ہمارے پیارے سیاستدان فوجی قیادت بارے same pageپر ہیں‘ یکساں خیالات کے حامل ہیں‘ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود یہ سب عسکری قیادت سے 'انتقام‘ پر متفق اور متحد ہیں‘اپنے پرائے ‘جانے مانے سب ہاتھ دھو کر پاک فوج کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے مودی ہے یااجیت کمار ڈول ہے؟ یہ تو Unity of Command کا پیشہ ورانہ فلسفہ ہے جس نے ملک و قوم اور پاک فوج کے ادارے پر آج تک آنچ نہیں آنے دی ۔کامل 75 برس بیت چکے ہیں ہمہ رنگ و ہمہ صفت چیف آئے اور چلے گئے لیکن اس کی ادارہ جاتی تکریم میں ذرا برابر کمی نہیں آئی ۔پاک فوج کے نظام ہائے کار کو سمجھنے کیلئے بریگیڈئیر صولت رضا کی آپ بیتی‘ خود نوشت ''پیچ و تاب ِزندگی (لائنز ایریا سے ہلال روڈ)‘‘ شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ 144 صفحات اور آٹھ ابواب پر مشتمل اس ادھوری داستانِ حیات میں پاک فوج کے بنیادی قواعد و ضوابط کو سمو دیا گیا ہے کہ کمانڈنگ آفیسر (CO) ہمیشہ درست‘ صحیح اور بالاتر ہوتا ہے اور یہ کہ پاک فوج‘ نیشنل نہیں پروفیشنل آرمی ہے۔ عرضِ مصنف میں بریگیڈیئر صاحب لکھتے ہیں ''میرے نزدیک اس کتاب کا ہر باب ایک الگ کتاب کا تقاضا کرتا ہے ۔اللہ کریم نے مہلت دی تو چند ایک ابواب کو ایکسٹینشن دینے کی کوشش کروں گا‘‘۔''رضی کے ابا‘‘ میں اپنے خاندان کی کہانیاں معصوم بچے نے بڑی بے ساختگی سے بیان کی ہیں۔ کومیلا کی انمٹ یادیں‘ ڈھاکہ کے گلاب جامن‘ سکول سے فرار پر ہونے والی چھترول‘ نجانے کیا کچھ بیان کردیا ہے۔ سنکھترہ ضلع نارووال میں اپنے آبائی گاؤں کا ذکر جس محبت اور والہانہ پن سے کیا ہے یہ انہیں کو زیبا ہے۔ پھر اس گاؤں سے جنابِ اقبال کے اجداد کا تعلق بھی بیان کیا ہے ۔صحافت میں کچھ نہیں بدلا‘کامل 70 برس گزر چکے لیکن حالات وہی ہیں لکھتے ہیں ''پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے دال چاول کے ٹھیلے پر گئے ایک پلیٹ کا آرڈر دیا اور دو چمچ طلب کئے ‘ ٹھیلے والے نے ہماری طرف دیکھا اور کہنے لگا: تم دونوں ساتھ والے اخبار میں کام کرتے ہو؟ اس اخبار سے جو بھی آتا ہے ایک پلیٹ کے ساتھ دو چمچ مانگتا ہے۔‘‘ اور آج تو حالات اس سے بھی ابتر ہیں۔ دوران ِانٹرویو جب اُن سے پوچھا گیا کہ ایم اے جرنلزم فوج میں مس فٹ نہیں ہوگا؟ تو بریگیڈئیر صولت نے واضح کر دیا کہ اگر باقاعدہ تنخواہ ملتی ہوتی تو کبھی بھی فوج میں کمیشن کیلئے درخواست گزار نہ ہوتا۔ بریگیڈئیر صولت رضا نے اپنی پسند ناپسند کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے وہ چونکہ ضیا مرحوم سے تعلق خاطر رکھتے تھے اس لئے انہوں نے شریف النفس اور از حد دیانتدار مرحوم محمد خان جونیجو کی بر طرفی کے سانحے کا ذکر گول کر دیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے سانحہ اوجڑی کیمپ کا سرسری انداز میں بھی تذکرہ نہیں کیا ‘لیکن ایک جنرل صاحب کے اپنے نام کے ہجوں کے بارے میں جنون کی حد تک تشویش کا مزے لے لے کر بیان کیا ہے ۔جنرل ضیا سے ان کے آرمی چیف بننے کے بعد پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جونہی جنرل ضیا صاحب کی نظر جونیئر افسروں کی جانب اٹھی اورمجھے فاصلے سے ہی پہچان لیا۔ ''صولت صاحب ‘ آپ کہاں؟‘‘ یہ آواز غیر متوقع تھی قائم مقام کورکمانڈر نے کہا سریہ میرا پی آراوہے۔ آئی ایس پی آر افسر ہے۔ اب جنرل ضیاالحق کی باری تھی‘ انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹک قلعے کی یادیں تازہ کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے اپنے سٹاف افسر سے کہا کہ بلوچستان میں قیام کے دوران کچھ وقت صولت صاحب کے لیے رکھنا ہے۔ میں نے گپ شپ کرنی ہے۔ آرمی چیف کے یہ ارشادات میرے لیے نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوئے۔ دفتر پہنچا تو دوتین صاحبان میرے دفتر کی تزئین وآرائش کے غم میں مبتلا تھے۔ میرا دفتر ہیڈکوارٹرکی عمارت کے سب سے زیادہ''نظرانداز‘‘ حصے میں واقع تھا۔ایک جانب بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بنانے کے لیے ڈارک روم بھی تھا۔ چند گھنٹوں میں قالین‘ فرنیچر‘ رنگ وروغن اورمعلوم نہیں‘ کیا سے کیا ہوگیا۔ دیواروں پر جہاں مستقل داغ دھبے تھے وہاں پروال پیپرز چسپاں کردیئے گئے۔''معاملہ کیاہے؟‘‘ ایک جوان نے بتایاکہ سر!نئے آرمی چیف آپ کے دفتر میں آرہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ ملاقات کاحکم دفترکے دورے کی افواہ بن چکی ہے۔ ایک اورواقعہ جو ذہن سے محو نہ ہوسکا وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹواورجنرل محمد ضیاکے مابین کوئٹہ کی ایک آفیسرز میس میں دلچسپ مکالمہ تھا ۔بھٹو صاحب بلوچستان کے دورے پر تھے۔ آرمی چیف جنرل محمد ضیاالحق اور چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل عبد اللہ ملک بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ میس میں لنچ تھا جس میں گیریژن کے کچھ اورافسر بھی تھے‘ بھٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں تشریف لائے۔نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل ٹکا خان بھی ہمراہ تھے۔ ابھی لنچ کی باضابطہ کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی۔ جوان افسر وصاحب کے گرد گھیرا ڈالے ان کی قادرالکلامی سے مستفید ہورہے تھے بھٹوصاحب کے‘ آبدار نے ''مشروبِ مغرب‘‘ سے بھرا گلاس ان کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے اردگرد دیکھا‘ ہر طرف خاموشی تھی۔ کسی نے آواز لگائی کہ آرمی میس میں ''نوشِ جاں‘‘کرنے پر پابندی ہے۔ کس نے لگائی ہے؟‘‘ بھٹوصاحب کی گرج سنائی دی۔ Where is Zia? (ضیاکہاں ہے؟) جنرل محمد ضیاالحق کچھ فاصلے پر مہمانوں کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے‘ انہیں اطلاع دی گئی کہ وزیراعظم یاد فرما رہے ہیں۔ وہ فوراًحاضر ہوگئے۔''جی سر!‘‘بھٹوصاحب نے پابندی کے بارے میں دریافت کیا تو بولے کہ میس میں ''نوش جاں‘‘ پر پابندی جنرل ٹکا خان کے دور سے ہے۔ بھٹوصاحب نے اپنا گلاس لہراتے ہوئے کہا کہ ''میں تو پی رہا ہوں‘‘۔اس موقع پر جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم کو تاریخی جملہ کہا: Sir, you are above the law(جناب آپ قانون سے بالاترہیں) یہ جملہ سن کر بھٹوصاحب پھولے نہیں سما رہے تھے‘ سب نے قہقہہ لگایا اوربات آئی گئی ہوگئی۔ بڑے عہدوں پر متمکن شخصیات کی گفتگو‘ بدن بولی اورنشست وبرخاست میں خیر اورشر کے پہلو موجود رہتے ہیں۔ دیکھنے اورسننے والوں کے لیے نصیحت ‘ وصیت اورعبرت کا سامان ہوتا ہے۔ کاش! بروقت غور کرلیا جائے۔
کوئٹہ میں سلسلہ ہائے روز وشب میں اتار چڑھاؤمعمول تھا۔ سردیاں خاص طورسے کڑا امتحان تھیں۔ اُس وقت کوئٹہ قدرتی گیس سے محروم تھا لہٰذا پتھر کے کوئلہ سے کام چل رہا تھا۔ سیاسی سطح پر کوئی خاص ہلچل نہیں تھی کہ اچانک سات جنوری 1977ء کو وزیراعظم بھٹو نے اعلان کیا کہ سات مارچ 77ء کو عام انتخابات ہوں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتوں نے جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود کی قیادت میں انتخابی اتحاد قائم کرلیا اورہل کے انتخابی نشان کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ پیپلزپارٹی کا نشان حسبِ سابق تلوار تھا۔ وطنِ عزیز میں جمہوریت کے نام پر ایک بار پھر معرکۂ حق وباطل برپا ہوا۔ ساتھ مارچ 77ء کو انتخابات منعقد ہوئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے 155 اورپاکستان قومی اتحاد نے 35 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کل نشستیں 200 تھیں۔ پاکستان قومی اتحاد نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھٹو کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور 5 جولائی 77 19ء کو مارشل لاء لگا دیا گیا ۔بریگیڈئیر صدیق سالک بار بار نصیحت کرتے رہے کہ ''کندھے اور کالر پر رینک دیکھ کر ہی مشقِ سخن کی جرأت کرنی چاہیے۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ اصل حقیقت کمانڈر ہوتا ہے‘ ضیا ہو تو بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیتا ہے ۔صولت رضا کی آپ بیتی‘ خود نوشت'' پیچ وتابِ زندگی (لائنز ایریا سے ہلال روڈ)‘‘ ایسی شاہ کلید ہے جو سابق وزیر اعظم عمران خان کو لازماً پڑھنی چاہئے کہ پڑھنے سے شعور اجا گر ہوتا ہے اور نئی راہیں کھلتی ہیں ‘بند دروازے وا ہوتے ہیں۔