حالیہ بیروت دھماکوں پر سخت عوامی رد عمل اور حکومتی نااہلی پر عوام کے غیظ و غضب میں اضافے کے بعد لبنانی وزیراعظم سمیت پوری کابینہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئی۔قوم سے خطاب میں وزیراعظم حسان دیاب نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بیروت دھماکے ملک میں بدترین انتظامی صورتحال اور بڑھتی ہوئی کرپشن کا نتیجہ ہیں۔بقول ان کے: لبنان میں کرپشن اورمافیازریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکے اور ریاست ان کے سامنے ہار چکی ہے۔ ان کے یہ الفاظ کوئی جذباتی تقریر نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ ہیں‘ کیونکہ حکومتوں کے اندر یا باہر بسنے والے بااثر مافیاز آج تمام ممالک خصوصاً تھرڈ ورلڈ جمہوری ممالک کابھیانک مقدر بن چکے ہیں جو ریاستوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
دنیا میں مافیاز کا تصور نیا نہیں‘ انیسویں صدی میں اٹلی میں سرا ٹھانے والے بدنام زمانہ Sicilian مافیا سے کون واقف نہیں؟اس منظم جرائم پیشہ گروہ نے تقریباً تمام بڑے کاروباروں اور ریاستی اداروں میں اپنی اجارہ داری قائم کی اور آج تک ان کا وجود کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔اسی طرح کولمبیا کے ڈرگ ڈان Pablo Escobarپر بھی ریاستی ادارے‘ فوج اورعدلیہ ہاتھ ڈالنے میں بے بس دکھائی دیئے‘ اور بالآخر امریکی انسدادِ منشیات فورسز اور FBI نے کولمبین اداروں کی معاونت کے ساتھ اس کا خاتمہ کیا۔
جمہوریت یعنی عوامی حکومت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوامی بالادستی ہو اور اقتدار عوامی سطح تک منتقل کیا جائے‘ مگرپاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کی روح کو مجروح کیا گیا۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ کوئی جمہوری حکومت حقیقی معنوں میں'' عوام کی‘‘ ،''عوام سے‘ اور'' عوام کیلئے‘‘ بن ہی نہیں پائی۔ آئین کا آرٹیکل 140 A کہتا ہے کہ ملک کا مالی اورانتظامی نظام مقامی حکومتوں کے سپرد کیا جانا چاہیے کیونکہ مقامی حکومت ہی اقتدار کو عوام تک منتقل کرنے کا واحد ذریعہ ہے‘ مگر پاکستان میں ہمیشہ مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے‘ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں اقتدار عوام تک پہنچنے کے بجائے مختلف اداروں اور چند مفاد پرست سیاست دانوں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے اور یہی لوگ ''مافیاز‘‘ کی صورت میں ہر اک شعبہ پرقابض ہیں‘ جو پورے کے پورے نظام پر ''ٹھیکیدار‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ وہ منتخب نمائندے جنہیں جمہوری نظام میں عوام کا خادم بننا تھا وہ مفاد پرست حکمران بن گئے‘ وہ پارلیمنٹرینز جن کی اصل ذمہ داری عوام دوست قانون سازی کرنا تھا وہ مفادِعامہ کو بھلا کر اپنی آسانیوں اورذاتی مفاد کے حصول میں پڑ گئے اور آج پاکستان میں موروثیت زدہ جمہوریت کا مستقبل مریم نواز اور بلاول بھٹوکی صورت میں دکھائی دیتاہے۔
پاکستان میں غیر مستحکم سیاسی نظام کی وجہ یہی سیاسی مافیاز ہیں جو حکمران بنتے ہی دولت لوٹنے کی ہوس میں تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ پھر چوری پر سینہ زوری کرتے ہوئے احتساب کیلئے کسی ملزم کی طرح نہیں بلکہ پھولوں کی پتیوں میں بادشاہ کی طرح پیش ہوتے ہیں‘ وکٹری کا نشان بناتے ہیں جیسے بہت بڑا اعزاز اپنے نام کر لیا ہو۔ پوری دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا‘ شمالی کوریا کی سابق صدر پارک‘ بنگلہ دیش کی خالدہ ضیا ‘ ملائیشیاکے نجیب رزاق‘ میکسیکو کے انریق پینا نیٹو‘ اور الجیریا کے دو سابق وزرائے اعظموں کو کرپشن الزمات پر مجرموں کی طرح ہی پیش کیا گیا‘ اور ندامت ان کے چہروں سے چھلکتی تھی۔مگر یہاں یہ دھونس ‘ دھاندلی صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ مافیاز کا غلبہ آپ کو ہر شعبہ میں دکھائی دے گا۔ کورونا کے دوران ہسپتالوں سے ادویات کا غائب ہونا روزمرہ کا معمول رہا ‘ لائف سیونگ انجکشن لاکھوں میں فروخت ہوتا رہا۔ ملک میں کوڑا اٹھانے سے لے کر بجلی بنانے تک کے غیر ملکی معاہدوں میں اربوں روپے کے گھپلے ہوئے‘ جہاں ایک ملین ڈالر درکار تھے وہاں چھ ملین خرچ ہوئے۔ماضی کی حکومتوں کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے بھی لوٹ مار کی غضب کہانی ہیں۔ اسی طرح پی آئی اے اورسٹیل مل سمیت وہ تمام قومی ادارے جو آج زوال کا شکار ہیں‘ وہ بھی مافیاز کی وارداتوں کا نتیجہ ہیں۔ گندم کے کاروبار میں چندبااثر کسان ‘ مڈل مین اور گھوسٹ ملز مالکان ہی سب سے بڑے مافیاز ہوتے ہیں‘ جن کا اثر و رسوخ اتنا ہے کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں گندم اور آٹے کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔چینی بحران پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2018 ء کے درمیان سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کرنے والے سب کے سب سیاستدان تھے۔یہ انکشاف بھی ہوا کہ حکومتی ریگولیشن میں لاپروائی کی وجہ سے چند شوگر ملز مالکان نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک اور رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ شوگرملز مالکان نے حکومت میں رہتے ہوئے 100 کھرب کے ٹیکس معاف کروائے ‘ مگر کوئی گرفت میں نہ آسکا؛ چنانچہ یہ تمام حقائق ہماری ریاستی کمزوری کا پردہ فاش کرتے ہیں۔
یہ مافیاز خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں‘ جب کبھی ان بڑے مگر مچھوں پر مقدمات بن جاتے ہیں تو تاریخ پر تاریخ چلتی جاتی ہے اور نتائج کچھ حاصل نہیں ہوتے کیونکہ ان مافیاز کی جڑیں ہر ادارے تک پھیلی ہوئی ہیں۔یہ افراد شاطر طریقوں سے مرضی کے فیصلے کروانے اور صورتحال کو مصنوعی رنگ دینے کے ماہر ہوتے ہیں جو برا وقت آنے پر ان کیلئے Safe Exit ثابت ہوں۔ ویسے بھی پاکستان میں قانون کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی کیسی ہے‘ یہ سب جانتے ہیں۔ ماضی کے ایک چیف جسٹس صاحب کا ایک اداکارہ کے خلاف سوئوموٹو کیس کا فیصلہ آنے میں نو سال لگ گئے۔ یہ کیس ہمارے قانون کی بالادستی اور نظام عدل کی توہین ہے۔ اسی طرح عدالتوں میں غذائی بحرانوں اور مافیاز کے خلاف متعدد کیسز سالوں سے زیر سماعت ہیں‘ مگر نجانے ان کے فیصلے کب اور کیسے آئیں گے؟
اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ملک کے غریب عوام ہوتے ہیں۔ مریض تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں اور ہسپتالوں میں سہولیات موجود نہیں۔ ایک تو ہمارا نظامِ تعلیم ناقص ہے اور وہ بھی تمام بچوں کو میسر نہیں ‘ آج بھی ملک کے دو کروڑ بچے سکولوں سے محروم ہیں۔ پورے پاکستان کو پالنے والے کراچی کی حالتِ زار لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت کی نااہلی سے پورا شہر سمندر میں بدل چکا جو اس بات کاثبوت ہے کہ گزشتہ 12 سالوں کے دوران گورننس کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ سندھ اور وفاق سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں کر رہے‘ کوئی اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہا‘ نہ ٹاؤن پلاننگ ہوئی نہ ترقیاتی بجٹ کا پیسہ استعمال ہوا‘ نہ نالوں کی صفائی ہوئی نہ اداروں نے بجلی پوری کی‘ نہ بھتہ خوری ختم ہوئی نہ عوامی مینڈیٹ کا لحاظ رکھا گیا۔
ملک میں گڈ گورننس کے حصول کیلئے ہر شعبے میں حکومتی رٹ قائم کرنا ضروری ہے‘ فقط یہ سمجھ لینا کہ نعروں سے پاکستان کے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی آجائے گی یا ''مافیاز‘‘ کے چال چلن درست ہوجائیں گے ‘ کسی خوش فہمی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ عمران خان صاحب جس کڑے احتساب اور شفافیت کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ویسا نظام دو سال گزر جانے کے بعد بھی کہیں نظر نہیں آرہا۔ ''مافیاز‘‘ آج بھی ملک کے اندر اور باہر آزادانہ دندناتے پھر رہے ہیں‘ جو ہر وقت کسی نہ کسی این آر او کی جستجو میں رہتے ہیں‘ جن کے ساتھ بعض اوقات ریاست کے بڑے اداروں کو بھی کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کہ یہ حکومت بھی نظام کو شفاف نہ بنا سکی۔ حکومت کے سامنے اب دو راستے ہیں‘ یا تو مافیاز اور ان مقامی Vikings سے کھلی ٹکر لے‘ انہیں بے نقاب کرے‘ ان کے سامنے ڈٹ جائے یا پھر وہ بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح مافیاز کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرلے۔