امریکہ جہاں اقوام متحدہ سمیت درجن بھر سے زائد انسانی اورڈبلیو ڈبلیو ایف کے حقوق کیلئے آوازیں بلند کرنے والے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ اسی امریکہ کے ہر اس شہری کو جھنجھوڑنے کیلئے کابل کے نواح میں واقع ایک گرلز کالج کی استانی حاجرہ حیمت یار کا خط پیش خدمت ہے‘جس میں سی آئی اے کی بر بریت کا نشانہ بننے والے اس کے باپ گل رحمان کی کہانی درج ہے:۔
''16 برس بیت چکے ہیں‘ لیکن آج تک سی آئی اے میرے باپ گل رحمان کی لاش کے بارے کچھ بھی نہیں بتا رہی کہ اسے کہاں پھینکا گیا؟ کہاں دفنایا گیا ؟ کہاں کچلا گیا؟ کہاں جلایا گیا؟ میرے باپ کو سی آئی اے نے صرف اس شک میں اغوا کیا کہ اس کا تعلق کسی جنگجو تنظیم سے ہو سکتا ہے اور اس غلط فہمی یا غلط اطلاع پر میرے باپ کو گرفتار کرنے کے بعد سی آئی اے اسے افغانستان میں اپنے ایک بدنام زمانہ ٹارچر سیل میں لے گئی‘ جس کی کوئی خبر نہیں دی گئی۔ اب گارڈین کی ذریعے پتا چل رہا ہے کہ میرے باپ گل رحمان کو سی آئی اے نے '' بلیک سائٹ‘‘ میں انسانیت سوز تشدد کرتے ہوئے قتل کر دیاہے۔ ایک خوشگوار صبح میرے والد گل رحمان مہاجرین کے کیمپ سے یہ کہہ کر نکلے کہ وہ اسلام آباد میں ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں‘ اس وقت سے اب تک ہم اپنے باپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس بات کو پندرہ برس گزر چکے ہیں اور ہم پاکستان اور افغان حکومتوں سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا باپ کہاں ہے؟ 2010ء میں ہمیں ایک غیر ملکی صحافی نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ گل رحمان کو اس نے سی آئی اے کے ایک خفیہ ٹارچر کیمپ میں دیکھا تھا ‘جو وہاں ہونے والے تشد دسے ہلاک ہو چکا ہے۔ میری دادی اماں جو اب انتقال کر چکی ہیں‘ وہ یہی کہتے ہوئے مر گئیں کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے اور وہ واپس آئے گا۔
میں اس وقت دس سال کی تھی ‘جب ہمارا باپ اپنی تین بیٹیوں کا پشتون معاشرے کی سخت رسم و رواج کے با وجود بہترین تربیت کر رہا تھا۔ افغانستان پرروسی قبضے کے خلاف جب جہاد زوروں پر تھا۔ اس وقت ہم چھوٹے چھوٹے تھے‘ لیکن مہاجرین کے کیمپ میں ہمیں مناسب خوراک مل رہی تھی۔ ہمارا باپ انتہائی مثبت خیالات کا مالک تھا۔وہ ہماری بہترین دیکھ بھال کے ساتھ کیمپ میں موجود دوسرے مہاجرین کے ساتھ انتہائی شفقت ا ور محبت سے پیش آتا تھا‘ میں چونکہ اس کی سب سے بڑی اولاد تھی‘ اس لئے اس کے بارے میں یہ کہتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خیالات کبھی بھی شدت پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کی جانب مائل نہیں رہے‘ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پشتون معاشرے کی سخت پابندیوں کی وجہ سے مجھے نوعمری میں ہی گھر میں بند کر دیتا۔
میرے باپ گل رحمان کا کسی بھی شدت پسند تنظیم سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ‘ہاں! اس کا ایک قصور ضرور تھا کہ وہ ہر ایک سے عزت سے پیش آتا‘ کیمپ کے رہائشیوں کے دکھ درد کو سمیٹتا‘ ان گھرانوں کی خاص طور پر نگہداشت کرتا‘ جن کے لوگ روسی کمیونزم کے خلاف جنگ کیلئے افغانستان میں موجود تھے۔آج جب برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے ساتھ اپنے باپ کی تصویر ہاتھ میں لیے ہوئے ہر امریکی شہری کو مخاطب کرتے ہوئے یہ خط لکھ رہی ہوں‘ تو اپنے شفیق باپ کا خوبصورت چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے ۔ میرے باپ گل رحمان کی زندگی کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے گارڈین لکھتا ہے کہ سی آئی اے کے ٹارچر کیمپ کے ایک گارڈ نے اسے بتایا کہ گل رحمان‘ کنکریٹ کے یخ اور ننگے فرش پر برہنہ حالت میں پڑا تھر تھر کانپ رہا تھا اور یہ20 نومبر2002 ء کی صبح اور 8 بجے کا وقت تھا ‘جب جسم پر جگہ جگہ لگے زخم اور منفی درجہ حرارت میں گل رحمان برفانی فرش پر اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔گارڈین میں اپنے باپ کی کسمپرسی اور شدید تکلیف کے ساتھ جان دینے کی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے وہ سب منا ظر ایک ایک کرتے ہوئے یاد آ رہے ہیں‘ جب روسی فوج کے قبضے کے بعد ہم اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے ہجرت کرتے ہوئے دشوار گزار رستوںسے پاکستان کی جانب پیدل بڑھ رہے تھے اور ہر وقت روسی طیاروں کی بم باری کاخوف تھا...!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کی زندگی کے سامنے دو رستے ہوتے ہیں؛ غلط اور درست ۔اچھا اور برا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان جس قدر چاہے‘ چھپائے اسے اپنے ہر کام اور عمل کے بارے میں دلی طور پر یقین ہوجاتا ہے کہ اس میں غلط کیا ہے اور درست کیا ہے۔اسی سچائی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ہر امریکی سے مخاطب ہوں اور میرا یہ خط اگر کوئی امریکی پڑھتا ہے یا نہیں‘ لیکن اس کے با وجود میں ہر امریکی سے سوال کررہی ہوں کہ اگر آپ کو یہ پتا چل جائے ‘تمام ثبوت اور سچائی آپ کے سامنے آ جائے کہ سی آئی اے نے ‘بے گناہ میرے باپ پر تشدد کے پہاڑتوڑتے ہوئے اسے قتل کر دیا ہے‘اپنے باپ کی کربناک چیخیں سنتے ہوئے ایک بیٹی کی حیثیت سے ہر امریکی کے سامنے یہ فریاد لے کر آئی ہوں کہ انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے مذہبی آزادیوں اور آزادی اظہار کے خدا بننے والوں سے کہیں کہ وہ سی آئی اے کو مجبورکریں کہ میرے باپ کی میت میرے خاندان کے حوالے کرے یا ہمیں وہ مقام دکھا دے‘ جہاں دفنایاگیا ‘‘۔
کا بل کے نواح میںایک سکول کی ٹیچر حاجرہ حیمت یار چیخ چیخ کر بے حال ہو رہی ہے کہ اس کے باپ کو امریکی سی آئی اے نے قتل کیا ہے‘ جس قدر حاجرہ حیمت یار کی آواز بلند ہوتی ہے‘ اسی شدت سے افغانستان پر قابض امریکی اور بھارتی ا فواج اور این ڈی ایس اسے دبانے کی کوشش کر رہی ہے ‘ایسا لگتا ہے کہ امریکی سی آئی اے‘ اسرائیلی موساد اور بھارتی راء نے دنیا بھر میں اپنے سیا سی اور مفاداتی مخالفین کوقتل کرنے ا ور کرانے کا اقوام متحدہ سمیت ہر ادارے سے لائسنس لے رکھا ہے ۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ غزہ میں مظلوم فلسطنیوں پر بر بریت اور مقبوضہ کشمیر میں دودھ پیتے بچوں کو پمپ ایکشن بندوقوں کے دھاتی چھروں سے زندگی بھر کیلئے اندھا کرنے والوں کے سرپرست امریکہ نے ویت نام سے لے کر کمبوڈیا‘ کوریا سے عراق‘ لیبیا سے شام ‘ سوڈان ‘ نائجیریااور پھر افغانستان میں کروڑوں انسانی جانوں کو اپنے پائوں تلے کچلنے والوں کیلئے دنیا کا کوئی قانون نہیں۔ دنیا بھر کے چوٹی کے مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست کو ایک ایک کرتے ہوئے پر اسرار طریقوں سے قتل کرنے والوں کے خلاف ایک ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلتی‘ لیکن امریکی سی آئی اے گذشتہ دو ماہ سے سعودی صحافی جمال خشوگی کے پر اسرار قتل پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دھمکیاں دیتے ہوئے بد ترین میڈیا ہتھیاروں سے بلیک میل کرتی چلی آ رہی ہے۔
نہ تو سی آئی اے کو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی پندرہ کے قریب دنیا بھر میں اپنی تحقیقات اور ایجادات کے نام سے مشہور و معروف مسلمان طبی‘ ایٹمی اور ٹیکنالوجی کے ماہر ترین سکالروں اور سائنسدانوں کو ایک ایک کرتے ہوئے قتل کرنے والی موساد سے پوچھا جا رہا ہے۔حاجرہ حیمت یار کا یہ درد بھرا خط صرف امریکیوں کیلئے ہی نہیں ‘بلکہ دنیا کے ہر اس انسان کے نام ہے ‘جو انصاف اور انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے۔