کپتان کی نصف سنچری مکمل ہو گئی ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بے بسی، ہیجان اور بابوئوں کے درباروں میں ایک ہُو کا عالم ہے اور گہرا سکوت چھایا ہوا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے‘ گویا گردشِ دوراں تھم سی گئی ہو۔ ہر حکومتی شعبے کے سپریم کورٹ اور نیب میں کیسز زیر سماعت ہیں‘ اور ان حالات‘ اور نئی حکومت کی سادگی کی پالیسیوں کی بازگشت کے بعد اب پوری بیوروکریسی NO MORE کے موڈ میں آ گئی ہے۔ نئی حکومت اور احتسابی عمل کے تسلسل سے کوئی بھی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بن رہا‘ نہ ہی کوئی ڈلیوری نظر آ رہی ہے۔ پنجاب میں آج بھی پچھلی حکومت کی فوج ظفر موج کی ہر جگہ اجارہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 56 کمپنیوں کی تحقیقات میں نیب کی مطلوبہ ریکارڈ تک رسائی کی راہ میں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دن رات احتساب اور میرٹ کی رٹ لگانے والے انہی چہروں اور کرداروں کو کھلے بازوئوں سے گلے لگا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی اپنی کوئی سوچ، قابلیت اور انتظامی حکمت عملی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ تعمیری اور عوامی فلاح کے کاموں کی بجائے اب تک ڈی پی او پاکپتن جیسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بیوروکریسی سے خطاب میں کہا کہ آپ کو احتساب کے عمل میں ذلت کا سامنا نہیں ہو گا‘ ہم آپ کی پوری مدد کریں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہو گی اور تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ 70 سال پرانے انتظامی اور سیاسی کلچر کو پی ٹی آئی کی کمزور اکثریت تبدیل کر پائے گی؟ میرے خیال میں اس کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش سیاسی خود کشی ہو گی اور نتیجتاً پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو قابلِ عمل گورننس کا ماڈل سوچنا اور بنانا ہو گا۔
لگ یہ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی ٹیم موجود ہے۔ اسی وجہ سے سی پیک اور ایل این جی جیسے قومی اہمیت کے منصوبوں پر کوئی سوچ بچار نظر نہیں آتی‘ نہ ہی فیصلہ سازی کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی مشاہدے میں آ رہی ہے۔ اسی باعث وزرا کے متنازعہ بیانات حکومت کے گلے کا طوق بن رہے ہیں‘ اور بار بار یُو ٹرن حکومت کی سبکی کا باعث ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان خود بھی اہم اور حساس نوعیت کے فیصلوں سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ایسے تمام معاملات کو وہ Delegate کر دیتے ہیں‘ لیکن افسوس آج تک ان کے Delegates متنازعہ اور نا اہل لوگ رہے ہیں‘ اور ان کے فیصلے اور اقدامات تنقید کا ہدف بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان وزرا کی ٹیم بھی انڈر 19 کی طرح معلوم ہوتی ہے‘ جسے ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے میدان میں اتار دیا گیا ہو۔ جو ہر روز کوئی نیا مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور پھر ساری پارٹی اس کو سدھارنے میں جُت جاتی ہے۔ شاید اسی طرح پنگ پانگ میں 100 دن بھی گزار دیں گے۔
سنا تھا کہ مریخ سے دو سو تھنک ٹینک آئیں گے‘ اور اس ملک کو غربت کی پستیوں سے نکال کر ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیں گے۔ مریخ والے تو ان کی نادانیوں کو بھانپتے ہوئے غالباً کسی اور سیارے پر رک گئے ہیں‘ اور یہاں کے زمینی کنٹرول کے لیے صرف پختونخوا کے بابو تھنک ٹینک ہی رہ گئے ہیں‘ جن کو پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے حدود اربع اور کلچر کا شاید ہی کوئی ادراک ہو۔ ان تھنک ٹینک افسروں نے حال ہی میں خان صاحب کو اقتصادی Turn Around کے ایسے مشورے دیئے ہیں‘ جیسے اب ہم بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کر اقتصادی ترقی، ڈیم بنانے اور قرضے اتارنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ اس وقت معیشت شدید ترین بحران سے دوچار ہے۔ کوئی بھی Indicator بہتری نہیں ظاہر کر رہا۔ تجارتی خسارہ، بڑھتی ہوئی درآمدات، گردشی قرضے اور زر مبادلہ، سٹاک اور کرنسی کی گراوٹ جیسے مسائل پر ابھی تک کوئی جامع سوچ بچار اور فیصلہ سازی نظر نہیں آ رہی۔ اس بحران نے روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی 40 فیصد آبادی ان حکومتی مسائل سے نا بلد ہے۔ اس آبادی کے 'دو وقت کی روٹی‘ جیسے مسائل اور بھی گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے لئے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ حال یہ ہے کہ کاروباری مندی بالخصوص ہاؤسنگ سیکٹر کی بد حالی سے مزدور روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ روزمرہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور اسی باعث شاپنگ سنٹرز ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دگرگوں صورت حال اور معاشی و اقتصادی انحطاط پی ٹی آئی کی حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے لیکن مہنگائی کی تازہ لہر اسی حکومت کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ پہلے دور میں تجارتی و مالی خسارے میں اضافہ ہو رہا تھا، قرضوں کا بوجھ مقررہ حد سے زیادہ ہو گیا تھا۔ زر مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہو گئے تھے۔ بجلی اور گیس کا بحران بھی تھا۔ برآمدات کی شرح میں اضافہ اور درآمدات کی شرح میں کمی ہو رہی تھی۔ مگر آج یہ سب کچھ برقرار ہی نہیں‘ اس میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے‘ لیکن وزیر خزانہ صاحب فرما رہے ہیں کہ ''پاکستان کی معیشت کا اس وقت بائی پاس ہو رہا ہے، بائی پاس آپریشن کی کامیابی کے بعد معیشت ٹریک پر آ جائے گی‘‘۔ یہ آپریشن کب تک جاری رہے گا‘ کب نتیجہ خیز ہو گا؟ یہ بات سرجن کو خود بھی معلوم نہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے‘ اور حکومت نے ایک بار پھر یُو ٹرن لیتے ہوئے آئی ایم ایف سے بھاری قرض لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی طرح گورننس کے تمام شعبوں میں کوئی واضح حکمتِ عملی اور تیاری نظر نہیں آ رہی۔ اس کے علاوہ حکومت میڈیا مینجمنٹ میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔ وزرا دفاعی رویہ اپنانے کے بجائے جارحانہ رویہ اپناتے نظر آتے ہیں‘ جس کی وجہ سے میڈیا میں حکومتی مؤقف پیش کرنے کے بجائے الٹا تنقید کی زد میں آ جاتے ہیں۔ میڈیا کے حوالے سے حکومت کی دوستانہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا ہائوسز میں بھی شام غریباں کا سماں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت مسلسل میڈیا کی تنقید کی زد میں ہے۔
لگ یہ رہا ہے کہ ریاست کا نظام اس وقت ایک Troika چلا رہا ہے‘ جس میں فوج اور عدلیہ سول حکومت کی بیساکھیاں بنی ہوئی ہیں۔ چاہے ڈیم بنانے کا معاملہ ہو، لوٹی دولت کی واپسی ہو، قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن ہو یا دیگر انتظامی معاملات ہوں، فوج اور عدلیہ حکومت کے بازو پکڑے معاملات کو چلاتے نظر آ رہی ہیں۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اگر کسی بھی طرح یہ Troika ٹوٹا تو ریاست کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالیہ خارجہ پالیسی میں بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بڑا اہم کردار اد ا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عسکری ادارے منتخب سیاسی حکومت کی ہر طرح سے ملکی مسائل حل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ بلا شبہ باجوہ ڈاکٹرائن سے منتخب حکومت کو استحکام ملتا دکھائی دے رہا ہے۔
ابھی تک تو تحریک انصاف اسی بیانیہ کو دہرا رہی ہے کہ سابق حکمرانوں کے پیدا کردہ مسائل دنوں میں حل نہیں ہوتے۔ بلا شبہ ایسا ہی ہے اور یہ مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ برسوں کے مسائل دنوں میں حل نہیں ہوتے لیکن کوئی واضح صورتحال، کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تو محسوس ہونا چاہئے تاکہ جس سے مستقبل میں بہتری کی کوئی نوید ملے‘ لیکن یہ سو روزہ پلان عمران خان صاحب نے دیا تھا کسی اور نے نہیں۔ انہوں نے اپنے سو روزہ پلان میں عوام کو تبدیلی اور خوش حالی کے بہت سے خواب دکھائے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کو پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے اور 50 لاکھ لوگوں کو گھر مہیا کرنے کا عزم کیا ہے۔ کرپشن کے خاتمے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور تبدیلی کی امید میں ایک بڑی تعداد نے اس پلان سے توقعات قائم کر رکھی ہیں۔ لیکن اب تک جتنے اقدامات کئے گئے ہیں‘ ان سب نے غریب کی جھکی ہوئی کمر کو کچھ اور ہی جھکا دیا ہے۔ اپنی اننگز کے 50 دن کھیل کر عوام کو کیا ریلیف دیا ہے؟ کپتان صاحب... کچھ تو بتائیں!