"MEC" (space) message & send to 7575

سیاسی موروثیت، اب اور نہیں…!!

حالیہ منظرنامے میں‘ دھرنوں اور پاناما پیپرز کے منظر تمام ہونے کے بعد‘ پوری قوم متحارب پارٹیوں، فرقوں، برادریوں اور طبقوں میں بٹ چکی ہے۔ گھروں، گلیوں، سڑکوں، سوشل میڈیا، ٹی وی ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا‘ غرض ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ انتخابی عمل اور نواز شریف کی نظر بندی نے ملک کے اندر ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ہے۔ سیاسی قوتیں کسی صورت میں Status Quo سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ نہ ہی نواز شریف اور ان کے سیاسی حلیف کسی طور اقتدار سے محرومی برداشت کرنے کے موڈ میں ہیں۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے۔ شاید اقتدار بھٹو Legacy کی وجہ سے ان کی میراث بن گیا ہے۔
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کو اس مخصوص ذہنیت اور سیاسی تقسیم سے متنازع بنایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی توپوں کا رخ نگران حکومت اور تمام ریاستی اداروں کی جانب کیا ہوا ہے اور انہیں مسلسل شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ حالانکہ الیکشن کمیشن، عدلیہ، فوج اور نگران حکومتیں بارہا منصفانہ اور شفاف انتخابات کروانے کے عزم کا اعادہ کر چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ انتخابات میں شکست کے ذمہ دار ریاستی ادارے ہوں گے‘ اور مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور ان کے حلیفوں نے کچھ اداروں کی کارروائیوں کو پری پول رگنگ قرار دیا ہے‘ جبکہ نیب اور احتسابی عدالتوں نے اس عمل کو انتخابات کی وجہ سے ملتوی کر دیا ہے۔
حال ہی میں مولانا فضل الرحمن نے بھی 'اسلام خطرے میں ہے‘ کا نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے اپنے انتخابی جلسے میں برملا کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو اقتدار ملا تو اسلام نہیں رہے گا۔ ایسے سیاسی بیانیہ سے لگ رہا ہے کہ انتخابی عمل اس موروثی ذہنیت کی توقعات کے برعکس ہوا تو شاید عوام کا حق رائے دہی اور تبدیلی کی خواہش سیاسی قوتوں کو منظور نہیں ہو گی۔ اس بیانیہ کے پیچھے موروثی سیاست کے دوام اور احتسابی عمل کو روکنے کی خواہش کارفرما ہے۔ بلاشبہ اسی موروثیت کی وجہ سے ہمیں آج تک کوئی ویژنری لیڈرشپ میسر نہیں آ سکی‘ کیونکہ کبھی نچلے یا متوسط طبقے کو اقتدار و اختیار کے ایوانوں تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ یہ موروثی ٹولہ ہمیشہ اقتدار کو صرف اپنا حق سمجھتا رہا ہے۔ ان موروثی سیاستدانوں کو اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کرپشن کے خلاف احتسابی رائے عامہ اب کسی صورت میں اس عمل کو سبوتاژ نہیں ہونے دے گی اور لگ بھی یہی رہا ہے کہ احتسابی عمل کسی صورت میں رکنے والا نہیں۔
ہم من حیث القوم آج جس بے یقینی اور ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں‘ شاید ہی پہلے کبھی ہوئے ہوں۔ یہ قوم طویل آمریتوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد جمہوریتیں بھی دیکھ چکی ہے‘ لیکن مایوسی اور بلند بانگ دعووں کے سوا کسی سے کچھ نہیں ملا۔ حالیہ جمہوری دور میں کرپشن، اقربا پروری، بیڈ گورننس اور معاشی بد حالی نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی فرسودہ جمہوریت کے بعد حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی لولی لنگڑی جمہوریت اختتام پذیر ہوئی ہے‘ جس کے ثمرات آج یہ مل رہے ہیں کہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ چکا ہے‘ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں‘ لوڈ شیڈنگ کا عذاب زور و شور سے عوام پر مسلط ہے‘ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہیں‘ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے‘ پانی کا بحران سر اٹھانے کو تیار کھڑا ہے اور قوم کا بچہ بچہ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔
ہم ایک قوم کہلانے کے حق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ قوم حصوں میں بٹ کر سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس تقسیم کی بڑی وجہ سیاستدانوں کے بیانات ہیں‘ جو کبھی کسی صوبے کے لوگوں کو غیرت کے طعنے دیتے تو کبھی حیوانات سے تشبیہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی حریفوں پر کفر اور گستاخ ہونے کے فتوے لگانے تک سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہوں نے سیاسی مخالفتوں کے چکر میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ انہوں نے لعن طعن اور کردار کشی کی ایک ایسی روایت کو جنم دیا ہے جو قومی یکجہتی کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ سیاستدانوں کی جانب سے مخالفانہ بیانات کی وجہ سے عدم برداشت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔
اب ایک ایسے نجات دہندہ کی ضرورت ہے جو ہمیں اس ہیجان سے نکال کر ایک ویژنری قیادت دے سکے کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ ایسے میں عوام جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کس پر بھروسہ کریں؟ کیا ان پر بھروسہ کیا جائے جو پچھلے پانچ برسوں میں اپنی نام نہاد تجربہ کار ٹیم کے ساتھ قوم کو بحرانوں کے تحفے دے کر گئے ہیں۔ جنہوں نے سوائے اپنے اثاثوں کو وسعت دینے اور پیسہ بنانے کے کچھ کیا ہی نہیں۔ یا ان پر بھروسہ کریں جو تبدیلی کے نام پر انہی لوگوں کو سامنے لا رہے ہیں‘ جو کسی نہ کسی طرح عوامی مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ لوگ عوام کے مسائل حل کر سکیں گے جو اسی فرسودہ اور کرپٹ نظام کی پیداوار ہیں؟ سوال یہ ہے کہ عمران خان عوام کو تبدیلی کے جو خواب دیکھا رہے ہیں‘ وہ انہیں شرمندۂ تعبیر کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ بظاہر عمران خان کو جو دودھ کا پیالہ پیش کیا جا رہا ہے وہ خان صاحب کے اردگرد موجود بلوں کے منہ سے بچ بھی پائے گا؟
تو اب چوائس کیا ہے؟ میاں صاحب تو جیل کی ہوا کھا رہے ہیں اور قابل بھروسہ نہیں رہے۔ زرداری صاحب کو ایک بار موقع دے کر ہی عوام کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ اب رہ گئے خان صاحب جن کی اپنی ذات کی حد تک تو بلا شبہ کوئی بدعنوانی ثابت نہیں ہے اور وہ عوام الناس اور بیرونی دنیا میں ایک خاص مقام بھی رکھتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ عوام اس بار خان صاحب کو موقع دینا چاہیں گے اور شاید وہی اب کسی حد تک آخری امید بھی ہیں۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ کس طرح ریاست و عوام کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ لیکن اگر خان صاحب نے بھی اپنے حواریوں کے جھانسے میں آ کر اپنے پیشرو حکمرانوں کی روش اختیار کر لی تو قوم کی ہیجانی کیفیت کسی بڑے قومی المیہ سے کم نہیں ہو گی۔
جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ملک میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے‘ کیونکہ عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ اب عوام کو کھوکھلے نعرے نہیں بلکہ اپنے مسائل کا حل چاہئے۔ عوام روز روز کی نوٹنکیوں سے عاجز آ چکے ہیں اور بلا تفریق اور کڑا احتساب چاہتے ہیں۔ ایسا احتساب جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا اہل ہے اور کون نہیں۔ ایسا احتساب جس میں ارباب اختیار کو بھی ادراک ہو کہ وہ عوامی خدمت کریں گے تو ہی کرسیٔ اقتدار کے اہل ہو سکتے ہیں ورنہ ان کا ٹھکانہ بھی اڈیالہ جیل کے سوا اور کچھ نہیں‘ اور بلاشبہ اس میں Judicial Activism کا بہت اہم کردار ہو گا کہ وہ عوام کو کس حد تک ایک ایماندار لیڈرشپ مہیا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس لیے اب سیاستدانوں کو بھی اس موروثیت سے بالاتر ہو کر ملک کے لیے سوچنا ہو گا۔ بالخصوص میاں نواز شریف کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ جیسے اہم عہدے پر فائز رہنے کے باوجود انہوں نے ملک کو کیا دیا۔ انہیں اب خاندانی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور ان کی تحقیر سے سیاستدانوں کو باز رہنا چاہئے کیونکہ اس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا قائم ہو رہی ہے جو کسی طور ملک و ملت کے مفاد میں نہیں۔ عوام کو اب پیشہ ور سیاستدانوں کے چنگل سے نکل کر ایسی قیادت کو چننا ہو گا جو اپنے مفاد کے تحفظ کے بجائے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا حل تلاش کرے۔ عوام پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ ووٹ دیتے وقت ملکی مفاد کو پیش نظر رکھیں اور کسی بھی شخصی، علاقائی، لسانی یا پارٹی تعصب سے بالاتر ہو کر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ اسی صورت میں ہمیں سیاسی موروثیت کے ناسور سے نجات مل سکتی ہے اور بہتر قیادت میسر آ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں