چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ جانے سے پاکستان کو بھی اپنی معیشت کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے اس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ پٹرول پمپوں پر ایک لیٹر پر یکدم دس روپے تک اضافے کے ساتھ تیل لینے اور دینے والے جب تبدیلی کا تمسخر اڑاتے ہیں ‘تو ان کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرانی کی وجہ سے کرنا پڑا‘ لیکن لاہور میں کارپارکنگ کے نرخ جو تیس روپے مقرر تھے‘ وہ چھ ماہ قبل یکدم پچاس روپے کیوں کر دیئے گئے اور یہ کس کی اجا زت سے کئے گئے؟ کیا اس میں وزیر اعلیٰ اور پنجاب حکومت کی مرضی بھی شامل ہے؟ اگر پارکنگ کے یہ نرخ محکمہ بلدیات یا لاہور کے نون لیگی میئر کو کہیں دوسری جگہ سے ملنے والے احکامات کی وجہ سے جان بوجھ کر عوام کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف بھڑکانے کیلئے بڑھائے گئے‘ تو کیا پنجاب کی پوری حکومت بھنگ پی کر سوئی ہوئی ہے؟
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو عوام کی جیبوں پر ڈالے جانے والے اس ڈاکے کی کوئی پروا نہیں ؟ذرا ذرا سی بات پر ٹویٹ کرنے والے حکومتی وزراء اتنے ہی بے خبر یا بے سدھ ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔ لاہور شہر میں جیسے ہی پارکنگ والوں نے ہر گاڑی والے سے زبردستی پچاس روپے لینے شروع کئے تو پوچھنے پر بتایا جانے لگا کہ جی آپ کو نہیں پتا‘ ملک میں تبدیلی آ گئی ہے! لاہور کے میئر اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے یہ پہلا نشتر تھا‘جس سے نون لیگ نے ہر گلی مارکیٹ اور سڑک پر عوام کو تبدیلی کا تمسخر اڑانے کا موقع دیا۔چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ وزراء ‘اراکین ِاسمبلی اور حکومت سمیت اپوزیشن کے لیڈران کیلئے ہر دفعہ پارکنگ کی مد میں یہ بیس روپے کوئی بات نہیں‘ لیکن جب آپ کو لاہور شہر میں دن میں دو یا تین مرتبہ گاڑی کی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑے تو یہ تکلیف دہ ہوجاتی ہے اور وہ بھی اس شرط پر کہ کسی گاڑی کی چوری یا کسی قسم کی خراش کی صورت میں پارکنگ کمپنی کسی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔
چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے حکمرانوں سمیت ان کے وزراء کو کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ لیکن کیا وہ یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کریں گے کہ اس کے اثرات کہاں تک پہنچ چکے ہیں؟گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں‘بھی کہہ رہی ہیں کہ ان کے کام کے پیسے بڑھائے جائیں۔ ان کا کہنا بجا ہے‘ کیونکہ چنگ چی رکشہ والوں نے پہلے سے دس روپے زیا دہ کرایہ بڑھا دیا ہے۔ اس لئے ان کا ماہانہ آمد و رفت کا خرچ ساٹھ روپے بڑھ گیا ہے ۔ جب یکلخت کرایوں میں دس روپے اضافے کا سبب پوچھا گیا تو ان رکشہ ڈرائیوروں نے کہا؛ آپ کو پتا نہیں‘ ملک میں ' تبدیلی ‘آ گئی ہے! اب تحریک انصاف اور اس کے وزراء کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کی آمدنی پہلے سے کم ہو گئی ہے۔ نچلے اور درمیانے درجے کے ملازمین کی تنخواہیں‘ وہیں پر جامد ہیں اور ان کو دفاتر آنے جانے کیلئے اب پٹرول کیلئے پہلے سے بھی زیا دہ خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
پٹرول اور ڈالر کی اڑان کی وجہ سے عام شخص سے لے کر درمیانے طبقے کے لوگ جس تکلیف اور کرب سے گزر رہے ہیں‘ اس کا اندازہ کسی کو نہیں‘ کیونکہ کر پٹ اہل کاروں ‘ کمیشن خور مافیا‘ ملاوٹ اور مہنگے نرخوں کو لاگو کرنے والے تاجروں‘ خوشحال دکانداروں اور امرائ‘ جن کی تعداد ملک بھر میں کسی طور پر بھی پچاس لاکھ سے زیا دہ نہیں ‘وہ کیسے جان سکتے ہیں کہ بیس کروڑ سے زائد سفید پوش درمیانہ طبقہ اور غریب کس بری طرح چکیوں میں پس رہے ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے وزراء جو یہ کہتے ہوئے ستم رسیدہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑ ک رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتیں تو عالمی سطح پر بڑھ چکی ہیں۔ دبئی‘ بھارت اور لندن میں بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں‘ تو جناب کیا وہاں پر ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میںکوئی اضافہ ہو ا ہے؟ وہاں نانبائیوں نے روٹی کی قیمتیں بڑھائی ہیں؟ وہاں ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں؟ کیا دبئی اور لندن میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھانے کی کسی کو اجا زت دی گئی ہے؟کیا وہاں پر رشوت اور کمیشن کی وصولی بھی شروع ہو گئی ہے ؟وزیر اعظم کا گھیرائو کئے ہوئے عوام دشمن عنا صر‘ جنہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ غریب کا گھر کیسا ہوتا ہے‘ جو پانچ سو روپے کی ادویات نہ ملنے پر ہسپتالوں کے بر آمدوں میں ایڑھیاں رگڑتے ہوئوں کو کبھی دیکھ ہی نہیں سکے‘ انہیں کیا پتا کہ غریب اور غربت کیا ہے۔
وہ اقتدار جوتحریک انصاف کے کئی لاکھ بے لوث کارکنوں ‘ حامیوں کی دن رات کی جدو جہد اور عمران خان کے ملک بھر میں جلسوں اور دھرنوں میں اپنی جانیں ہتھیلیوںپر رکھ کر جدو جہد کرنے والوں کے خون اور رستے ہوئے زخموں سے ممکن ہو سکا‘ اس اقتدار کے مزے دس بارہ مفاد پرستوں پر مشتمل یہ اقتدار پرست ٹولہ جی کھول کر لوٹ رہا ہے ۔ کیا یہ وزراء جنہیں لوگ جانتے ہیں‘ عمران خان کے ملتان کے جلسہ ٔعام میں پائوں تلے کچلے جانے والے دس شہیدوں کے نام کیا ہیں؟ کیا وہ پشاور اور مردان سمیت سوات کے ان درجنوں غریب کارکنوں کو بھول گئے‘ جن کی خاک آلود ہڈیوں نے انہیں اقتدار کی مسند پر بٹھانے میں مدد کی۔کیا وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے ان شہید کارکنوں کی قربانیوں کو بھول گئے‘ جنہوں نے عمران خان کے انتخابی حلقے میں انتخابی دفتر کھولنے کے جرم میں اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں؟کیا اس کارکن کے گھر والوں کو آج عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کا کوئی پھل مل سکا یا یہ صرف وزراء میں ہی بانٹا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے غریب کارکنوں کے خون سے لہلاتی ہوئی‘ جوان فصل کو پکنے سے پہلے نوچنے والے وزراء کے روز و شب میں تو حیرت انگیز تبدیلیاں آ چکیں اور یہ صرف ان تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ اس تبدیلی کے ثمرات ان کے خاندان اور ان کے دوست بھی خیر سے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں۔یہ وہ تبدیلی نہیں‘ جس کا خواب دکھایا گیا تھا۔ یہ وہ تبدیلی نہیں‘ جس کیلئے ہمارے جیسے نہ جانے کتنے قلم کاروں نے دن رات اپنی زندگیاں دائو پر اس لئے لگا ئے رکھیں کہ عوام کے دکھ سمیٹے جائیں گے اور ان کیلئے عزت سے دو وقت کی روٹی مہیا ہو سکے گی!اگر غربت دیکھنی ہے ؟اگر قیامت کے منا ظر دیکھنے ہیں ؟اگر بھوک کے بازار دیکھنے ہیں تو کبھی وقت نکال کر نشتر کالونی‘شاہدرہ‘ فیروز پور روڈ سڑک کے دونوں جانب اچھرہ‘ ملتان چونگی‘ ہنجر وال‘ امیر چوک‘ رسول پورہ‘ گڑھی شاہو ‘ کوٹ لکھپت‘ ہر بنس پورہ‘ ریلوے کالونی‘ پنڈی سٹاپ‘ غازی روڈ جیسی چند ایک غریب آبادیوں میںسے گزرکردیکھیں تو سوائے ہلاکو اور چنگیز خان کے ہر انسان کے ہوش اڑ جائیں گے۔ان گلیوں میں کمزور اور سوکھے ہوئے ننگ دھڑنگ بھاگتے کھیلتے ہوئے بچے‘ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل ہو تی عورتیں اور مرد دیکھ کر ایسا لگے گاکہ جیسے کسی زندہ قبرستان میں آ گئے ہوں۔ عبا دت کیلئے ہم مسجدوں میں تو جاتے ہیں‘ لیکن اگر کسی دن خدا کے خوف سے لرزتے‘ توبہ کے بند دروازوں کو کھولنے کو دل کرے‘ تو ان گلیوں کے چکر لگائیں ‘آپ کو پتا چلے گاکہ غربت کیا ہے او ریہ بھی دیکھنا کہ آپ کی تبدیلی نے ان کا کیا حشر کر دیا ہے۔