"MABC" (space) message & send to 7575

پیالہ کہیں چھلک نہ جائے

جس طرح مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے حکومت سازی کرتے رہے‘ کاش تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی زیادہ نہیں تو کم ا زکم اتنی پارلیمانی طاقت مل جاتی کہ انہیں اپنے دائیں‘ بائیں اور آگے پیچھے دیکھنے میں وقت ضائع نہ کرنا پڑتا۔ کاش یہ لولی لنگڑی حکومت ان کے نصیب میں نہ ہوتی۔ ایک طرف نواز شریف تھے جو سادہ اکثریت حاصل کر لینے کے بعد اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی تکمیل کرتے رہے جبکہ تحریک انصاف کی حالت یہ ہے کہ اسے ہمہ وقت اپنے تسمے باندھنے میں ہی مصروف رکھا جا رہا ہے۔ پی ڈ ی ایم اور اس کے قدردان میڈیا اینکرز گرج برس رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے 16 اراکین قومی اسمبلی نے سینیٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو اپنا ووٹ دینے کیلئے مبینہ طور پر پیسے لئے ہیں تو پھر انہی اراکین سے وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ کیوں لیا؟ اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سولہ ارکان تحریک انصاف سے تھے بھی یا نہیں کیونکہ تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 157 ہے اور اعتماد کا ووٹ دینے والوں میں ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے ، بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی وغیرہ کا تعلق بھی اتحادی جماعتوں سے ہے۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز حکومت پر غصہ یا تنقید ضرور کریں لیکن اس کی مجبوریاں، محتاجیاں اور بے بسی بھی اپنے سامنے رکھیں۔ اگر اسے آخری دو اوورز میں بائولنگ یا بیٹنگ دے کر کہا جائے کہ چار وکٹیں لے لو یا چالیس رنز بنا دو تو کیا یہ ممکن ہے؟ کیا میچ میں شکست کی ساری ذمہ داری آخری اوورز میں بیٹنگ کرنے والے بلے باز یا بائولنگ کروانے والے بائولر پر ڈالی جا سکتی ہے؟اگر ووٹ ضائع کرنے والے اور پی ڈی ایم کے امیدوار کو ووٹ دینے والوں کا تعلق تحریک انصاف کے بجائے اتحادی جماعتوں سے ہوا تو ان کو کیسے نکالا جا سکتا ہے؟
عمران خان سے اپنے اور بیگانے شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کے مشیر نااہل ہیں‘ حکومت وہ کچھ نہیں کر رہی جس کا وعدے کر کے آئی تھی۔ شاید حکومت پر یہی سب سے بڑا اعتراض ہے جو کسی حد تک درست ہے کیونکہ تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کو جو چیز گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے وہ مہنگائی کے بعد کمزور، لاپروا اور ان کی مخالف سمت میں چلنے والی انتظامیہ ہے، جسے یا تو احساس نہیں کہ ان کو دی جانے والی پوسٹنگ ان سے کیا کام کرنے کا تقاضا کرتی ہے، یا وہ جان بوجھ کر ایسا تاثر پیدا کر رہی ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور اس کا سبب سمجھانا کچھ دشوار نہیں۔ اس وقت پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ کے بیشتر افسران ذہنی اور سیاسی طور پر تحریک انصاف کے انتہائی مخالف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور مجھے چند انتہائی اعلیٰ افسران نے ایک ملاقات میں یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اس وقت اکثر ضلعی افسران اپنی نجی محفلوں میں حکومت سے متعلق انتہائی قابلِ اعتراض الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ کیا سابقہ دورِ حکومت میں ایسا سوچا بھی جا سکتا تھا؟ نجانے پنجاب میں وہ کون سا خفیہ ہاتھ اور سازشی ذہن کام کر رہا ہے جو فرض شناس اور تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے افسران کو یا تو پوسٹنگ دیتا ہی نہیں‘ اگر دے بھی دے تو ان کو پوسٹنگ کے تیسرے ماہ ہی تبدیل کر کے پھر سے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے یا اکثر ان کا تبادلہ دوسرے صوبوں بالخصوص سندھ میں کر دیا جاتا ہے جہاں پی ٹی آئی مخالف حکومت ہے۔ ویسے تو ان افسران کی بیشتر تعداد اس وقت OSD بنا ئی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اعلیٰ افسران حیران ہیں کہ کیا صوبائی اور وفاقی حکومت اس ساری صورتحال سے بے خبر ہے یا... اگر موجودہ حکومت کے پاس وہی اکثریت اور اسی قدر مینڈیٹ ہوتا جو میاں نواز شریف یا پیپلز پارٹی حکومتوں کو میسر آیا تھا تو ہو سکتا ہے کہ کپتان کو عوام اپنے اصلی رنگ میں دیکھتے، لیکن پی ٹی آئی حکومت کو چند اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر چند دن بعد کھسک جاتی ہیں۔ ہمارے گوگا استاد نے پی ٹی آئی کی حکومت سازی کے ابتدائی دنوں میں ہی بتا دیا تھا کہ اس جماعت کو پہلے دن سے ہی باندھ کر کرسی پر بٹھایا گیا ہے اور یہ کہ اس حالت میں عمران خان کبھی بھی اپنا کپتانی والا رنگ اور طریقہ کار نہیں دکھا سکیں گے، لوگ جلد ہی حکومت سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہونے پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں گے۔ آج حالات سب کے سامنے ہیں کہ ابھی حکومت کو بنے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ لوگوں نے تبدیلی تبدیلی چلانا شروع کر دیا تھا۔ انسان تبھی اپنی مرضی کر سکتا ہے جب اس کے ہاتھ پائوں کھلے ہوئے ہوں۔ جس حکمران کے پاس عوام اور ملک کی بہتری کیلئے قانون منظور کرانے کی ہی طاقت نہ ہو‘ اس سے بڑی بڑی امیدیں کیسے وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ جو اتحادیوں کی منظوری کے بغیر اپنی مرضی کی انتظامیہ منتخب نہیں کر سکتا وہ کیا کرے گا؟ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے معاملے کو ہی لے لیجئے، یہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب صوبائی حکومت، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے پاس قانون سازی کا مینڈیٹ نہ ہو، اور پی ٹی آئی کی اسی کمی کو جنوبی پنجاب صوبے کے حامیوں کو گمراہ کرنے کیلئے خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔
1998ء کا قصہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے چھ اراکین اپنے حلقوں میں کچھ افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کیلئے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پاس گئے لیکن شہباز شریف نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ ممبران کہنے لگے کہ کل کو ہم نے اپنے حلقوں میں ووٹ مانگنے ہیں‘ ہم جب لوگوں کے کام ہی نہیں کرا سکیں گے تو ہمیں ووٹ کون دے گا؟۔ اس پر وزیراعلیٰ نے درشت لہجے میں کہا: ووٹ لوگوں کے نہیں پارٹی کے ہوتے ہیں۔ اس پر ایک ایم پی اے بو ل اٹھا: جناب ہماری برادریوں کے بھی ووٹ ہوتے ہیں۔ اس پر ان سب کو ڈانٹتے ہوئے کہا گیا: اگر تمہیں برادریوں کے نام پر ووٹ ملتا ہے تو تم لوگ پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن میں چلے جائو، وہاں بڑی جگہ ہے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد محض سات تھی۔ آج پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہچکولے کھا رہی ہے‘ اگر کسی ایک ایم پی اے یا کسی ایک اتحادی جماعت کی بات نہ مانی جائے تو وہ حکومت گرانے سے کام پر بات ہی نہیں کرتے۔ گجرات، چکوال اور بہاولپور وغیرہ کے قصے کون نہیں جانتا۔ 1997ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کو 207 کے ایوان میں 137 نشستیں ملی تھیں اور بیس آزاد اراکین کے ساتھ ملنے سے یہ تعداد 157 ہو گئی تھی جبکہ اس وقت نواز لیگ کی سب سے بڑی مخالف جماعت پیپلز پارٹی کو ملک بھر سے صرف 18 نشستیں مل سکی تھیں۔ اب اندازہ کیجئے کہ جب گلیاں ہوون سنجیاں تے وچ مرزا یار ''جو چاہے‘‘ کرے۔ یکم مارچ 2018ء کو نواز لیگی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے تک مسلم لیگ کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 191 تھی اور اسے اس دورِ حکومت میں بھی کسی گروہ یا دھڑے کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی‘ جو چاہا قانون پاس کرا لیا اور ایک لمحے کے لیے بھی اس کے سر پر عدم اعتماد یا بلیک میلنگ جیسی کوئی تلوار نہیں لٹک رہی تھی۔ یہی حال پنجاب میں شہباز شریف حکومت کا تھا، دوسرے لفظوں میں راوی ان کیلئے چین ہی چین لکھ رہا تھا۔قومی اسمبلی میں 341 کے ایوان میں تحریک انصاف کی صورت میں اپوزیشن کے صرف 35 اراکین حکومت کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ 126 روزہ دھرنا بھی حکومت کو کچھ نہ کہہ سکا۔
آج قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد 156 ہے جبکہ اتحادیوں میں ایم کیو ایم کے7، مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی تعداد 5، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، جی ڈی اے کے 3،جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کی ایک ایک نشست کے علاوہ دو آزاد اراکین ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت آٹھ گروپوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے‘ ان سب کے تقاضے اس قدر بے ہنگم اور تکلیف دہ ہیں کہ ہمہ وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں صبر کا پیالہ چھلک نہ جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں