر طرف سوچ بچار اور خیال آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ہمارے لئے اس میں غوروفکر کے زیادہ پہلو پائے جاتے ہیں۔ چند ہی روزبعد پاکستان کے امورخارجہ کے مشیر جناب سرتاج عزیز‘ دہلی جا رہے ہیں۔ ان کے دورے کا واحد مقصد کشمیر کے سوال پر بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا ہے۔ بظاہرایسی صورتحال نظر نہیں آ رہی‘ جس میں مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے رویوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ بلکہ ماضی کی نسبت کشیدگی کا عنصر کچھ زیادہ ہے اور ایسے ماحول میں مذاکرات بحال کرنے کے لئے حالات موزوں نہیں ہوا کرتے۔ 
مجھے تویوں لگتا ہے کہ سرتاج عزیز کا یہ دورہ ‘ پاک بھارت دوطرفہ تعلقات تک محدود نہیں۔ اس مرتبہ توجہ کچھ اور سمتوں کی طرف بھی جاتی ہے۔ افغانستان کے حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ ملاعمر کے بعد طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں میں کسی طرح کی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ ملاعمر کی موت کی مصدقہ اطلاع اب آئی ہے کہ وہ دوسال پہلے وفات پا گئے تھے۔ ان کی موت کو راز میں رکھ کر کوشش کی گئی کہ مذاکرات کے ذریعے‘ ایسی راہ نکالی جائے‘ جسے اختیار کر کے کابل میں وہ حکومت قائم کر دی جائے‘ جس میں سارے گروپ کوئی نہ کوئی حصہ رکھتے ہوں اور وہ مجموعی پالیسیوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک اتفاق رائے کر سکتے ہوں۔ ملاعمر کی موت کی تصدیق ہونے کے بعد‘ طالبان کے اندر بھی گروپ بندی میں اضافہ ہو گیا ہے اور انتہائی خونریز خانہ جنگی کے امکانات نے‘ ان تمام ملکوں میں فکرمندی کی لہردوڑا دی ہے‘ جن پر افغانستان کی خانہ جنگی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ خصوصاً پاکستان‘ ایران‘ بھارت اور چین خانہ جنگی کے امکانات پر فکرمند ہیں۔ دوسری طرف مذاکرات کے امکانات مزیدکم ہو گئے ہیں۔ پہلے ملا عمرکی حمایت ملنے پر طالبان کے سارے گروپ بات چیت پر اتفاق کر لیا کرتے تھے۔ جیسے قطر میں ابتدائی اتفاق رائے ہوا تھا‘ جو زیادہ نہیں چل سکا۔ لیکن حالات بدلنے کے بعد بیجنگ میں طالبان‘ چین اور پاکستان کے درمیان جو مذاکرات ہوئے‘ ان سے دنیا کو کافی امیدیں پیدا ہو گئی تھیں اور اگلے دور کے لئے طے ہو گیا تھا کہ دوسرا اجلاس پاکستان میں منعقد کیا جائے گا۔ لیکن ملا عمر کی موت کی یقینی خبر نے حالات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ملا عمر کی جانشینی کا سوال ابھی تک متنازعہ ہے اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ‘ جس کی قیادت پر سارے گروپ اتفاق کر سکیں۔ ظاہر ہے‘ جب پڑوسی ملکوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے‘ تو طالبان کا ایک ہی گروپ مذاکرات میں شریک ہو سکتا ہے اور جب کسی کی قیادت پر اتفاق ہی نہیں ہو رہا‘ تومذاکراتی وفد کیسے تشکیل دیا جائے گا؟یہی بات پاکستان کو پریشان کر رہی ہے۔افغانستان کی اندرونی صورتحال بھی پاکستان کے لئے پھر ناسازگار ہو گئی ہے۔ کابل اور چند دیگر شہروں میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات پر‘ صدراشرف غنی کی حکومت مشکل میں پڑ گئی ہے۔ اس پر حامدکرزئی‘ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کے مختلف گروہوں کی طرف سے شدید دبائو آ گیا اور تمام گروپوں نے زور دینا شروع کر دیا کہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اشرف غنی کو ہمہ جہتی دبائو میںآ کر‘ مجبوراً پاکستان کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنا پڑا اور انہوں نے بغیرلگی لپٹی رکھے‘ پاکستان پر براہ راست الزام عائد کر دیا کہ ان دھماکوں کی تیاری پاکستان میں کی گئی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنے علاقوں میں ‘ دہشت گردی کرنے والے طالبان پر پابندیاں لگائے۔ جہاں تک پاکستان کے باخبر حلقوں کا خیال ہے‘ ہمارے ملک میں طالبان اس قابل نہیں رہ گئے کہ یہاں پر کوئی سازش کر کے‘ افغانستان میں دہشت گردی کے منصوبوں پر عملدرآمد کر سکیں۔ پاک فوج نے ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف زبردست مہم چلا رکھی ہے اور ان کے تمام قابل ذکر مراکز کو تباہ کر کے‘ انہیں دربدر کر دیا ہے۔ اب وہ اس قابل نہیں رہ گئے کہ پاک فوج کی نگاہوں سے اوجھل رہ کر کسی بڑے حملے کی سازش کر سکیں اور بھاری اسلحہ لے کر سرحد بھی پار کر جائیں۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کی نگرانی انتہائی سخت کر دی ہے اور اس نگرانی کی وجہ محض افغانستان نہیں‘ خود پاکستان ہے۔ ہمارے دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ ضرب عضب کے منظم حملوں کے بعد‘ طالبان فرار ہو کر افغانستان میں داخل ہو گئے ہیں۔ اب اگر وہ افغانستان کے اندر کوئی کارروائی کرتے ہیں‘ تو اس کی منصوبہ بندی اور تیاری وہیں پر کی ہو گی۔ موجودہ حالات میں ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا منصوبہ تیار کر کے‘ سرحدکے پار جانے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ حقیقت میں خود افغان حکومت کا کنٹرول ‘اپنے سارے علاقے پر نہیں رہ گیا۔ افغانستان کا بڑا حصہ آج بھی مختلف طالبان گروہوں کے زیراثر ہے۔ جس کی وجہ سے ہم یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ طالبان وہاں سے 
تیار ہو کر‘ پاکستان کے اندر آ کر کارروائیاں کریں گے۔حامدکرزئی ‘ افغانستان کی سیاست میں اتنا بھی بے اثر نہیں ہوئے کہ حالیہ انتخابی نتائج میں اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد ان کا اثرورسوخ ختم ہو گیا ہے۔ وہ طالبان کے مختلف عناصر کے ساتھ رابطے بھی رکھتے ہیں۔ چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ‘ پاکستان دشمنی میں ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ وہ اور حامدکرزئی دونوں‘ بھارت کے ساتھ گہرے روابط رکھتے ہیں۔ صدارت کا عہدہ‘ ان دونوں کی خواہشات کے خلاف اشرف غنی نے حاصل کر لیا ہے۔ اشرف غنی نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً ہی بعد اچانک پاکستان کے ساتھ رابطے بحال کر کے‘ اپنے سارے مخالفین کو چوکنا کر دیا اور صدر اشرف غنی نے تیزی سے پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی اور باہمی تعاون کے کئی منصوبوں پر فوراً ہی کام شروع کر دیا۔ جلد ہی چین میں مذاکرات کی ابتدا بھی ہو گئی۔ بنیادی طور پر یہ سہ فریقی مذاکرات تھے۔ جن میں افغان حکومت‘ طالبان کے نمائندے اور چین حصہ لے رہے تھے جبکہ پاکستان کی حیثیت مبصر کی تھی۔ابھی یہ مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہی تھے کہ ملاعمر کی موت کی خبر سے طالبان کے مختلف گروہوں میں جانشینی کا جھگڑا شروع ہو گیا‘ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آ رہی ہے اور فی الحال کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ طالبان کے کونسے گروہ کا لیڈر ‘ ملا عمر کا جانشین بن سکتا ہے۔ کئی دعویدار سامنے آ چکے ہیں اور نہ جانے مزید کتنے سامنے آئیں؟۔سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ طالبان باہمی فیصلے کرنے کے لئے روایتی طور پر اسلحہ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ مسلح گروہ آپس میں لڑ پڑے‘ تو افغانستان میں حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جائے گی۔ نتیجے میں جو خانہ جنگی برپا ہو گی‘ اس کے اثرات سے‘ ایران‘ پاکستان اور چین محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ یہ ہیں وہ خطرات جن سے بھارت محفوظ نہیں رہ سکتا۔ غالب امکان یہ ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ ان ابھرتے ہوئے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لئے بھارت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔ مودی حکومت کی افغان پالیسی ابھی واضح طور پر سامنے نہیں آئی۔چین اور بھارت کے باہمی تعلقات بھی اچھے نہیں اور افغانستان کی خانہ جنگی میںاگر پڑوسیوں نے اپنا اپنا حساب چکاناشروع کر دیا‘ تو کچھ بعید نہیں کہ یہ ملک ‘ افغان دہشت گردوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیں۔ چین دشمن دہشت گرد ‘پہلے ہی افغانستان میں موجود ہیں۔ جواب میں چین اور پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے اندر دہشت گردوں کا استعمال شروع کر دیا تو حالات مزید تباہ کن ہو جائیں گے۔ داعش کا افغانستان میں داخلہ ہو چکا ہے۔ اس نے طالبان کو مارنا بھی شروع کر دیا ہے۔ ایران پر یہ خانہ جنگی کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ ابھی تک واضح نہیں۔ مگر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایران بھی ‘اس خانہ جنگی سے الگ تھلگ نہیں رہ سکے گا۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے‘ جو چین اور بھارت کے تعاون سے ‘افغان خانہ جنگی کے اثرات سے بچنے میںسارے پڑوسیوں کی مدد کر سکتا ہے۔یہاں امریکہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس خانہ جنگی کو پھیلانے میں وہ یقینااہم کردار ادا کرے گا اور اس کی دلچسپی داعش میں ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں